ہابیلؑ سے امام حسین ؑ تک داستان ِعزیمت ِمردانِ حُر

ڈاکٹر عریف جامعی

مومن صادق رب کائنات کے سامنے خود سپردگی کے ساتھ ہی سیدھے راستے کی جو دعا مانگتا ہے اس میں ’’صراط الذین انعمت علیھم‘‘ (یعنی ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا) کے اضافے کے ساتھ ہی واضح ہوجاتا ہے کہ راہ حق کے متلاشی کے ذہن میں ان تمام گل ہائے سرسبد کا تصور آموجود ہوجاتا ہے جو ابتدائے آفرینش سے اس راہ میں فکر و خیال کے ساتھ ساتھ جان و مال کی بازی لگاتے آئے ہیں۔ قرآن مقدس ایک طرف اس انعام یافتہ جمعیت کا تعارف نبیین، صدیقین، شہداء اور صالحین (النساء ۶۹) کے طور پر دیتا ہے اور دوسری طرف ان کی صفات کی نشاندہی کرکے قیامت تک کے لئے ان کے اعمال اور نصب العین کو ایک دستاویزی شکل دیکر محفوظ کرتا ہے۔ یہی لوگ ماضی کے پچھتاؤں کے ساتھ ساتھ مستقبل کے اندیشوں سے بری ہوتے ہیں اور انہی کے دامن اللہ تبارک و تعالی کی سلامتی اور رحمت کا مہبط بنتے ہیں۔
ڈاکٹر علی شریعتی، جو ایرانی انقلاب کے نظریہ سازوں میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں، کے مطابق فلسفیانہ اور صوفیانہ مذاہب کے بانیین، جو اپنے آپ کو طبقہ خواص سے منسلک کرتے آئے ہیں، کے مقابلے میں پیغمبران کرامؑ ہمیشہ طبقہ عوام سے متعلق رہے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کا خواص کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا ہے، بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ انہوں نے معاشرے کے سواد اعظم کو ساتھ لیکر انسانیت کی اصلاح احوال کا بندوبست کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مخاطبین میں سے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ طبقہ اعلی یا الیٹ کلاس بھی ان کے خیرخواہی پر مبنی اصلاحی کام کو ’’جوں کی توں حالت‘‘ (اسٹیٹس کو) یا بالفاظ دیگر اپنی سرداری اور پیشوائی کے لئے خطرہ تصور کرتے آئے ہیں۔ قرآن نے ان دونوں طبقوں، جو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم رہے ہیں، کا مختلف پیغمبروں کی سرگزشت میں ایک خاص پیرائے میں ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک طبقے کے لئے ’’ائمہ الکفر‘‘ (کفر کے پیشوا) کی ترکیب استعمال کی گئی ہے، جبکہ دوسرے گروہ کے لئے ’’ملاء الذین کفرو‘‘ (منکرین کے سردار) کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ موخر الذکر طبقہ دراصل اول الذکر طبقہ کا آلہ کار بن کر عوام میں ’’جوں کی توں حالت‘‘ کو دوام بخشنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
کئی پیغمبروں، جیسے ہود ؑ اورصالح ؑ کے ادوار میں ان دو طبقات کو الگ کرنا ذرا مشکل ہے، کیونکہ یہاں پر دونوں طبقات معاشرتی ترقی میں حاصل شدہ سطح کے مطابق ایک ساتھ متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم ابراہیم ؑ کے دور میں آپ کا والد (آزر) باضابطہ طور پر حکمران ِوقت (نمرود) کا آلہ کار بنا ہوا تھا۔ موسٰی ؑکی دعوت کے خلاف ہامان اور قارون (اگرچہ وہ موسیٰ کی قوم میں سے تھا) نے فرعون کے ترجمان بن کر بنی اسرائیل کی راہیں مسدود کیں۔ عیسٰیؑ کو بھی صلیب تک پہنچانے میں بنی اسرائیل کے ان افراد نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جو رومی حکومت کے کارندے تھے۔ رسالتمآب ؐ کے ارد گرد جب معاشرے کی نچلی سطح کے لوگوں کے ساتھ ساتھ بلال حبشیؓ، صہیب رومیؓ اور سلمان فارسیؓ جیسے مختلف رنگ و نسل کے لوگ جمع ہوئے تو قریشی سرداروں جیسے عتبہ، شیبہ، ابوجہل، ابولہب، وغیرہ نے اس پر ناک بوں چڑھائی۔ ’’بڑائی‘‘ کے اسی تصور کے باعث قریش کے یہ ’’بڑے‘‘ حسد کی آگ میں جل بھن رہے تھے اور علی الاعلان کہہ رہے تھے کہ ’’اگر کسی کو پیغمبر بن کے آنا ہی تھا، تو دو بڑی بستیوں (مکہ اور طائف) میں سے کسی ’’بڑے‘‘ کو یہ ذمہ داری کیوں نہ دی گئی؟‘‘ (الزخرف۔ ۳۱) واضح رہے کہ ’’بڑائی‘‘ کی یہ نفسیات بالعموم مختلف انسانی معاشروں کی ایک قدر مشترک رہی ہے۔ اس سلسلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب اللہ تعالی کے حکم سے طالوت بنی اسرائیل کے بادشاہ مقرر ہوئے تو قوم نے اس تقرر پر یہ کہہ کر سوال اٹھایا کہ طالوت کے پاس ’’بڑائی‘‘ کی کوئی بات (یعنی مال و زر اور اولاد) نہیں ہے۔
بہرحال بڑائی کا یہی احساس انسانوں کو انفرادی اور اجتماعی، ددنوں سطحوں پر پہلے حسد میں اور اس کے لازمی نتیجے کے طور پر شر و فساد کرنے پر مائل کرتا آیا ہے۔ قرآن مقدس میں ہابیل اور قابیل کی سرگزشت کے ذریعے انسانی نفسیات کی اسی فتنہ انگیزی کو پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی کے مطابق انسان اس وقت چراگاہی معیشت (پسٹورل اکونامی) سے نکل کر زرعی معیشت (ایگرو اکونامی) کے دور میں داخل ہوچکا تھا۔ چراگاہی معیشت فطرت کے قریب تر ہونے کی وجہ سے اپنی فطری سادگی اور بے غرضی کی وجہ سے خدا اور بندگان خدا کے لئے وقف ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہابیل کی قربانی کی قبولیت ایک طرح سے اسی نفسیات، جس میں خلوص رچا بسا ہوتا ہے، کی پاکیزگی کا ایک اعلان ہوتا ہے۔ اس کے برعکس قابیل کی قربانی، اس کے دل کی قساوت اور رویے کی خود غرضی کی وجہ سے، اس کے منہ پر ماری جاتی ہے۔ اب بجائے اس کے کہ قابیل اپنے اندر جھانک کر قربانی کے قبول نہ ہونے کے وجوہات جاننے کی کوشش کرتا، وہ حسد کی آگ میں جل اٹھتا ہے اور ہابیل کو قتل کرنے کا تہیہ کرلیتا ہے۔ ہابیل اپنی طرف سے ہر قسم کے دفاع اور مزاحمت سے محض اللہ کی خاطر دستبردار ہوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ قابیل اپنے بھائی کو قتل کرنے میں کامیاب تو ہوجاتا ہے لیکن اصل اور ابدی کامیابی ہابیل کے ہاتھ آجاتی ہے۔ اس طرح قابیل کے حصے میں صرف پشیمانی آجاتی ہے اور اسے بھائی کی نعش اپنے کاندھوں پر لیے لیے پھرنا پڑتا ہے۔ پھر وہ اپنے آپ کو اس کوے سے بھی گیا گزرا سمجھتا ہے جو اسے بھائی کی نعش کی تدفین سکھاتا ہے۔
سیدنا حسینؑ کو اپنے اعوان و انصار سمیت شہید کرکے بنو امیہ بھی دراصل اپنے آپ کو قابیل جیسی صورتحال سے دوچار کرتے ہیں۔ نواسہ رسول ؐ کو استبدادی سوچ کے زیر اثر جس بے رحمانہ اور سفاکانہ طریقے سے شہید کیا گیا، یہ طریقہ کار بنو امیہ کی پوری مدت حکمرانی کا طرہ امتیاز بنا رہا۔ کہاں امیر معاویہؓ کی مدبرانہ سوچ کہ جس کی وجہ سے سیدنا حسن ؓ نے ان کے ساتھ صلح کی اور کہاں یزید کی نا اہلی کہ اپنے کمانداروں کی میدان جنگ کی کارگزایوں سے نہ صرف ناواقف رہا بلکہ بہتر (۷۲) نفوس کی مختصر جمعیت سے معاملہ طے نہ کرسکا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امیر معاویہؓ کی سیدنا علیؓ کے ساتھ محاذ آرائی کے دوران ایک بار بازنطینی حکمرانوں نے صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے سرحد پر فوج اکٹھی کرنا شروع کی۔ امیر معاویہؓ نے صورتحال کی خبر ہوتے ہی بازنطینیوں کو للکارتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے اپنے بھائی (سیدنا علیؓ) سے معاملات ٹھیک کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔’’ مطلب صاف واضح تھا کہ حالات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نا کریں۔ اس دھمکی کا اتنا فوری اثر ہوا کہ بازنطینی کسی قسم کی کاروائی نہ کرسکے۔
اس کے برعکس یزید اپنے والد کی فعاملہ فہمی اور تدبر سے کوسوں دور تھا۔ نتیجتاً اسی کج فہمی کا مظاہرہ یزید کے کمانداروں نے بھی کیا جب وہ سیدنا حسینؓ کے استدلال اور جرأت کے سامنے پسپا ہونے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا حسینؓ کی طرف سے پیش کی جانے والی تین تجاویز:
۱۔ مجھے چھوڑ دو کہ جہاں سے آیا ہوں، وہیں چلا جاؤں۔
۲۔ یا مجھے یزید کے پاس جانے دو۔
۳۔ یا مجھے چھوڑ دو کہ کسی سرحد پر چلا جاؤں۔
کو بھی یزید کے کمانداروں نے قبول نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ تینوں تجاویز میں صلح جوئی اور خیر سگالی کا جذبہ کارفرما تھا۔
تاہم سیدنا حسینؑ جیسے غیرت مند انسان خود سپردگی (سرنڈر) کیونکر قبول فرماتے۔ ظاہر ہے ملاقات کی صورت میں بھی استدلال کے ذریعے یزید اپنے حکومت کرنے کے جواز کو ثابت نہیں کرپاتا، اس لئے کمانداروں نے اس تجویز (اگرچہ تمام تجاویز معقول تھیں) کو بھی نظر انداز کردیا۔ اس لئے سیدنا حسینؓ نے داستان عزیمت کے قرآنی اصول، فاذا عزمت فتوکل علی اللہ (پس جب آپ نے عزم کیا ہے، تو اللہ تعالی پر توکل کریں)، پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالی کی انعام یافتہ جماعت میں سے جمعیت شہداء میں ایک اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ یعنی سیدنا حسینؓ نے ’’یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے بجائے اس کے ہاتھ میں اپنا سر مبارک دینے کو ترجیح دی۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیدنا حسین ؓنے اسلام کے شورائی نظام حکومت کے مقابلے میں شخصی، مستبد اور مطلق العنان نظام حکومت کو رد کیا اور اپنی جان جان آفرین کے حوالے کرکے ثابت کیا کہ اپنے موقف پر ڈٹ جانے کی قیمت کس طرح ادا کی جاتی ہے۔ سیدنا حسین ؓ کے اس رویے کو کسی نے بڑے ہی خوبصورت انداز میں اپنی رباعی کا مضمون بنایا ہے۔ ’’سر داد، نہ داد دست در دست یزید‘‘ (جسے اکثر معین الدین چشتیؒ کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے) اسی رباعی کا ایک مصرعہ ہے۔
ظاہر ہے کہ قابیل کی طرح بنو امیہ کو سیدنا حسینؑ کو شہید کرکے پشیمانی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوسکا۔ البتہ یہ بات صحیح ہے کہ وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ظلم و ستم کی نئیداستانیں رقم کرتے رہے۔ اسی کہانی کا حصہ عبداللہ ابن زبیرؓ کی شہادت بھی ہے جنہیں عبدالمک کے دور میں حجاج ابن یوسف ثقفی نے شہید کیا۔ یعنی جس طرح سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اور سیدہ فاطمہؓ کے لخت جگر کو بنو امیہ نے کربلا میں بڑی ہی بے دردی کے ساتھ شہید کیا تھا، اسی طرح انہوں نے ابو بکر الصدیق ؓ کے نواسے اور اسماءؓ بنت ابی بکر کے بیٹے کو شہید کیا اور کئی روز تک ان کی میت کو مکہ میں لٹکائے رکھا۔
بنو امیہ کے اس مستبد رویہ سے ان کی مجموعی سوچ اس طرح متاثر ہوئی کہ وہ آپس میں بھی اسی سوچ کا شکار ہوئے۔ اسلامی مملکت کو زبردست وسعت دینے کے باوجود وہ اپنے پیراہن حکمرانی سے اس داغ کو مٹا نہ سکے۔ بنو امیہ کے بڑے بڑے سپہ سالار ان کے اسی رویے کے ہتھے چڑھ گئے۔ ان کے حکمرانوں کے دور میں سندھ، وسطی ایشیاء، چین، افریقہ اور اسپین کے علاقے فتح کرنے والے سپہ سالار انہوں گنوا دیئے۔ ان سپہ سالاروں میں محمد ابن قاسم (فاتح سندھ) اور موسی ابن نصیر (افریقہ کے انتظام و انصرام اور فتح اسپین میں طارق ابن زیاد کے ذریعے اہم کردار ادا کرنے والے سالار) قابل ذکر ہیں۔ بنو امیہ نے عمر ابن عبدالعزیز، جنہوں نے اپنے پیش رو حکمرانوں کے انتشار اور خلفشار کو فرو کرنے کی کوشش کی تھی، کو بھی مبینہ طور پر زہر دیکر مار ڈالا۔
اس کے بر عکس سیدنا حسین ؓ کی شہادت نے ملت اسلامیہ کی آنکھوں کو ہمیشہ نم رکھا اور دلوں کو مغموم۔ منصور الحلاج مصلوب ہوکر صوفی حلقوں میں ’’شہید محبت‘‘قرار پائے۔ سیدنا حسین ؑ ہمیشہ ’’شہید حریت فکر‘‘ کے مقام پر متمکن رہیں گے۔ شاید اسی لئے ڈاکٹر علی شریعتی نے انسان اصلی کی باپت یہ ضروی قرار دیا ہے کہ وہ تجلی الہٰی کی تلاش میں طور کو اپنی گزر گاہ بنائے رکھے، اس کے سینے میں منصور الحلاج کا سا دل دھڑک رہا ہو اور وہ سیدنا حسین ؑ کی سی حریت فکر اور کامل جرات کا مجسمہ ہو!
(رابط 9858471965)
[email protected]