کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ۔۔۔

خوشنویس میر مشتاق
اس کو قوموں کے تمدّن نے کیا پیدا
کون کہتا ہے کہ مسلمان کی زبان ہے اردو
زبان ملک و قوم کا ثمرہ ہوتی ہے۔کسی بھی قوم کی شناخت اس قوم کی زبان ہوتی ہے۔دنیا کی کوئی بھی قوم اپنی شناخت کی بنا ٕ پر ہی جانی پہچانی جاتی ہے۔زبان اور قوم کارشتہ ایسا ہوتا ہے جیسے روح اور جسم کا ہوتا ہے۔جس طرح روح کے بغیر جسم کی کوئی اہمیت نہیں ٹھیک اسی طرح زبان کے بغیر ملک و قوم کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔زبان ہی ایک ایسا آلہ کار ہے جسے کسی بھی شہر یا کسی بھی ملک یا علاقے میں ذریعہ اظہار کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔کسی بھی قوم کے عروج و زاوال کا انحصار اس قوم کی تہذہب و معاشرت پر ہوتا ہے۔قومیں ہی زبان کو بگاڑتی اور سنوارتی ہیں۔زبانیں اپنی شکل و صورت اختیار کرنے سے پہلے مختلف مراحل طے کرتی ہیں جبھی وہ بحیثیت زبان کسی نہج پر پہنچ کر اپنا روپ دھار لیتی ہیں۔
جی ہاں ! اردو زبان کا ذکر آتے ہی اس کی مہک گوناگوں پھولوں کی خوشبوئوں کی طرح ذہن کے بند دریچوں کو کھول کر معطر کر دیتی ہے۔اس کی شرینی ،اسکی لچک، اس کی مٹھاس اور حلاوت و گداز بے چین دلوں کو روح کا سکون اور تازگی بخشتی ہے۔اسے بھی معرض وجود میں آنے کیلئے مختلف مہموں اور منزلوں کو سر کرنا پڑا۔ اسے بھی بحثیت زبان اپنا روپ دھارنے اور اپنی ساکھ بنانے میں ہزار ہا سال لگے۔ آہستہ اہستہ اس میں نکھار اور گداز پیدا ہونے لگا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام نے بھی اسے نہ صرف جانا اور پہچانا بلکہ انہیں اس میں اپنائیت محسوس ہوئی۔عوام اور زبان کے باہمی رشتے کو قائم و دائم رکھنے کیلئے ایک نئی تہذیب معرض وجود میں آئی جس میں مختلف مذاہب اور مختلف فکروں سے جڑے لوگ شامل تھے۔ان سب نے مل کر نہ صرف اردو کو اپنایا بلکہ اس میں زندگی کی ایک ایسی جہت اور حرارت پیدا کی ۔جس نے بہت جلد برصغیر کے طول و عرض میں پہنچ کر عام بول چال کی زبان کا درجہ بھی حاصل کر لیا۔
جس طرح ہر زبان اپنے خطے اور اپنے علاقے کی شناخت اور نمائندہ ہوتی ہے بالکل ویسے ہی اردو بھی اس ملک کی آن ، بان ، شان اور پہچان ہے۔اردو نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ پورے بر صغیر ہندوپاک کی نمائندہ زبان ہے،جو گنگا جمنی تہذیب و معاشرت کی عکاس اور نقیب بن کر ابھری۔بحیثیت مجموعی ملک سے جڑے ہر مذہب اور ہر فکر کے لوگوں نے اردو کی ترویج و اشاعت میں نہ صرف اہم کردار ادا کیا بلکہ انہوں نےآپسی بھائی چارے کی ایک عظیم مثال بھی قائم کی۔
اردو بھی بحیثیت زبان بلا لحاظ مذہب و ملت سے آزاد ہوکر صدیوں کی مسافت طے کرتے کرتے ہندوستانی تہذیب و معاشرت کی علامت بن کر افقِ ادب پر نمودار ہوئی۔
بلا شبہ زبان کا کوئی رنگ ہوتا نہ مذہب اور نہ ہی زبان کسی مخصوص مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔زبان رنگ و نسل اور ذات پات سے فطرتاً آزاد ہوتی ہے۔زبان پر کسی مذہب کی اجارہ داری بھی نہیں چلتی۔زبان سماج اور معاشرے سے جڑے ہر اس فرد کی ہوتی ہے جو اسے بولنے اور اپنانے میں کوئی عار محسوس نہ کرے۔ اُردو دنیا کی ایسی زبانوں میں نمایا ہے جو ہر مذہب اور ہر فرقے سے تعلق رکھتی ہے۔اردو نہ صرف گنگا جمنی تہذیب و معاشرت کے حسین امتزاج سے وجود میں آئی۔بلکہ دونوں قوموں کے باہمی ارتباط سے ہی زبان اردو کا انتخاب ہوا۔جو آج اپنی پوری جلوہ سامانیوں کے ساتھ افق ادب پر اختر درخشاں کی مانند زندہ و تابندہ ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جو زبان دونوں قوموں کے باہمی ارتباط سے ملک کے طول و عرض میں پھلنے پھولنے لگی۔اسے فقط مسلمانوں کے نام سے جوڑنا احماقانہ اور بزدلانہ حرکت ہے۔جبکہ اس زبان نے ملک وقوم کی نہ صرف آبیاری کی بلکہ اس نے ایک دوسرے سے جڑے رہنے کیلئے ایک پل کی حثیت بھی اختیار کی ہے۔ مسلمانوں اور ہندئوں کے باہمی میل جول کے سبب ہی یہاں ایک نئی تہذیب پروان چڑھی۔جو بد عنصر اور شر پسند لوگ اس مشترکہ گنگا جمنی تہذیب کے مابین دیواریں حائیل کرنا چاہتے ہیں وہی لوگ اس زبان پر ، مسلمانوں اور ہندئوں کے باہمی ارتباط و اتحاد پر انگشت نمائی کر سکتے ہیں۔
مزید برآں ، اگر ہندوستانی سینما (بالی ووڈ) کی بات کی جائے جہاں سینکڑوں کی تعداد میں مختلف مذاہب اور مختلف فکروں سے وابسط اداکار اور اداکارائیں ہندوستانی سینما میں کام کر رہے ہیں۔ان کی شہرت اور مقبولیت کا باعث مشترکہ تہذیب و معاشرت کی نمائندہ اور واحد زبانِ اردو ہی ہےاور اسی زبان کی بدولت آج ہندوستانی سینما آسمان کی وسعتوں سے ہمکنار ہے۔بلاشبہ اگر اردو زبان نہ ہوتی تو آج ہندوستانی سینما کا کہیں وجود بھی نہ ہوتا۔پھر بھی یہ شکایت کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔زبان ملک و قوم کی شان ہوتی ہے۔ کسی بھی زبان پر نقط چینی کرنا یا اسے کسی مخصوص مذہب سے جوڑنا بزدلانہ امر ہے۔
امر حقیقت یہ ہے کہ اردو اپنے اندر اتنی وسعت اور ہمہ گیریت رکھتی ہے کہ آج یہی زبان دنیا کی مختلف ترقی یافتہ زبانوں کی ہم پلہ کھڑی ہو سکتی ہے۔دنیا کی کوئی بھی زبان خواہ وہ انگریزی ہو یا اردو ، عربی ہو یا ہندی کسی علاقے یا خطے تک مقید نہیں رہ سکتی۔ زبان جس قدر پرکشش اور جاذب نظر ہوگی اسی قدر وہ کسی بھی علاقے یا خطے تک جلد ہی رسائی حاصل کر لیتی ہے۔بے شک یہ خوش کن بات زبان اردو میں ہی پائی جاتی ہے۔زبان اردو نے نہ صرف ملک و معاشرت کے مختلف شبعہ جات کو لامنتہا بنا دیابلکہ یہ شیریں زبان کئی اعتبار سے ملک و معاشرت کیلئے باعث صد افتخار بھی ثابت ہوئی۔اردو کی یہی مخصوص صفت اور جاذب نظری اسے دیگر زبانوں سے مہمیز کرتی ہے۔
بلاشبہ اردو جہاں درباروں اور مشاعروں کی زینت بنیں۔ وہیں یہ زبان عام انسانوں کے جذبات اور احساسات کی عکاس و ترجمان بن کر بھی نمودار ہوئی۔حلاوت سے یہ زبان کبھی طوطی ہند امیر خسرو کی پہیلی بن کر ابھری تو کبھی جمال پرست شاعر ولیؔ دکنی کے ہاتھوں دکن اور گجرات میں پروان چڑھتی رہی۔ کبھی پریم چند کی ہم نوا بن کر دیہی علاقوں کی سیر و تفریح کی تو کبھی وطنی شاعر چکبست نے اس زبان کے ذریعے حب الوطنی کے گیت گنگنا کر اہل وطن کے دلوں میں وطن پرستی کے جذبات ابھارے۔کبھی عوامی شاعر نظیرؔ اکبر آبادی نے اس کے طفیل مشترکہ تہذیب و معاشرت کے گیسو سنوارے۔ تو کبھی طنزو مزاح کے بادشاہ اکبرؔ الہ آبادی نے اس کی بدولت مغرب کی کورانہ تقلید پر طنز کے کچوکے چلائے۔کبھی مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالبؔ کی فکر بن کر نمودار ہوئی۔ تو کبھی بلراج مینرا ، پریم ناتھ پردیسی ، انتظار حسین یا سریندر پرکاش نے افسانوی دنیا میں تہلکا مچا کر دیومالائی عناصر سے اردو زبان کو متمول بنا دیا۔ تو کبھی شاعر ذیشان سر محمد اقبال کا فلسفیانہ راگ الاپ کر آسمان کی وسعتوں سے ہمکنار ہوئی۔ کبھی یہی زبان سوندھی سوندھی خوشبوئوں کا عکس بن کر ملک کے طول و عرض میں پر وقار ہو کر پھیلی تو کبھی یہی زبان دلی اور لکھنو کا شاہانہ جلال لے کر عزم اور وقار کے ساتھ عوام سے روبرو ہوئی۔
جس زبان کا ذکر آتے ہی دلوں میں پیارومحبت کی کو نپلیں پھوٹنے لگتی ہیں۔جس زبان کی خوشبو سونگھتے ہی دل و دماغ میں تراوٹ محسوس ہوتی ہے۔کیا اس زبان کو کسی ایک مذہب یا فرقے سے جوڑا جا سکتا ہے ؟اردو کو جہان مسلمانوں کے نام سے جوڑا جاتا ہے وہیں اس کی صدیوں پر محیط جڑیں مضبوط ہوتی جارہی ہیں ۔اس کا حلقہ وسیع سےوسیع تر ہوتا جاتا رہا ہے ۔اردو کوئی گری پڑی، کچھڑی یا لشکری زبان نہیں ہے بلکہ یہ اپنے اندر ایک مکمل نامیاتی وجود اور مکمل تہذیب رکھتی ہے۔یہ ہزار ہا سالوں سے لاکھوں ، کروڑوں لوگوں کے دلوں کی دھڑکن تھی ، ہے اور رہے گی۔
���
ایسو ( اننت ناگ)،[email protected]