’کورونا کا پھیلائو روکنے کیلئے حکومت سے زیادہ عوام کی شراکت اہم ‘

 جموں وکشمیر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعدا د بدستور بڑھتی ہی چلی جارہی ہے جس کی وجہ سے ہر سو تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے تاہم چند بنیادی احتیاطی اقدامات پر عمل پیرا ہونے سے اس وباء سے بچاجاسکتا ہے ۔گریٹر کشمیر کی نامہ نگار برائے شعبہ صحت ظہر النساء نے کورونا وائرس کی علامات ،احتیاط اور علاج کے حوالے سے وبائی زکام کے معروف ماہر اور شیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز صورہ میں انٹرنل اور پلمونری میڈیسن شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر پرویز ۔اے۔کول کے ساتھ اس بیماری کے سلسلے میں کثرت سے پوچھے جانے والے سوالات پر گفتگو کی۔ ریاض ملک نے قارئین کرام کی جانکاری کیلئے اس کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا۔پیش ہیں عام فہم زبان میں اس گفتگو کے اہم اقتباسات ۔

سوال: ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ ہم کوروناوائرس سے متاثر ہیں یاپھر یہ عام زکام ہے ؟
جواب: کورونا وائرس انفیکشن اور عام زکام کی علامات ایک جیسی ہیں اور آپ صرف لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے ہی وائرس کی قسم کا پتہ لگا کرکے ان میں فرق کرسکتے ہیںتاہم کورونا متاثرین میں ناک کا بہنا بہت کم پایا گیا ہے ۔کورونا سے متاثرہ علاقوں کی سفری تاریخ یا کورونا متاثرہ شخص سے رابطہ ایک شخص کومشتبہ کورونا متاثرہ سمجھنے کیلئے کافی ہے۔یہی اصول اُن صحت ورکروں پر بھی لاگو ہے جہاں کورونا متاثرین اور مشتبہ مریض رکھے جاتے ہیں۔
سوال : کورونا وائرس کی عام علامات کیا ہیں؟
جواب : کثریت سے پائی جانے والی علامات میں بخار ،خشک کھانسی اور سانس لینے میں دشواری شامل ہیں۔کچھ مریضوں میں درد،بند ناک ،بہتی ناک ،گلہ خراب یا دست بھی ہوسکتے ہیں۔یہ علامات عمومی طور ہلکے ہوتے ہیں اور رفتہ رفتہ بڑھ جاتی ہیں۔کچھ لوگ کورونا وائرس سے متاثر بھی ہوچکے ہوتے ہیں اور ان میں اس کی علامات ہی ظاہر نہیں ہوتی ہیں اور نہ ہی بیماری محسوس کرتے ہیں۔اکثر لوگ(تقریباً80فیصد)کسی خاص علاج کے بغیر ہی صحتیاب ہوجاتے ہیں۔کورونا سے متاثر ہونے والے ہر 6میں سے تقریباً 1شخص سخت بیمار ہوجاتا ہے اور اُس میں نظام تنفس یا گردے ناکارہ ہونے جیسی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔اب تک کے ڈاٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ بیشتر پیچیدگیاں ایسے بزرگ شہریوں میں پیداہوجاتی ہیں جو پہلے ہی ذیابیطس ،فشار خون ،پھیپھڑوں یا دل کے عارضہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔
سوال : کیا عارضہ قلب ،ذیابیطس ،فشار خون میں مبتلا مریضوں کو کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔؟
جواب: جی نہیں ۔عارضہ قلب ،ذیابیطس یا فشار خون جیسی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کو صحت مند لوگوں کی نسبت زیاد ہ متاثر ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
 سوال : کیا ان بیماریوں میں مبتلا لوگوں کو کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد زیاد ہ خطرات درپیش ہیں۔؟
جواب : کورونا وائرس سے متاثرہ لوگوں کی اکثریت(80فیصد سے زیادہ)میں نظام تنفس کی عفونت یا انفیکشن کی ہلکی علامات (بخار،خراب گلہ ،کھانسی)نمودار ہونگیں او ر وہ مکمل طور صحتیاب ہونگے۔ذیابیطس ،فشار خون اور عارضہ قلب میں مبتلا کچھ لوگوں میں زیادہ سنگین علامات پیدا ہونگیں ،لہٰذا ایسے لوگوں کیلئے اضافی احتیاط کی تجویز ہے۔
 سوال : کورونا وائرس کیسے پھیلتا ہے۔؟
 جواب : لوگ کورونا وائرس سے متاثرہ اشخاص کے رابطہ میں آنے سے اس کی زدمیں آسکتے ہیں۔یہ بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص میں اس صورت میں منتقل ہوسکتی ہے جب کورونا سے متاثرہ کوئی شخص کھانسی کرے یا چھینکے اور اس کے نتیجہ میں منہ اور ناک سے نکلنے والا لہاب نزدیک بیٹھے کسی شخص کو لگے یا اس کو وہ ہوا کے ساتھ سانس کے ذریعے اپنے اندر لے ۔اسی لئے ایک بیمار شخص سے کم از کم ایک میٹر یعنی 3فٹ دور رہنا انتہائی اہم ہے۔ چھینکوں اور کھانسی کے ساتھ نکلنے والے یہ آبی ذرات ارد گرد موجود چیزوں یا زمین پر بھی گر سکتے ہیںاور اگر کوئی ان چیزوں یا زمین کو چھوتا ہے اور وہی ہاتھ اپنی آنکھوں ،ناک یا منہ پر لگاتا ہے تو و ہ کورونا وائرس میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
سوال : کیا کورونا وائرس اُن علاقوں میں ہوا میں بھی موجود ہوسکتا ہے جہاں کورونا مریض رہتے ہوں؟۔
 جواب : فضاء میں معلق پانی کے ذرات سے اس وائرس کی منتقلی کے کچھ غیر تصدیق شدہ اشارے ملے ہیںتاہم ہوا کے ذریعے ہونے والے انفیکشن کیلئے صرف اُنہی مقامات پر احتیاط کی سفارش کی گئی جہا ں کچھ اس طرح کا کام کیا جارہا ہو جس سے پانی کے ذرات فضاء میں جاتے ہوں۔ان میں ادخال نلی ،عرق باشی یا نیبولائزیشن ،برونکسکوپی وغیرہ شامل ہیں۔ابھی تک ایسا ایک ہی کیس آیا ہے جس میں وائرس پاخانہ کے نمونے سے افزائش پاچکا ہو تاہم پاخانہ یامنہ سے اس بیماری کی منتقلی کا کوئی رپورٹ سامنے نہیں آیاہے۔
سوال: کیا کورونا وائرس آوارہ بلیوں و کتوں،پالتو بلیوں و کتوں یا دیگر جانوروں او رمچھروں کے کاٹنے سے بھی پھیل سکتا ہے؟۔
 جواب : ابھی اتک ایسے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہو کہ کورونا وائرس مچھروںکے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔منتقلی کا صحیح طریقہ ابھی بھی غیر واضح ہے۔ایسا مانا جارہا ہے کہ یہ وائرس چمگادڑوں میں پایا جاتا تھااور چمگادڑوں سے یہ حیوانوں یا جانوروں میں منتقل ہوا جہاں سے یہ انسانوں میں منتقل ہوا۔چمگادڑوں سے انسانوں تک منتقل کرنے والا یہ درمیانی میزبان متغیر طور پر سانپ ، دوسرے سمندری کھانے والے جانور یا حتیٰ کہ پینگولین تصور کئے جارہے ہیںتاہم یہ محض قیاس ہے اور تاحال اس حوالے سے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔ابھی تک صرف ایک ایسی مثال ملی ہے جب ایک بلی کو اپنے مالک سے یہ انفیشکن منتقل ہوا ہے(اب امریکہ کے ایک چڑیا گھر میں چیتا بھی اس وائرس میں مبتلا پایا گیا ہے)تاہم ان شواہد کی روشنی میں پالتو جانوروں کو لاوارث چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
سوال : کورونا وائرس سے بچنے اور اس کے پھیلائو کو روکنے کیلئے اہم اقدامات کیا ہوسکتے ہیں؟۔
جواب : ہمیں سماجی فاصلہ بنائے رکھنا ہے اور ہاتھوں کو مسلسل صاف رکھنا ہے ۔
ا: سماجی فاصلہ بنائے رکھنا انتہائی اہم  
ایسے لوگوں سے دوری بنائے رکھنی ہے جن میں سردی ،زکام ،بخار یا کھانسی کی صورت میں کورونا وائرس کی ممکنہ علامات پائی جاتی ہوں۔غیر ضروری سفر سے اجتناب کریں ۔پبلک ٹرانسپورٹ ترک کریں ۔لاک ڈائون پر انتہائی حد تک عمل کریں۔عوامی مقامات ،بھیڑ بھاڑ اور گھریلوں مجلسوں سے دور رہیں۔لاک ڈائون کا ہر گز یہ مطلب نہیںکہ ہم باہر جانے سے گریز تو کریں لیکن گھر میں پارٹیاں منائیں۔ہمیں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے جسمانی فاصلہ بنائے رکھ کر اُن سے فون ،انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ رکھنا چاہئے۔معمولی مسائل کیلئے ہسپتالوں یا لیبارٹریوںکا رجوع کرنے سے گریز کریں۔اگر ممکن ہو تو فون یا ہیلپ لائن نمبرات کے ذریعے ہی ہسپتالوں یا طبی مراکز سے رابطہ کریں۔اگر آ پ باقاعدگی کے ساتھ بلڈ شوگر ،آئی این آر ،سی بی سی وغیرہ چیک کراتے ہیں تو اس صورت میں فون پر ڈاکٹر سے رابطہ کریںاور جتنا ہوسکے ،ہسپتال سے دور ہی رہیں۔
ب: ہاتھوں کی صفائی
 مصافحہ کرنے ،گلے ملنے اور چہرے پر ہاتھ لگانے سے گریز کریں۔اپنے ہاتھ صابن اور پانی سے بار بار دھوئیں ۔ایسا کم ازکم بیس سکینڈوں تک کریںاور ہاتھ کے کسی بھی حصہ کو دھونے سے نہ رکھیں۔ہاتھ دھونے کے صحیح طریقوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کئی ویڈیو اور تصویری کہانیاں دستیاب ہیں اور ان پر عمل کیاجانا چاہئے۔شراب سے بنے ہینڈ سینٹائزر بھی کارآمد ہیں۔شراب سے عاری سینٹائزروں سے کوئی فائدہ ثابت شدہ نہیں ہے اور سینٹائزر میں کم ازکم 70فیصد شراب ہونی چاہئے۔انفیکشن سے ممکنہ طور متاثرہ علاقوں یا اشیاء جیسے بیت الخلاء کے دروازوں یا عام دروازوں کو چھونے سے گریز کریں۔گاڑی کی سٹیرنگ،کار ہینڈلز،چابیوں کے گچھے ،بٹوے ،موبائل فون وغیرہ کو ہاتھ لگانے کے بعد اپنے ہاتھ دھولیں۔صحت ورکروں کوحفظان صحت کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق ضد عفونت اقدامات کو روبہ عمل لانا چاہئے۔اس موضوع پر یہاں مدلل گفتگو کرنا نامناسب رہے گا۔
سوال : بازار میں ہر کوئی ماسک کی تلاش میں ہے اور بیشتر لوگ ماسک پہن بھی رہے ہیں۔کیا یہ ضروری ہے ؟۔
جواب : عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایسے لوگوںکیلئے میڈیکل ماسک کی ضرورت نہیںہے جن میں نظام تنفس کے علائم موجود نہ ہوںکیونکہ صحت مند لوگوں میں اس کی کارآمدگی کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔منتقلی کا طریقہ کھانسی یا چھینکنا ہے اور اگر وہاں اُس وقت کوئی موجود نہ ہوگاتو ماسک لازمی نہیںہے تاہم کچھ ممالک میں مقامی تمدنی عادات کے مطابق ماسک پہنے جاتے ہیں جیسے چین،ہانک کانگ وغیرہ میں یہ آلودگی سے بچنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔اگر ماسک استعمال کرنے ہیں تو انہیں پہننے ،نکالنے اورٹھکانے لگانے کیلئے وضع کردہ طریقہ کار پر عمل کیاجانا چاہئے اور انہیں نکالنے کے بعد ہاتھوںکی صفائی پر خصوصی دھیان دیا جاناچاہئے۔ عام لوگوں کیلئے اُس وقت ماسکوں کی ضرورت نہیں ہے جب تک نہ وہ کسی مریض کا خیال رکھ رہے ہوںتاہم اگر ماسک صرف ہیلتھ ورکروں کیلئے رکھے جائیں تو بہتر رہے گا۔
سوال : ماسک پہنتے وقت ذہن میں کیا رکھنا ضروری ہے ؟۔
جواب : اگر آ پ صحت مند ہیں تو آپ کو صرف اسی صورت میں ماسک پہننے کی ضرورت ہے اگرآپ کورونا سے ممکنہ طور متاثر کسی مریض کی دیکھ بال کررہے ہیں۔اگر آپ کھانستے یا چھینکتے ہیںتو ماسک پہنیں ۔ماسک تبھی موثر ہوسکتی ہیں جب آپ متواتر سینٹائزر ،صابن اور پانی سے ہاتھ دھوتے رہیں۔اگر آ پ ماسک پہن رہے ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسے کیسے استعمال کرنا ہے اور پھر کیسے صحیح طور ٹھکانے لگاناہے۔ماسک لگانے سے قبل ہاتھ سینٹائزر یا صابن سے دھوئیں۔منہ اور ناک کو ماسک سے ڈھانپ لیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے چہرے اور ماسک کے درمیان کوئی خالی جگہ نہ ہو بلکہ یہ چہرے سے چپکا ہو اہونا چاہئے۔دوران استعمال اس کو ہاتھ لگانے سے گریز کریں۔اگر آپ نے نادانستہ ہاتھ لگایا تو ہاتھ سینٹائزر یا صابن و پانی سے صاف کریں۔جب آپ کو لگے کہ یہ نم ہوچکی ہے تو اس کو تبدیل کریں اور ایک ہی دفعہ استعمال ہونے والی ماسکوں کو دوبارہ استعمال نہ کریں۔ماسک جب نکالنی ہو تو اس کو پیچھے سے نکالیں اور اس کے آگے والے حصہ کو نہ چھوئیں۔اس کو فوری طور بند کوڑا دان میں ڈال دیں۔پھر اپنے ہاتھ شراب والے سینٹائزر یا صابن و پانی سے دھوڈالیں۔ماسکوں کی ذخیرہ اندوزی سے گریز کریں۔اگر آپ ایسا کریں گے تو جس کو اس کی ضرورت ہوگی ،اس کو نہیں ملے گی ۔اس وقت پوری دنیا میں ماسکوںکی قلت ہے ۔لہٰذا انہیںاُن لوگوں کیلئے چھوڑ دیں جنہیں اس کی سخت ضرورت ہے۔
سوال : لوگ گھروں سے باہر نکلنے پر سرجیکل دستانے بھی پہن رہے ہیں؟۔
 جواب : لیٹکس دستانے آپ کو کورونا سے نہیں بچائیں گے۔جن لوگوں کو اس وبائی بیماری کی منتقلی کی فکر ہے ،انہیں ذاتی ،نظام تنفس اور ہاتھوںکی صفائی پر توجہ دی جانی چاہئے ۔دستانے پہننے والے لوگ تحفظ کا جھوٹا احساس تو کریںگے جس سے یہ تساہل پسند بن سکتے ہیں اور ہاتھ دھونے میں لیت ولعل کریں گے جو انتہائی اہم ہے۔
سوال : کیا جسم پر شراب یا کلورین چھڑکنے سے کورونا وائرس مرسکتا ہے؟۔
جواب : جی نہیں۔پورے جسم پر شراب یا کلورین چھڑکنے سے وہ وائرس نہیں مریں گے جو پہلے ہی آپ کے جسم کے اندر داخل ہوچکے ہوں۔ایسی چیزوںکا چھڑکائو آپ کے کپڑوں اورمیوکس ممبرین(جیسے آنکھوں،منہ)کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ شراب اور کلورین ،دونوںسطحوں کو انفیکشن سے پاک کرنے میں کارآمدہوسکتے ہیں لیکن انہیں سائنسی ضوابط کے تحت ہی استعمال کرنا ہے۔
سوال: کیا بہت گرم پانی سے نہانا ایک انسان کو اس وائرس کے حملہ سے بچاسکتا ہے؟۔
جواب : گرم پانی سے غسل کسی کو بھی کورونا وائرس سے نہیں بچا سکتا ہے ۔ہمارے جسم کا درجہ حرارت پانی کے درجہ حرارت سے قطع نظر 36.5سے 37ڈگری سیلشس تک رہتا ہے ۔بلکہ انتہائی گرم پانی سے نہانا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس سے آپ جل بھی سکتے ہیں۔
 سوال: کیا باقاعد گی کے ساتھ ناک کو کھارے پانی سے کلالے کرنے سے انفیکشن سے بچا جاسکتا ہے؟۔
جواب : جی نہیں۔ایسے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں جو اس بات کی دلالت کرتے ہوں کہ باقاعد گی کے ساتھ کھارے پانی سے ناک دھونے سے کورونا انفیکشن سے بچا جاسکتا ہے۔ناک دھونا یا گرارے کرنا وائرس کی منتقلی کم کرنے میں اثر اندازنہیں ہوسکتے ہیں۔گوکہ یہ مفید اقدامات ہیں،تاہم منتقلی کے امکانات کم سے کم تر کرنے کیلئے اضافی ثابت شدہ اقدامات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال : کیا لہسن کھانے سے اس عفونت سے بچا جاسکتا ہے؟۔
جواب : لہسن صحت بخش غذا ہے جس میں کچھ ضد عفونت خصوصیات ہوسکتی ہیںتاہم موجودہ وباء سے ایساکوئی ثبوت تاحال نہیں ملا ہے کہ لہسن کھانے سے لوگ اس وباء سے بچ پائے ہوں۔
سوال : کیا یہ 3ہفتوں میں یہ وباء ختم ہوگی جیسا کہ کچھ رپورٹوں میں کہاجارہا ہے ؟۔
جواب : مجھے ایسا نہیں لگتا۔اگر ہم چین اور اٹلی میں اس انفیکشن کی حرکیات پر غور کریں تو وہاں معاملات کو انتہا تک پہنچ کر اس کے بعد متواتر گراوٹ ریکارڈ کرنے میں 8ہفتے لگے۔اگر ہم اس ٹرینڈ کو فالوکریںتو ہمیں وسط اپریل کے بجائے کافی دیر مزید انتظار کرنا پڑے گا۔ایسے کچھ تخمینہ جات ہیں جن میں کہاگیا ہے کہ بھارت میں یہ وباء اپریل کے تیسرے یا چوتھے ہفتہ میںاپنی انتہا کو پہنچ چکی ہوگی۔اگر وہ انداز ے صحیح ثابت ہوگئے تو ہمیں اپریل کے پہلے یا دوسرے ہفتہ کے برعکس اس بیماری کے خلاف کافی طویل لڑائی کیلئے تیار رہنا پڑے گا۔مجھے لگتا ہے کہ ہم ابھی تک وبائی انتہاء تک نہیں پہنچے ہیں اور اس میں ابھی بھی دو سے تین ہفتے لگیں گے ۔جہاں میں ایسا کہہ رہا ہوں ،وہیںمیری دعا ہے کہ میں ہی غلط ثابت ہوجائوں۔
سوال : کیا کورونا وائرس کے علاج یا بچائو کیلئے کوئی مخصوص ادویات ہیں؟۔
جواب : ایسی کئی ادویات ہیں جنہیں کورونا وائرس کے خلاف استعمال کیاجارہا ہے ۔ا ن میں وبائی زکام اور ایچ آئی وی کے خلاف ضد وائرل ادویات،ہائیڈروکسی کلوروکوئین جیسی ضد ملیریا دوائی،ازیتھرو مائسن جیسی انٹی بیوٹک اور دیگر کئی تجرباتی دوائیاں شامل ہیں۔گوکہ ان دوائیوں کے کارگر ہونے کے کچھ دعوے کئے جارہے ہیں تاہم شواہد انتہائی کمزور ہیں اور انہیں متحرک کلینکل تجزیوں کی پشت پناہی بھی حاصل نہیں ہے۔ایف ڈی اے نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پرکورونا متاثرہ مریضوں کیلئے اس بیماری سے صحت یاب ہونے والے فرد کے پلازما کے استعمال کو منظوری دی ہے۔ہم بھی اس کے استعمال کی انضباطی منظوری پر غور کررہے ہیں۔
سوال : کیا انٹی بیوٹکس اس بیماری کے علاج اور بچائو میں معاون ہیں؟۔
جواب : جی نہیں۔انٹی بیوٹک وائرس کے خلاف بے اثر ہوتے ہیں۔
سوال : اگر وبائی زکام اور نمونیا کے خلاف کسی نے ویکسین کرائی ہو۔کیاوہ اس کے باوجود بھی کورونا وائرس کی وجہ سے نمونیا میں مبتلا ہوسکتا ہے اور ہم کب تک اس نئی بیماری کے خلاف ویکسین کی امید کرسکتے ہیں؟۔
جواب : جی ہاں ۔معمول کے ویکسین جیسے نمونیا ویکسین ،انفلونزا اور ہیموفلس انفلونزا ٹائب بی (Hib)ویکسین کوروناوائرس کے خلاف تحفظ فراہم نہیں کرتے ہیں۔کووڈ ۔19یا کورونا وائرس نیا وائرس ہے اور اس کے علاج کیلئے اس کا اپنا ویکسین چاہئے۔محققین کورونا وائرس کے خلاف ویکسین تیارکرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔کچھ انفرادی ویکسین دستیاب ہیں بلکہ انسانوں پر تجربہ کی کوششیں بھی شروع ہوچکی ہیںتاہم ان ویکسین کو انسانی استعمال پر ڈالنے سے قبل سال سے ڈیڑھ سال لگ سکتا ہے ۔وہ فی الوقت بہت دور ہے۔
سوال : کیا کورونا وائرس گرم اور مرطوب آب و ہوا میں پھیل سکتا ہے یا گرما میں اس کا پھیلائو کم ہوگا؟۔
جواب : اب تک ملے شواہد کے مطابق کورونا وائرس سبھی علاقوں میں پھیل سکتا ہے جس میں گرم و مرطوب آب و ہوا والے علاقے بھی شامل ہیں۔فی الوقت گرم علاقوں سے بھی کورونا وائرس کے معاملات سامنے آئے ہیں،لہٰذا یہ لازمی نہیں ہے کہ آنے والے گرما میں اس وائرس کا پھیلائو کم ہوگا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ موسمی حالات کے قطع نظر ہمیں احتیاطی تدابیر سے کام لینا چاہئے۔
 سوال : کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی کھوج لگانے میں تھرمل سکینر کس حد تک موثر ہیں؟۔
جواب : تھرمل سکینر بخار میں مبتلا لوگوںکا پتہ لگانے میں موثر ہیںتاہم ان کے استعمال سے اُن لوگوںکا صحیح پتہ نہیں لگ سکتا جو اس انفیکشن میں مبتلا تو ہیں لیکن ابھی بخار نہیں چڑھا ہے کیونکہ اس وائرس سے متاثرہ لوگوںکو بیمار ہونے اور بخار میں مبتلا ہونے میں2سے14دن  تک لگ لگتے ہیں۔
سوال : کشمیر میں کورونا وائرس کے معاملات بڑھ رہے ہیں۔کیا ہماری ائرپورٹ سکریننگ ناکام ہوئی؟۔
جواب : ایساہی لگ رہا ہے کیونکہ ہمارے سارے مثبت کیس اُن لوگوں سے نہیں آئے جن میں کوئی علامات نہیں تھیں اورپھر انہیں قرنطینہ کیاگیابلکہ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جوخود ا ئرپورٹ سے کسی طرح نکلنے میں کامیا ب ہوئے اور پھر انکے رابطہ میں آنے والے لوگ۔1700مہمانوں کوکافی خرچہ کرکے قرنطینہ کردیا گیاتاہم ان میں سے کسی میں بھی علامات ظاہر نہ ہوئیں۔آپ خوداس مشق کی کامیابی کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔مزید ایسے بھی لوگ ہیں جو زمینی سفر یا ریلوںکے ذریعے آئے جہاں سکریننگ زیادہ سست تھی ۔حسب ضوابط بناء علامتوںکے افراد کا قرنطینہ لازمی نہیں ہے ۔ہم ایسا کہہ سکتے ہیں کہ نیک ارادہ سے شروع کی جانے والی یہ مشق کہیں پر غلط ڈگر پر چلی گئی۔
 سوال : کیا ہمارا قرنطینہ پروٹوکول صحیح تھا؟۔
جواب : ہمارے پاس عالمی ادارہ صحت،سی ڈی سی اور وزارت صحت و خاندانی بہبود جیسے ادارے ہیں جنہوںنے ماہرین کی جانب سے تکنیکی مشاورت کی بنیاد پر تکنیکی پالیسیاں بنائیں۔میں حکام پر زور دوں گا کہ وہ ان ضوابط پر من و عن عمل کریںتاکہ ہم اپنے ہی رہنما خطوط ایجاد نہ کریں جو افرادی قوت اور وسائل کے غیر معقول استعمال پر منتج ہونگے۔ہماری قرنطینہ پالیسیوں کو غیر سائنسی قرار دیکر تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔اگر ہم رہنما خطوط پر عمل کریں تو ہم نہ صرف وضع کردہ طریقہ کار پر عمل کرینگے بلکہ ہم اپنے آپ کواُس حوصلہ شکن تنقید سے بھی بچا پائیں گے جو اس وقت ہورہی ہے۔
سوال : متاثرین کی تعداد بتدریج بڑھ رہی ہے۔کیا ہم تیار ہیں؟۔
جواب : ایک ہی لفظ میں ’نہیں‘۔میں افراتفری نہیں پھیلانا چاہتاہوںلیکن اگر امریکہ اور بیشتر یورپی ممالک جیسے ترقی یافتہ ممالک کاترقی پاچکا طبی ڈھانچہ جواب دے سکتا ہے تو ہمارا نظام کہیں شمار وقطار میں ہی نہیں ہوگااگر یہاں بھی تعداد اُس حد تک پہنچ جائے۔ہماری افرادی قوت ،طبی ڈھانچہ ،ہسپتال بستروں کے حجم وغیرہ کی ان ممالک سے کوئی مماثلت نہیں ہے اور ہماری آبادی کے حجم ،غربت اور صفائی ستھرائی کے فقدان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اس وائرس سے تباہ کن حملہ کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ہمارے نظام کا ناکام ہونا اُس صورت میں پھر طے ہے۔ہمارے وسائل انتظامیہ کی جانب سے کافی کوششوںکے باوجود انتہائی نامکتفی ہیں۔یہاں اس وائرس کی منتقلی روکنے کیلئے حکومتی اقدامات کی بجائے عوامی مہم کی اہمیت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
 سوال : کشمیر میں مختلف علاقوں کو ریڈاور زردزون قرار دینے پر کافی باتیں ہورہی ہیں۔کیاایسا کرناصحیح ہے؟۔
جواب : یہ ایک انتظامی فیصلہ ہے اور اس کو منتظموں کی دانائی پر چھوڑ دینا چاہئے۔مجھے یقین ہے کہ علاقوں کو ریڈزون وغیرہ قرار دینے کے تعلق سے انہوںنے کافی تکنیکی مشاورت حاصل کی ہوگی۔عمومی طور ممالک کی زمرہ بندی رنگوںکے ذریعے کچھ اس طرح ہوتی ہے؛
سبز زون:ایسے ممالک یا علاقے جہاں کوئی تصدیق شدہ کیس نہیں ہے یا دوسرے ممالک سے آنے والے چند ہی مسافر متاثرہ ہیں ،سبززون میں آتے ہیں۔
 زرد زون: ایسے ممالک یا علاقے جہاں مقامی سطح پر وائرس کی منتقلی کے چند معاملات سامنے آئے ہوں تاہم گروپوں کی صورت میں کمیونٹی ٹرانس میشن نہ ہوئی ہو(جرمنی وغیرہ)،زرد زون میں آتے ہیں۔
نارنگی زون: ایسے ممالک یا علاقے جو ریڈیا سرخ زون کے متصل ہوں یا جہاں چھوٹے گروپ ہوں (جیسے جاپان)،انہیں نارنگی زون میں رکھاگیا ہے۔
 سرخ زون : ایسے ممالک یا علاقے جہاں بڑے پیمانے پر کمیونٹی میں وائرس کی منتقلی ہو رہی ہو(جیسے چین ،امریکہ ،ایران ،سپین اور اٹلی وغیرہ)،انہیں سرخ زون میں رکھاگیا ہے۔
انتظامیہ نے شاید اسی زمرہ بندی کو علاقوں کو کلاسیفائی کرنے کیلئے استعمال کیا ہے تاکہ معقول طبی رسپانس کی درجہ بندی کی جاسکے۔ اگر وسیع علاقوں میں طبی رسپانس کی ضرورت درپیش آئے گی توآپ چھوٹے علاقوںمیں بیماری کے پھیلائو کی بنیاد پر اپنے ردعمل کو بڑھانے کی ترجیحات سیٹ کرنے کیلئے کلر کوڈنگ کااستعمال کرسکتے ہیںجیسے چین نے کیا۔
 سوال : کورونا وائرس کے بارے میں بہت کچھ لکھااور کہاجارہا ہے ۔ہمیں کیسے پتہ چلے کہ ہمیں کس پر بھروسہ کرنا ہے اور کس کو نظر انداز کرنا ہے؟۔
جواب : کوروناوائرس پر اطلاعاتی وباء اتنی ہی خطرناک ہے جتنا کہ خود کورونا وائرس کی وباء۔ہمیں بیک وقت دو جنگوںکا سامنا ہے۔براہ مہربانی معتبر ویب سائٹوں جیسے CDC،WHO،ICMRیاMoHFWکو ہی دیکھیں۔یہ اطلاعاتی وباء خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اور اس سے غلط تصورات اور غلط مشقیں جنم لیتی ہیں۔مہربانی کرکے وٹس ایپ یونیورسٹیوں اور ٹویٹر سیلاب پر عمل نہ کریں۔طبی ماہرین کو سوسائٹی گائیڈ لائنز اور معتبر طبی جریدوں کی ویب سائٹوں کو ہی فالو کرنا چاہئے۔