گھائل آتما

دو جزیروں پر مشتمل شہر ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو(Trinidad and Tobago)میں پوتر ماں کالی کا ایک مندر ہے یہیں کا رہنے والا آسودہ حال شخص مسٹر آئیر، جس کے آباواجداد کسی زمانے یہاں آکر آباد ہوئے تھے، روز کی طرح ماتا کے درشن لے لئے آیا تھا۔پوجا سے فارغ ہونے پر مسٹر آئیر اپنا رنج و الم لے کے پجاری شری بدری پرشاد کےپاس آیا، پجاری ایک قابل ریاضت دان ہونے کے علاوہ  عالمی شہرت یافتہ نجومی بھی تھا۔پجاری نے مسٹر آئیر سے کہا مسٹر آئیر تمہارےنصیب میں بچے کا سکھ نہیں ہے، لیکن امید کا دامن تھامے رکھنا کیونکہ امید پر دنیا قائم ہے۔،ہم  بھی آپکے لیئے پرارتھنا کریں گے۔ مسٹر آئیر مایوس لوٹا۔مسز شوبا آئیر کئی بار ماں بن چکی تھی لیکن بچے پیدا ہوتے ہی فوتہو جاتے تھے۔اس بار بھی شوبا آئیر امید سے تھی ۔
۔۔۔اُس روز پجاری بدری پرشاد ہمیشہ کی طرح پوجا میں محو تھا کہ اچانک ہوائیں مخالف سمت سے آنے لگیں۔سیاہ بادلوں نے پورے آکاش کو گھیر لیا تھا۔ تند اور تیز ہواؤں نے دھیرے دھیرے اتنی رفتار پکڑ لی کہ مندر کی گھنٹیاں آسمان کو چھونے لگیں۔آشرم اور مندر کے احاطے میںموجود پنچھیوں اور جانوروں میں بھگدڑ مچ گئی۔ چاروں اورایک  ڈراونا شور برپا ہوگیا۔اچانک موسم کی تبدیلی پجاری بدری پرشاد کو  پریشان کر گئی،اس کا دل گھبرا گیا۔ نظر اٹھائی تو دن ڈھلنے سے پہلے ہی اندھیرا پھیل چکا تھا ایسے میں کوئی انجان سایہ  ہوا میں بھٹکتانظر آیا۔ ہوا میں تیرتی ہوئی صرف دو گہرے سبز رنگ کی آنکھیں، جو آگ کے موافق دہک رہی تھیں،کچھ تلاش کررہی تھیں۔ پجاری کو بار بار فضامیں  یہی دو آنکھیں بھٹکتی ہوئی نظر  آرہی تھیں۔اس کی چھٹی حس کسی آنےوالے وقت کے  بارے میں آگاہ کر رہی تھی لیکن کیا ہو گا اس بات سےوہ  بے خبر تھا۔ پوجا کرتے ہوئے اُس کی آنکھ لگ گئی۔ یہاں بھی دو گہرے سبز رنگ کی آنکھیں دیکھ کر وہ بےچین تھا اور چیخ کر کہہ رہا تھا ، ماتا یہ کون ہے اسے کیا چاہیے؟، کہیں سے کوئی آواز آئی ،’ گھبرا ئومت یہ اپنے کام سے آیا ہے‘۔
مسٹر آئیر میٹرنٹی ہوم (Maternity home)کے اندر بھگوان سے ایک ہی پرارتھنا کر رہا تھا کہ اس کے گھر  میں اس بار بچہ زندہ  پیدا ہو۔  مسز شوبا آئیر کسی  بھی وقت بچے کوجنم دینے والی تھی۔  مسٹر آئیر ہاتھ باندھے ہوئے  اور آنکھیں بند کر کے انتظار کر رہا تھا۔مگر افسوس ہر بار کی طرح اِس بار بھی میٹرنٹی ہوم کا دروازہ بچے کی چیخ کے بغیر ہی کھل گیا۔مسٹر آئیر ناامید نظروں سے دروازے کی طرف دیکھ کر ٹوٹتے قدم بڑھا کر اندر داخل ہو گیا۔ڈاکٹر نے مایوس ہوکرمسٹر آئیر کی طرف دیکھ کر بچے کے چہرے کے اوپر کپڑا رکھا۔مسٹر آئیر اپنے جذبات کو روکنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا لیکن اس کی آنکھوں نے اس کاساتھ نہ دیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ڈاکٹر نے مسٹر آئیر کے کاندھوں  پہ ہاتھ رکھ کر اسے  حوصلہ رکھنے کی تلقین کی۔چند لمحوں بعد اچانک کھڑکی کا  شیشہ ٹوٹنے کی آواز آئی اور اس کے ساتھ ہی بے جان بچہ چیخ اٹھا۔مسٹر آئیر کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا اور بھیگی آنکھوں سےڈاکٹر کی اور دیکھنے لگا۔ ڈاکٹر کی آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں ، اسکے لئے یقین کرنا مشکل ہو گیا جو بچہ فوت ہو چکا تھا وہ کیسے زندہ ہو گیا۔خیرڈاکٹر بہت خوش ہوا کہ جیسے تیسے بچہ زندہ ہے۔مسٹر آئیر خوشی سے جھوم اٹھا۔ شادیانے منائے گئے۔اس کے ہاں بن موسم کی بہار آئی تھی۔
وقت بیت گیا۔بچے کی صورت من کو لبھانے والی تھی۔ چار سال کی عمر میں بچہ بولنے لگا۔
بچے کا نام آرین رکھا گیا۔
پہلی بار مسز آئرر نے جب  بچے کو آرین کہہ کے پکارا، توبچے نےآہستہ سے گردن  گھما کر اپنی بڑی آنکھیں ترچھی کرکے ایک  منفرد مسکراہٹ دے کے  مسزآئیر کی طرف دیکھ کر بولا میرا …….نام………..آرین ……..نہیں ہے، میں روین …….ہوں ۔بچے کی بات سن کے والدین سوچ میں پڑ گئے۔
کچھ مدت کے بعد ایک بار  کھانے کی میز پر مٹھائی رکھی ہوئی تھی۔ بچے نے کہا میں نے پتا جی کی بنائی ہوئی اس سے  اچھی مٹھائی کھائی ہے۔بچہ  روز کوئی نہ کوئی ایسی بات کرتا  تھا جس سے  مسز اینڈ مسٹر آئیر  پریشان ہو نے لگے۔
ایک دن برامدے میں کتے نے ایک مرغا پکڑ کر لایا اور اس کی گردن کاٹنے ہی والا تھا کہ آرؔین کی آنکھوں میں اچانک آگ اُتر گئی وہ  اپنی گردن کو مسلنے لگا اور غصے سےبڑا پتھر اٹھا کر کتے کے سر پر اسقدر زور سے مارا کہ کتا وہیں ڈھیر ہو گیا۔مسز اینڈ مسٹر آئیر کوبچے کی اس حرکت سے اور پریشانی ہوگئی،سوچا کہ پجاری سے رابطہ کریں۔ وہاں جاکر پتہ چلا کہ پجاری جزیرے سے باہر گئے ہوئے ہیں۔
آرین سکول جانے لگا۔ ٹیچر  سائمن نےباقی بچوں سے تعارف کراتے وقت بولا ،’بچو یہ آپ کا نیا دوست آرین ہے‘…. !
آرین نے کہا میرا نام روین ہے۔۔آرین نہیں۔۔۔، میں گوالیار میںرہتا ہوں۔
ٹیچر سائمن  استاد ہونے کے ساتھ ساتھ علم نفسیات میں پی.ایچ. ڈی کر رہا تھا۔ٹیچر سائمن سوچ رہا تھا  کہ کہاں  ٹرینیڈاڈ وٹوباگو اور کہاں ہندوستان ، اسکی بچے آرین میں دلچسپی بڑھ گئی، وہ یہ بھی سوچنے لگا کہ آخر یہ بچہ  ایسی باتیں کیوں کر رہا ہے۔ آرین باقی بچوں سے جسمانی طور کافی مضبوط تھا اور جب کبھی موقع ملتا تو اپنے سے زیادہ عمر کے بچوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کرتا تھا۔
 آئے  دن آرین گھر اور سکول میں  کوئی نہ کوئی نئی بات ضرور کرتا تھا۔ آخر ایک روز سکول انتظامیہ نے مسز اینڈ مسٹر آئیر کو بلا کر بچےکے بارے میں تفصیل سے بات کی اور مشورہ دیا کہ ہندوستان جاکر ایک بار تسلی کی جائے کیا واقعی کوئی ایسی جگہ ہے جسے آرین کےپچھلے جنم کا تعلق ہے، جسکے بارے میں اتنی خود اعتمادی سے بچہ ہر ایک بات تفصیل سے بیان کر رہا ہے۔ یہ فیصلہ لینے میں آئیر فیملی نے وقت لگا دیا کیونکہ مسٹر آئیر کو زیادہ تر کاروبار کے سلسلے میں شہر سے دور جانا پڑتا تھا۔ مگر آخر کار چلے گئے ۔
گوالیار پہنچ کر آئیر فیملی اور استاد نے ملکر اپنی طرف سے دریافت کرنا شروع کردیا۔ دھیرے دھیرے ان کو بچے کے سلوک اور ردعمل سے پتہ چلا کہکوئی بات ہے جو آرین یہاں کی  ہر چیز  سےاتنی واقفیت رکھتا ہے۔ کئی  بزرگوں کو پہچانتا تھا اور انکے نام  بتایا کرتا تھا۔
 گوالیار میں قیام کے دوران آئیر فیملی کو پتہ چلا کہ پجاری بدری پرشاد اس  بار کالی ماتا کی پوجا میں شرکت کرنے والے ہیں۔آئیر فیملی،ٹیچر سائمن اور آرین کو لے کے خوشی سے شام کو تیاری کرکے اس پوجا  میں شریک ہونے کےلئے نکلے۔ مندر کھچاکھچ عقیدت مندوں سے بھرا پڑا تھا۔پولیس ڈیپارٹمنٹ کے منظم طریقے سے کام کرنے کےباوجود  لوگوں کی بھیڑ بے قابو ہو رہی تھی۔ پولیس کی مدد سے آئیر فیملی پجاری بدری پرشاد   کے  قریب  پہنچنے والے تھے، جس کے  اردگرد تین لوگ تھے جن  کودیکھ کر آرین کا گلا خشک ہونے لگا۔ وہ بار بار اپنا گلے کو پکڑ کے جیسے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کی آنکھیں دہکتے انگاروں کی مانندلال ہو رہی تھیں۔ وہ اتنا بے قابو ہو گیا کہ اس نے پجاری بدری پرشاد کے دائیں بائیں تین متوسط عمر کے لوگوں کو ایک کے بعد دیگرے گولی مار کر قتل کردیا۔ڈیوٹی پر موجود پولیس انسپکٹر اپنی جیب سے پستول نکالنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن جیب سے پستول  غائب تھی تب اس کو احساس ہوا کہ آرین نے اس کے جیب سے بڑی صفائی سے پستول نکالی تھی۔
پجاری بدری پرشاد نے آرین کی گہرے سبز رنگ کی آنکھیں دیکھیں تو بدحواس ہو کر زمین پرگر گیا۔دس سالہ آرین کو پولیس نے حراست میں لے لیا، جس نےایک ہی وقت میں تین متوسط عمر کے لوگوں کا قتل کیا ۔  مسز اینڈ مسٹر آئیر روتے بلکتے اپنے بچے کے لئے  تڑپتے ہوئے  پولیس کے پیچھے پیچھے چلدیئے۔پولیس اہلکار یقین نہیں کر پا رہے تھے کہ اتنی سی عمر میں کوئی تین لوگوں کو کیسے موت کے  گھاٹ اتار سکتا ہے۔ انہوں نے یہ معاملہ اپنے شعبے کے خصوصی برانچ کو سونپ دیا، جنھوں نے اس نازک کیس کی تہہ تک جانے کی کوشش کی اور بعد میں  بچے کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ حاضرین میں  ٹیچر اورمسز اینڈ مسٹر آئیر  کے علاوہ ماہر نفسیات بھی تھے۔
جج صاحب نے آرین سےپوچھا ’بیٹا ،جو سوال پوچھا جائے اس کا صحیح جواب دینا‘۔
  بچے نے کہا ٹھیک ہے؛
پہلا  سوال پوچھا  ’تمہارا نام کیا ہے‘  ؟
بچے نے کہا’ میرا نام روین ہے۔پتہ نہیں مجھے یہ لوگ آرین کہہ کر کیوں بلاتے   ہیں۔
عدالت نے مزید پوچھا  کیا یہ سچ ہے کہ آپ نے تین لوگوں کا قتل کیا ہے  ؟
بچے نے بڑے اعتماد سے کہا ۔۔۔ہاں…!
عدالت نے پوچھا کیا آپکو اس گناہ کی سزا کا اندازہ ہے۔
بچے نے کہا مجھے نہیں پتہ لیکن میں یہ کام کرنے کیلئے آیا تھا سو کیا۔
شش و پنج میں مبتلا جج صاحب کو بچے میں کوئی ڈر ، وہم یا پچھتاوا نہیں دکھائی دیا۔ مزید پوچھا آپ نے کس کے کہنے پر یہ گناہ انجام دیا؟
بچے نے  کہا کسی کے کہنے پر نہیں، جو معاملہ انہوں نے کچھ مدت  پہلے میرے ساتھ کیا تھا میں نے واپس وہی ان کے ساتھ کیا۔
جواب  سن کر سب کا دماغ  چکر کھا گیا ، کچھ بھی نہیں سوجھی۔ وہ بچے کی باتیں دھیان سے سن رہے تھے۔
بچے نے کہا میرا یقین کرو میں روین ہوں میں یہیں گوالیار میں رہتا تھا۔ اسی محلے میں میرے پتا جی کی  مٹھائی کی بہت بڑی دکان تھی۔ ان کا نام چونی لال تھا۔ میں اسی علاقے میں رہنے والی ایک لڑکی منجوؔ سے پیار کرتا تھا لیکن اس کے گھر والے ہمارے اس رشتے کے لئے  راضی نہیں تھے۔ جب ہم دونوں نے کسی کی بھی نہیں سنی اور ایک دوسرے سے ملتے رہے۔ تب منجوؔ کے بھائی سیمرؔ کمار نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مل کر مجھے دھوکے سے ایک شام کو اسی مندر میں یہ کہہ کر بلایا کہ وہاں منجو میرا انتظار کررہی ہے اور پیچھے والے دروازے  سے مندر کے اندر  داخل ہو گئے۔ وہاں ایک کمرے میںجہاں ایک بڑا قدنما آئینہ اس طرح رکھا ہوا تھا کہ  دیوار پر کالی ماتا کی لگی ایک مورتی اس میں پوری نظر آتی تھی۔ ان تینوں نے مجھے اسی آئینے کےسامنے جھکڑا  اور کہنے لگے  اپنی موت تم اپنی آنکھوں سے دیکھو ،اب پیار  ویار اوپر جاکے کرنا اور ٹھہاکے  لگانے لگے۔
اُس وقت  میں نے منجو کی آواز سنی تھی،وہ مجھے  ہی پکارتی تھی ۔تھوڑی دیر کے بعد منجو کی آواز آنی بند ہوگئی۔ مجھے نہیں خبر اس کے ساتھ کیا ہوا۔میں نے بہت منتیں کی ایسا مت کرو مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور میرا گلہ بے دردی سے کاٹنے لگے۔ میری نظر صرف ماتا کی مورتی پر تھی میں اپنے لیے انصافمانگ کر یہ کہہ رہا تھا ماتاؔ رانی میرے ساتھ انصاف کون کرے گا۔
اس کے بعد میرے شریر کو انہوں نے کوئی کیمکل ڈال دیا اور میرا جسم ختم ہو گیا۔میں آکاش میں تڑپ کر گھومتا رہا ۔ مجھے جیسے کسی نے پنکھ دئےاور میں اُڑنے لگا اور تب کئی طوفانوں نے مل کر مجھےآسمان  میں پھینک دیا، پتہ نہیں کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور میں کتنی مدت تک طوفانوں اورہواؤں کے ساتھ رہا اس کا  مجھے کوئی اندازہ نہیں ہے۔ تب کچھ دور بہت دور بجلی چمک اٹھی، طوفان اور آندھی میں ادھر ادھر  بھٹک کر مجھے کھڑکی سے میز پر بے جان شریر  پر نظر پڑی جو کسی بچے  کا تھا اور میں اس بچے کے شریر  میں داخل ہوگیا۔
 بچے نے کہاپجاری کے اردگرد جو تین لوگ تھے ان میں ایک منجو کا بھائی سمیر کمار تھا  اور باقی دو سمیر کمار کے دوست تھے جن کو میں نے پولیس انسپکٹر کےپستول سے ختم کردیا۔ بچے کے اس انکشاف نے عدالت ،پولیس اور باقی لوگوں کے رونگٹھے کھڑے کر دیئے۔
 پجاری بھی  پتہ نہیں   کب عدالت میں پہنچ گیا تھا،جو بہت دلچسپی سے بچے کی باتیں سن رہا تھا۔ اس کو دوبارہ وہ  طوفانی ہواؤں کا منظر  نظروں کے سامنےگردش کر رہا تھا  ۔ وہ گہرے سبز رنگ کی آنکھیں  اس وقت سامنے رقص کر رہی تھیں ۔بچے کی خواہش کرنے والی  آیئر فیملی پجاری کے ذہن   میں دوبارہ گھومنے لگی۔  ان سب باتوں کا وہ خود گواہ تھا۔
مسٹر آئیر کو بھی ماضی کی تصویر سامنے آرہی تھی۔ نرسنگ ہوم میں  اس کے فوت شدہ بچے کا زندہ ہونا یاد آیا۔  انہوں نے آپ بیتی ہو بہو عدالت اور باقی حاضرین کےسامنے دہرائی۔ یہ ساری کہانی سن کر سب کا حیران ہونا لازمی تھا۔ بہرحال یہ ایک ایسی انہونی تھی جس کو کوئی نہیں  ٹال سکتا تھا۔
کئی روز تک پولیس کی ٹیم نے بچے کو لے کے متعلقہ علاقے میں پتہ لگایا گیا واقعی  وہاں کوئی مٹھائی کی دکان، منجو نام کی کوئی لڑکی تھی بھی کبھی یا نہیں۔اس کا بھائی سمیر کمار وغیرہ ہر چیز باریک بینی سے جانچ کی گئی۔ پولیس نے ہر  ایک جگہ کی چھان بین کرکے پتہ لگایا۔ حیران کردینے والی بات یہ تھی کہ بچے کی ہر بات درست تھی، جن تین لوگوں کا قتل ہوا تھا،  ان میں سے واقعی ایک منجو کا بھائی  سمیر تھا  اور باقی دو لوگس میر کمار کے بچپن کے دوست تھے۔
مزید پولیس نے اپنے پرانے  محافظ  خانہ ( record room)کی باریکی سے جانچ کی ،غور طلب بات یہ تھی کہ برسوں پہلے گوالیار کے رہنے والے چونی لال مٹھائی والے نے ایک شکایت درج کی تھی جس میں مذکورہ شخص نے اپنے جوان بیٹے روین کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ درج کروائی تھی اور ابھی تک پولیس ریکارڈ میں لاپتہ  ہی پایا گیا ۔ اس رپورٹ سے بچے کی بات کوایک ایسی مہر لگ گئی جس کو چیلنج  نہیں کیا جاسکتا تھا۔
اس کے بعد بچے کو لے کے مندر کے اس کمرے کا  بھی معائنہ کیا گیا۔ بچے نے جو انکشافات کئے تھے وہ بالکل درست تھے یہاں تک کہ مندر کے کمرےمیں وہ قدنماآئینہ آج بھی اسی جگہ پر موجود تھا جس پر صرف وقت کی بے رحم دھول جم چکی تھی۔ بچہ آہستہ آہستہ بےچینی محسوس کرنے لگا۔ اس نے ایک دم سے   خوش ہو کر منجو کو ایسے آواز لگائی جیسے وہ وہیں موجود تھی اور وہ کمرے سے باہر آندھی کی رفتار سے دوڑتا ہوا کنویں کی جانب بڑھنے لگا اور بے جھجک کنویں میں چھلانگ لگائی۔ کئی ہزار سال پرانے مندر کا کنواں بھی گہراتھا۔ جہاں سےبچے کو تلاش کرنا ناممکن ہوگیا۔غوطہ خور ٹیم کی مدد  لی گئی مگر بچہ کہیں نہیں ملا کیونکہ کنواں اُن کی سوچ سے کئی گنا گہرا تھا۔دوسرے روز سویرے پولیس تکنیکی ٹیم لے کر آگئی ، مگر بچے کی لاش ٹھیک حالت میں کنویں کی سیڑھی پرملی جیسے  لاش کو پانی نے چھوا بھی نہ تھا۔
���
 وزیر باغ، سرینگر