گائے افسانہ

محمد علیم اسمٰعیل

’’ماں! یہ گائے اب دودھ نہیں دے رہی ہے۔ ہم اسے کب تک یوں ہی پالیں گے؟ کیوں نہ بازار لے جاکر اسے بیچ ڈالوں؟ اگر وہاں کوئی اچھی، دودھ والی گائے ملے گی تو خرید کر لے آؤں گا۔‘‘ جمال نے اپنی ماں سے کہا۔
’’لیکن بیٹا جانوروں کا بازار ہمارے گاؤں میں نہیں لگتا۔ اس کے لیے تو شہر جانا ہوگا۔‘‘ ماں نے فکر ظاہر کی۔
’’تم فکر کیوں کرتی ہو ماں۔ میں گائے کو اپنے کندھوں پر تھوڑی لے جاؤں گا۔ اسے گاڑی میں ڈالوں گا اور چلا جاؤں گا۔‘‘ جمال نے مسکرا کر جواب دیا۔
’’نہیں بیٹا!! اس میں بڑا خطرہ ہے۔‘‘ ماں کی پیشانی پر فکر کی لکیریں گہری ہو گئی تھیں۔
’’نہیں ماں کوئی خطرہ نہیں۔ تم بلاوجہ گھبرا رہی ہو۔‘‘ بیٹے نے ماں کے بھروسے کو مضبوط کرنے کی پوری کوشش کی۔
’’نہیں بیٹا مجھے بڑا ڈر لگ رہا ہے۔ ہم ایسا کرتے ہیں گاؤں میں ہی کسی بیوپاری کو گائے بیچ دیتے ہیں۔‘‘ ماں نے اپنی بات منوانی چاہی۔
’’لیکن ماں گاؤں کا کوئی بھی بیوپاری وہ قیمت نہیں دے گا جو شہر کے بازار میں ملے گی۔ شہر میں اچھی اور زیادہ قیمت مل جائے گی۔ تم فکر مت کرو ماں، اب کافی رات ہو گئی ہے، تم سو جاؤ۔ میں گاڑی والے کو فون کر دیتا ہوں۔ صبح 5 بجے نکلوں گا تو وقت پر بازار پہنچ پاؤں گا۔‘‘ بیٹا دفعتاً اٹھ کھڑا ہوا اور زیادہ قیمت ملنے کی خوشی ظاہر کرنے لگا۔
’’اچھا بیٹا جو تو ٹھیک سمجھے! لیکن جو بھی کرنا سوچ سمجھ کر کرنا اور دیکھ بھال کر جانا۔‘‘ یہ کہہ کر ماں سونے چلی گئی۔ گویا وہ اپنی بات منوانے میں ناکام رہی۔ جمال اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا۔ بچپن میں ہی اس کے والد کا انتقال ہو گیا تھا… دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے۔
منہ اندھیرے جمال گائے کو لے کر گھر سے نکل پڑا۔ راستے میں اس کی گاڑی کو گئو رکشکوں نے روک لیا۔ ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے۔ پہلے تو انھوں نے گاڑی کے شیشے توڑے۔ پھر جمال اور ڈرائیور کو ڈنڈوں سے پیٹنے لگے۔ دونوں نے ان سے بات کرنی چاہی، لیکن انھوں نے کسی کی ایک نہ سنی اور دونوں کو پیٹتے رہے۔ دونوں نے اپنے آپ کو بچانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ لوگ تعداد میں زیادہ تھے اور ڈنڈوں سے لیس تھے جب کہ یہ دونوں خالی ہاتھ تھے۔
دونوں ادھ مری حالت میں، خون سے لت پت، سڑک پر پڑے تھے۔ جمال درد سے کراہ رہا تھا۔ اس کے منہ سے ”ماں!! اوہ ماں“ کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں… اور ماں ہڑ بڑا کر نیند سے بیدار ہوہی گئی۔ گھڑی دیکھی، صبح کے 5 بج رہے تھے۔ وہ جلد آنگن میں آئی۔ جمال گائے کو گاڑی میں چڑھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ماں نے جمال کے ہاتھوں سے گائے کی رسی، ایک زور دار جھٹکے کے ساتھ چھین لی پھر گائے کو اپنے کھونٹے پر باندھا دیا، اور کہا: ”ہم گائے کو یہیں، کم قیمت پر ہی بیچ دیں گے۔“
ماں کا لہجہ سخت اور انداز فیصلہ کن تھا۔ جمال ہکا بکا اُسکا منہ تک رہا تھا۔
���
اسسٹنٹ ٹیچر، نندرو،مہاراشٹرا، موبائل نمبر؛8275047415