ہدایت کے تارے۔اصحاب ِ کبارؓ شمع فروزاں

طارق اعظم

جہالت کی تاریکی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ کسی کو کھرے کھوٹے میں تمیز کرنا نہیں آتا تھا۔ جسے جو جی چاہتا تھا،بلا خوف و حزن کر لیتا تھا۔ اخلاقی گراوٹ ، بے پردگی ، بے شرمی ، قتل و غارت اور نہ جانے کس کس بیہودگی کو فروغ دیتے تھے۔ جنگ و جدال کا نشہ کم ہونے کے بجائے انہیں اور بڑھتا تھا۔ کبھی کبھی ایک قبیلے کا سردار اپنی نسل کو وصیت کرتا تھا کہ فلانی قبیلے سے میرا انتقام لے کے ہی رہنا، وہ جنگ سال ہا سال چلتا رہتا تھا اور بے شمار مالی و جانی نقصان ہوجاتا تھا۔ لیکن انہیں ذرا برابر بھی احساس نہیں ہوتا تھا، کیوں کہ ان کے اندر ضمیر مر چکا تھا۔ اَنّا کے دریا میں ڈوب گئے تھے۔ عقل و دانش غفلت کے ٹیلے تلے دب چکے تھے۔ غرض کہ سر زمین عرب کو ظلمت نے چار سو گھیر کے رکھا تھا ۔ لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ ہر شام کے بعد سحر ، ہر غم کے بعد خوشی ، ہر پستی کے بعد رفعت اور ہر ظلمت کے بعد نور آ ہی جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے اس جہالت کی اندھیری میں نورِ عرفان اور رشد و ہدایت کا چراغ روشن کیا ۔ جس کے نورِ اخلاق سے، ہدایت سے، اور اخوت سے ہزاروں لاکھوں انسان منور ہوگئے۔ پھر وہ فیضیاب انسان اس قدر نیک ،صالح اور فرمابردار بن گئے کہ خود اللہ پاک قرآنِ کریم میں فرمایا کہ یہ مجھ سے راضی ہوگئے اور میں ان سے راضی ہوگیا۔ اتنی بڑی بشارت کسی اچھی خاصی زھد و تقویٰ کے بعد ہی مل جاتی ہے۔ تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے دلوں میں کس معیار کا ایمان تھا۔ ان فرشتہ نما انسانوں کی تعلیم و تربیت کس مقام کی ہوگئی تھی بلکہ فرشتوں کو بھی ان پر بہت دفعہ رشک آیا ہے۔ یہاں تک کہ ربّ العالمین کی رحمت سےیہ ذی عزت انسان لبریز ہوئے ، برکت سے سرشار ہوئے اور محبت سے سیراب ہوئے۔ ساتھ ساتھ فرمایا کہ یہ سب جنتی ہیں۔ ہمارے لیے ان کا ایمان معیار رکھا گیا ہے کہ تم بھی ایسے ہی ایمان لائے، جیسے ایمان لایا ہے آپ سے پہلے لوگوں نے ۔ یہاں مراد ہے وہ لوگ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ِ عظمیٰ اور عظیم تربیت سے مستفید ہوگئے۔ یعنی حضراتِ صحابہ کرامؓ ۔ ہاں! لفظِ صحابہ سنتے ہی فوراً ذہن میں پاکیزگی، طہارت ، اخوت، ایثار ، قربانی، امانت داری، دیانت داری، رواداری، ہمدردی ، غمخواری اور اخلاق و آداب کے خیالات آتے ہیںاور مضطرب دل کو سکون ملتا ہے۔ کیونکہ یہ لوگ اوصافِ حمیدہ کے پیکر اور اسلام کے جانثار ہیں۔ اپنا مال جان اولاد سب کا سب دین ِ محمدؐ پر بے تحاشہ لٹا دیا۔ جہاں پانی کی ضرورت ہوا کرتی تھی ،وہاں اپنا پاکیزہ لہو پیش کیا۔ میں ناچیز کیا ان کی عظیم قربانیاں ، ان کے ایمان کی حرارت اور ان کے خلوص کی کیا تعریف کرسکتا ہوں۔ جب کہ ام الکتاب قرآنِ کریم ، احادیث کے کتب اور تواریخ کے اوراق جامعہ الفاظ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قابلِ رشک ساتھیوں کی عظمت، رفعت، عقیدت، شان اور مقام بیان کر رہے ہیں۔ ان کے ایثار کی ، حیا کی، محبت کی اور اخلاص کی مثاليں دے رہے ہیں۔ چشمِ فلک کہہ رہی ہیں کہ ہم نے پہلے نہ اس قدر کے انسان دیکھے تھے اور نہ دیکھیں گے اور جبینِ زمین اظہار کر رہی ہے کہ مجھ پر پہلے نہ ایسے گداز لوگ چلے تھے نہ چلیں گے۔ بلکہ اس حدیثِ پاک سے صحابہؓ کرام کا مقامِ ِایمان پتہ چلتا ہے کہ ایک دفعہ مُحمد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کرام ستاروں کے مانند ہیں۔ پس ان میں سے جس ایک کی بھی اقتدا کرو گے ہدایت پائوگے۔ یہ ایک قسم کا تصدیق نامہ ہے صحابہؓ کے ایمان پر ۔ جسے انگریزی میں authentication کہتے ہیں، کیوں کہ صحابہ کرام نے اپنی زندگيوں میں اللہ اور اللہ کے محبوبؐ کے تمام فرمودات بجا لائے ہیں۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا ، کھانا پینا، سونا جاگنا، اوڑھنا بچھونا اور طرزِ تجارت غرض کہ زیست کا ایک ایک لمحہ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشے مبارک پر ہوا کرتا تھا۔ جب بھی دین کو کسی چیز کی ضرورت پڑی تو صحابہؓ نے اپنا آپ پیشِ نظر رکھا۔ پیغمبرِ اسلام جنگ کا اعلان کرتے تھے تو صحابہ کرام اپنی جان اور اپنے مال کے ساتھ خلوصِ دل سے لبیک لبیک کرتے تھے۔ چنانچہ سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ دین کی سربلندی کے خاطر ان لوگوں نے کس جوش و ولولے کے ساتھ باطل پرستوں کو نیست و نابود کیا اور حق کی الم کو ہر دم اور ہر جگہ لہرایا۔ جس صحابہ کے پاس جو بھی صفت تھی ،اسے دین کی اشاعت کے لیے استعمال کیا۔ کسی صحابی کے پاس اگر مال و دولت تھا تو اُسے دین پر خرچ کیا ۔ یوں تو سارے صحابہ کرامؓ نے دین پر خرچ کیا لیکن ایک دو کا میں یہاں قلم طراز کرتا ہوں۔ حضرت عثمانِ غنی ؓ مشہور مال دار صحابی ہے۔ حیا کا پیکر اخلاق کا سرچشمہ تھا۔ اس عظیم انسان نے امت پر کتنے احسان کئےہیں ہم گن بھی نہیں سکتے ہیں۔ ٣٥ ہزار درہم میں ایک کنواں خریدا اور نبی اکرمؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضر کرتا ہے کہ اس بیرِ رومہ کو تمام مسلمانوں کے واسطے قیامت تک وقف کرتا ہوں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ تدوین ِ قرآن یعنی قرآنِ پاک کے جو الگ الگ قبیلوں کے رسم الخط تھے۔ ان سب کو منسوخ کر کے صرف ایک رسم الخط کا انتخاب کیا تاکہ امتِ مسلمہ میں اتحاد قائم رہیں۔ ایسے ہزاروں واقعات ہیں، جن سے پتہ چل جاتا ہے کہ صحابہؓ نے کتنی قربانیاں دی ہیں دین کی اشاعت اور دین کی سربلندی کی خاطر۔ حجتہ الوداع کے وقت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جانثار ساتھیوں سے فرمایا۔ میرے عزیزو !جو دین میں نے آپ تک پہنچایا، اسے غائبین تک پہنچانا، تواریخ گواہ ہے۔ مورخین نے لکھا ہے کہ جس صحابہ کا منہ جس جانب تھا، وہ اسی طرف دین کی تبلیغ کے لیے چل پڑا۔ اپنے وطن سے اپنے اہل و عیال سے بہت دور تک گئے۔ اپنے وطن اور اہل و عیال کی محبت کے حصار سے باہر نکلنا آسان نہیں ہے۔یہ وہی لوگ تھےجو مختلف ملکوں میں داخل ہوگئے۔ نئے نئے لوگوں سے ملے ،اور دین ِ اسلام کو فروغ دیتے رہے۔ یہاں ایک واقعہ یاد آیا کہ ایک بڑے ملک میں دو اصحابِ رسول تجارت کر رہے تھے۔ چونکہ صحبت ِنبوت سے فیض یافتہ تھے، تجارتی اصول و ضوابط سے باخبر تھے، لیل و نہار اپنی مدار میں گردش گزار ہیں اور یہ تاجر بھی اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کی تجارت نے وہاں کے لوگوں پر اتنا اثر ڈالاکہ بادشاہ کو خبر ملی کہ غیر ملک کے کچھ تاجر اس طرح سے تجارت کر رہے ہیں، جس میں عدل و انصاف کا دریا بہہ رہا ہے۔ بادشاہ نے بلایا،جانچ وغیرہ کی، معلوم ہوا کہ یہ مسلمان ہیں۔ پھر رعایا توکیا بادشاہ تک مشرف ِ اسلام ہوگئے۔ یونہی نہیں فرمایا گیا تھا کہ صحابہ ہدایت کے تارے ہیں۔ کیوں کہ ان کا جینا مرنا، کھانا پینا ، کمانا اور کاروبار سب اسلام ہی تھا۔ زمین کے چپے چپے پر صحابہ کرام ؓ نے جو محنت کی، اُسی کے نتیجے میں تابع وجود میں آئے اور پھراولیا ٕ اللہ کی شکل میں ایک سے بڑ ھکر ایک علمائے کرام پیدا ہوئے۔ مسلمانوں تعداد بڑھ گئی۔ مساجد ، مدارس اور خانقاہیں قائم ہوئيں ۔ مگر یہ سب کچھ صحابہ کبارؓ کی قربانیوں اور اخلاص کا پھل ہے۔ لہٰذا ایمان ہم سے یہ بھی تقاضا کرتا ہے کہ صحابہ کرام ؓسے بے کراں محبت کی جائے۔ ان کی شان میں چھوٹی سی چھوٹی گستاخی سرزد نہ ہوجائے۔ جناب ِرسول اللہؐ بار بار فرمایا کرتے تھے کہ میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو ۔چنانچہ ایک حدیث ہےجوحضرت عبد اللہ بن مغفل ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا:’’میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، ان کو میرے بعد ہدف اور نشانہ ملامت مت بنانا، یاد رکھو جو شخص ان کو دوست رکھتا ہے، تو وہ میری وجہ سے ان کو دوست رکھتا ہے، اور جو ان سے دشمنی رکھتا ہے تو وہ مجھ سے دشمنی رکھنے کے سبب ان کو دشمن رکھتا ہے اور جس شخص نے ان کو اذیت پہنچائی، اس نے گویا مجھے اذیت پہنچائی، اور جس نے مجھے اذیت پہنچائی، اس نے گویا خدا کو اذیت پہنچائی اور جس نے خدا کو اذیت پہنچائی، تو وہ دن دور نہیں، جب خدا اس کو پکڑے گا۔
بہت دُکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ ہم نے زندگی میں ان ہی با کمال ہستیوں کو بھلا دیا ہے، جن کے نقشِ قدم پر چلنے سے کامیابی قدم چوم لیتی ہے۔ اللہ اور اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہوجاتے ہیں، جہنم سے خلاصی ملتی ہے اور جنت مقدر بن جاتی ہے۔ لیکن ہم فکری غلام بن چکے ہیں، مغربیت کے تعاقب میں منزلِ مقصود سے نا آشنا ہوگئے ہیں۔ ہمارے پاس اتنا بھی وقت نہیں رہا کہ ہم سیرتِ صحابہ کا مطالعہ کریں، بلکہ بات یہاں تک پہنچی ہے کہ ہم قرآن سے بھی دور ہوگئے ہیں۔ لہٰذا ہمارے لئے لازمی ہے کہ زندگی کو معنی خیز بنانے کے لیے دامن ِ صحابہؓ کو مضبوطی سے پکڑیں۔ اللہ تعالی ہمیںا صحاب ِکبارؓسے محبت رکھنےاور انکے طریقے پر زندگی گزارنے کی توفیق عطا کریں۔
) رابطہ۔6006362135)
[email protected]