کیا ہوتے ہیں یہ شائبہ عناصر؟ معلومات

تسلیم اشرف
تمام قدرتی کیمیائی مرکبات یا معاون میں آمیزش موجود ہوتی ہے لیکن بعض اوقات اس کی مقدار بہت زیادہ ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے یہ تفریق کرنا ایک دِقّت طلب مسئلہ بن جاتا ہے کہ یہ عنصر اسی معدن کا اٹوٹ اَنگ ہے یا پھر کسی دیگر ذرائع مثلاً آلودگی سے شامل ہوا ہے۔ وہ عناصر جو 0.1 فی صد مقدار میں کسی معدن میں شامل ہوتے ہیں۔
تجزیہ کے بعد لفظ ’’شائبہ‘‘ (Trace) استعمال کیا جاتا ہے اور بہت سارے عناصر کو ’’شائبہ عناصر‘‘ (Trace Element) کہا جاتا ہے ،جب کہ بہت سارے ’’شائبہ‘‘ عنصر ایسے بھی موجودپائے گئے ہیں جن کے بارے میں کم سے کم معلومات دستیاب ہیں ،کیوں کہ یہ نا تو زمین پر مزید موجود پائے گئے ہیں اور نا ہی کسی اہم صنعتی استعمال سے سامنے آتے ہیں۔
اسی وجہ سے اسے ’’کمیاب‘‘ عنصر (Rare Element) کہتے ہیں ۔مثلاً ’’لین تھینم‘‘ (Lan thanum)تمام ’’شائبہ عناصر‘‘ پانی، فضا یا پھر نباتات کے ذریعہ ’’حیاتی چکر‘‘ میں شامل ہو کر اثرات مرتب کرتے ہیں، مثلاً پارہ (Mercury) جو ایک زہریلی دھات کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ تھوڑی مقدار میں بہت ساری چٹانوں میں موجود ہوتی ہیں۔ تقریباً 0.2 پارٹ پر ملین ’’گرینائیٹ‘‘ چٹان ہیں اور اس سے تقریباً نصف سے کم اوسطاً تمام کرسٹل (Crystal) چٹانوں میں موجود پائی گئی ہیں۔ مرکری (پارہ) کی کچھ مقدار سُست رفتاری سے چٹانوں کے جسم سے علیحدہ ہو کر قدرتی کیمیائی موسم زدگی کے ماتحت پانی میں شامل ہو جاتی ہیں۔
زیادہ تر قدرتی پانی میں ’’پارہ‘‘ صرف کچھ پارٹ پربلین (Part per billion) پر مشتمل ہوتی ہے جو غیر مہلک ہوتا ہے۔ پانی میں قدرتی ’’مرکری‘‘ کی کچھ مقدار کا تبادلہ قدرتی طور پر پانی میں نامیاتی شکل یعنی ’’میتھائل مرکری‘‘ میں ہو جاتا ہے جو نامیوں کے لئے مہلک ثابت ہوتا ہے۔ میڈیکل اعداد و شمار کے مطابق دائم المرض مرکری کا زہریلاپن بلندی پر (کئی پارٹ پر ملین) تک پہنچ گیا ہے، جس میں زیادہ تر ’’میتھائل مرکری‘‘ ہوتی ہے۔
اس مرحلہ پر مرکری نظام اعصاب کو بہت خفیہ طور پر متاثر کرتا ہے ،جس کے اثرات وقت گزرنے کے ساتھ ہوتے ہیں۔ دانتوں کے خلاء اور مضبوطی کا تعلق پانی میں موجود ’’فلورین‘‘ کی موجودگی سے ہے، جس کی حقیقت دور حاضر میں عیاں ہے۔ فلورین ایک خاص فیصد مقدار میں ’’شائبہ‘‘ عنصر کے طور پر موجود ہوتا ہے تو یہ دانتوں کی بیماری کو کم کرنے میں مفید ثابت ہوتا ہے۔ ان جغرافیائی علاقوں میں جہاں دانت صحت مند ہوتے ہیں وہاں پانی میں فلورین کے ساتھ کیلشیم، ایلمونیم وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔
کم فلورین والے علاقوں میں کئی اقسام کی بیماریاں جنم لیتی ہیں مثلاً گھینگا (Goiter) ’’جارجیا‘‘ اس قسم کے مسائل سے دوچار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں اس بیماری پر قابو پانے کے لئے نمک میں آیوڈین کی آمیزش کی جاتی ہے۔ آیوڈین عام طور پر سمندری پانی کا حصہ ہوتا ہے۔ پہاڑی اور گلیشیائی علاقوں میں آیوڈین کم پائی جاتی ہے چونکہ یہ عنصر غیریقینی کیفیت کا حامل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کی تقسیم غیرمعمولی بھی پائی گئی ہے۔
’’سیلینیئم‘‘ (Selenium) عنصر کی زیادہ اور کم مقدار جانوروں کی زندگی کے لئے مضر ثابت ہوتی ہے۔ اس کا جانوروں کے خوراک میں بہت زیادہ شامل ہونے کی وجہ سے پٹھوں کی بیماری کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں ،جس پر قابو پانے کے لئے تحقیق ہو رہی ہے خاص طور پر ’’جارجیا‘‘ میں کیونکہ نباتات مثلاً ’’لوکوویڈ‘‘ (Locoweed) اس عنصرکا ارتکاز اپنے جسم پر بڑی مقدار میں کرتے ہیں جسے مویشی خوراک میں استعمال کرتے ہیں جو تراب اور صحت پر زہریلے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
دُوسری طرف ’’فلوریڈا‘‘ میں بعض بیماری مویشی اور بچّوں میں پائی گئی ہیں ،جس کا تعلق آئرن (لوہا) اور کاپر (تانبہ) کی تراب میں کمی بتائی گئی ہے۔ اگر فوری طور پر خوراک میں ’’کوبالٹ‘‘ (Cobalt) اور ’’مولبڈینیم‘‘ (Molybdenum) کو شامل کیا جائے تو یہ کاپر کو پابندی سے روکنے اور اس کی کمی کو دُور کرنے میں مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔ مغربی متحدہ اسٹیٹ میں تجزیہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ تراب میں کچھ مقدار ’’وینیڈیم‘‘ (Vanidium) عنصر کے بھی شائبہ عنصر کے طور پر پائے گئے ہیں خاص کر صنعتی علاقوں کے آلودہ پانی میں۔
بایولوجیکل سروے کے حوالے سے حیات میں ’’شائبہ عناصر‘‘ خلیوں اور ٹیشوز میں نائٹروجن، ہائیڈروجن اور آکسیجن وغیرہ پر مشتمل ہوتے ہیں۔ عام طور پر یہ شائبہ عناصر اینزایم (Enzyme)(جو نظام ہضم کو دُرست رکھتا ہے) کو باقاعدگی سے رواںرکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ وہ شائبہ یا کھوجی عناصر جو اس عمل کو انجام دیتے ہیں ان میں کیلشیم، میگنیشیم اور آئرن وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ ان تمام عناصر کی مقدار کی بلندی یا کمی سے جسم میں بہت ساری تغیرات پیدا ہوتی ہیں جو کبھی رسولی (Tumor) یا کسی دُوسری بیماری کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔
اسی وجہ سے ’’لیتھیم‘‘ (Lithium) کو بعض اوقات دماغی امراض میں علاج کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں جہاں یہ عناصر پانی میں موجود ہوں اور جسم کے کسی حصے میں تغیر محسوس ہو تو طبّی ماہرین سے فوری مشاورت ضروری ہے ،تا کہ بیماری پر کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔ بعض کھوجی عناصر ایسے بھی ہوتے ہیں جو عمر کے ساتھ جسم میں سرائیت کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ایسے عناصر کو ’’عناصر عمر‘‘ کا نام دیا گیا ہے جن میں ’’آرسینک‘‘ (Arsenic)، نکل (Nickel) اور بیریم (Barium) قابل ذکر ہیں۔ ان عناصر کی شناخت کے لئے تجزئیے کا جو طریقہ اپنایا جاتا ہے اسے ’’ ظہور برآمد طیف گرافی‘‘ (Emission Spectrography) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا آلہ ہے جو معادن کو بہت ہی گرم بجلی آرک (Electric Arc) کے ذریعہ بخارات میں تبدیل کرتا ہے، پھر اس روشنی کا تجزیہ کیا جاتا ہے جو جلتے ہوئے مادّے سے نکلتی ہے۔
������������������