کوڑھ کا عالمی دن | 130سالہ اسپتال کاٹھی دروازہ میں 250کوڑھ مریض کا اندراج کالونی میں180ابھی بھی زیررہائش، ابتک300 کی موت واقع

پرویز احمد
سرینگر //کوڑھ سے متاثرہ افراد کی رہائش کیلئے 130سال قبل تعمیر کئے گئے بہرار اسپتال کاٹھی دروازہ میں اسوقت 250مریض رہائش پذیر ہیں جن میں 70افراد کوڑھ مرض سے صحتیاب ہوگئے ہیں ۔اسپتال سے باہر کی دنیا میں امتیازی سلوک کے شکار کوڑھ مرض میں مبتلا مرد اور خواتین نے دنیا سے بہتر طریقے سے نپٹنا سیکھ لیا ہے اور اپنی مختصر سی دنیا میں مشکلات کے بائوجود بھی خوش ہیں۔ 1894میں کشمیر میڈیکل مشن کی طرف سے بہرار میں 39کنال اراضی پر 67رہائشی کوارٹروں پر مشتمل کوڑھ کالونی میں 250مریض رہائش پذیر ہیں۔ ان 250مریضوں میں 70 نے کوڑھ بیماری کو شکست دی ہے جبکہ دیگر 180افراد ابھی بھی کوڑھ مرض سے جوج رہے ہیں۔ 62سالہ نورہ بیگم کو 14سال کی عمر میں کوڑھ کی وجہ سے بہرار اسپتال منتقل کیا گیا تھا ۔ان کا کہنا تھا کہ میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ اچانک میرے دائیں ہاتھ میں کوڑھ کی تشخیص ہوئی۔نورہ نے بتایا کہ میرے والد نے مجھے ضلع اسپتال کولگام پہنچایا جہاں ڈاکٹروں نے کہا کہ اسے کوڑھ کا مرض ہے۔ نورہ نے بتایا کہ میں گھر میں سب سے چھوٹی تھی لیکن بیماری کے بعد رشتہ داروں کا رویہ ہی بدل گیا ۔ نورہ نے بتایا کہ مجھے گھر سے نکالا گیا اور والد نے بہرار اسپتال میں چھوڑ دیا ۔ نورہ نے بتایا کہ اسپتال میں شروع میں صرف 25 مریض تھے لیکن 1970میں کوڑھ کا مرض پھیلا اور اسپتال یا کوڑھ کالونی میں وادی کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے مزید 150مریضوں کو داخل کیا گیا ۔نورا نے بتایا کہ کوڑھ کالونی کے قبرستان میں 300کے قریب مریض دفن ہیں جو مرض سے فوت ہوئے۔ ایک دہائی کے بعد 1980میں کوڑھ مخالف دوائی ایم ڈی ٹی ایجاد ہوئی اور کوڑھ کا مرض قابل علاج ہوگیا ۔ ماہر امراض جلد ڈاکٹر عمر کا کہنا ہے کہ کوڑھ مرض کی علامتیں ایک سال کے اندر ظاہر ہوجاتی ہیں لیکن چند مریضوں میں علامتیں ظاہر ہونے میں 20سال تک کا وقت بھی لگ سکتا ہے‘‘۔ ڈاکٹرعمر نے بتایا کہ کوڑھ پہلے جلد اور بعد میں اندرونی نسوں اور پھر سانس کی نلی اور آنکھوں کو متاثر کرتا ہے۔ صدر اسپتال سرینگر میں سینئر فیزیو تھرپسٹ ڈاکٹر عارف نے بتایا ’’ کوڑھ مریضوں کے علاج میں فیزیوتھرپی کافی مدد کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نسیوں کی بیماریاں یا نسوں کا کام کرنا چھوڑ دینا ،ہم پہلے سے ہی پتہ چلتا ہے اور اس کے بعد ہی ہم مریضوں کا علاج شروع کرتے ہیں تاکہ ان کی حالت خراب نہ ہو۔ سکمزکی پتھولاجسٹ ڈاکٹر عالیہ کا کہنا ہے کہ کوڑھ پرانے زمانے میں وبائی بیماری تھی لیکن کوئی انسان کوڑھ مریض کے ساتھ ہاتھ ملانے، زیادہ رابطے، کھانہ کھانے سے بھی ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر عالیہ نے بتایا کہ کوڑھ مریض کسی مریض کے ساتھ زیادہ نزدیکی رابطے میں رہنے سے پھیل سکتا ہے، متاثرہ شخص کی کھانسی، چھینک وغیر سے ہوا میں پھیلانے والے بیکٹریاں جسم میں گھس جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی مریض میں کوڑھ بیماری کی تصدیق ہوتی ہے تو ان کو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے سال 1981میں منظور شدہ ایم ڈی ٹی دوائی دی جاتی ہے اور وہ چھ ماہ کے اندر اندر ٹھیک ہوجاتا ہے۔