کنہیا لال کا قتل غیراسلامی عمل

حق نوائی

معصوم مرادآبادی

مسلمانوں جیسے نام رکھنے والے بعض گمراہ عناصر کنہیالال قتل معاملے کو اس تعلیم کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں ،جودینی مدرسوں میں دی جاتی ہیں۔حالانکہ سپریم کورٹ نے کنہیا کے قتل اور ملک میں نفرت کے موجودہ ماحول کے لیے تن تنہانوپورشرما کو ذمہ دار قراردیا ہے۔ عدالت نے نوپور شرما کے خلاف اب تک کارروائی نہ کرنے کے لیے پولیس کو بھی کھری کھوٹی سنائی ۔عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ’’ نوپور شرما پورے ملک کے لیے خطرہ ہے۔ اس کے بیان نے پورے ملک میں لوگوں کو مشتعل کردیا ہے۔ ادے پور میں جوکچھ ہوا اس کے لیے نوپورشرما پوری طرح ذمہ دار ہے۔‘‘سپریم کورٹ کے ان ریمارکس کے باوجودکچھ نام نہاد مسلمان اس معاملے کا رخ جس انداز میں مدرسوں کی طرف موڑنے کی کوشش کررہے ہیں ، وہ انتہائی شرمناک اورقابل مذمت ہے ۔ ان ہی بیانات کا نتیجہ ہے کہ ادے پور میں کنہیا لال کے قتل کے خلاف احتجاج کرنے والوں نے مدرسوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔جن مسلم نوجوانوں نے کنہیا لال کا قتل کیا ہے وہ نہ تو کسی مدرسہ سے فارغ ہیں اور نہ انھیں اسلام کی صحیح تعلیمات کا علم ہے۔ اسلام کسی بے گناہ کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں نے ایک آوازمیں اس وحشیانہ کارروائی کی پرزور مذمت کی ہے اور قصورواروں کو قرارواقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنی بات کہتا ہے ۔ عقل وشعور،تفکر وتدبر اور صبر وتحمل ہی اس کے ہتھیار ہیں ۔ جولوگ تشدد یا قتل وغارتگری کے ذریعہ اسلام کا پرچم بلند کرنا چاہتے ہیں ، وہ دراصل ان طاقتوں کے آلہ کار ہیں جو اسلام کو بدنام کرنے کی سازشوں کا حصہ ہیں۔
بی جے پی کی معطل ترجمان نوپور شرما نے رسول اکرم ؐکی شان مبارک میں گستاخی کی جو شرمناک حرکت کی تھی‘ اس سے مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ ہونا ایک فطری عمل تھا۔ اس کے خلاف پورے ملک میں مسلمانوںنے اپنا احتجاج بھی درج کرایا۔ یہ الگ بات ہے کہ احتجاج کرنے والوں کے ساتھ پولیس اور سرکاری مشنری نے ظالمانہ سلوک کیا۔ اسی احتجاج کے دوران جھارکھنڈ میں پولیس فائرنگ سے دومسلم نوجوانوں کی موت بھی واقع ہوئی ۔ سینکڑوں نوجوانوں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں اور انھیں تھانوں میں بدترین ظلم وبربریت کا نشانہ بنایا گیا ۔ کہیں بھی مسلمانوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیا اور وہ جمہوری طریقوں پر ہی چلتے رہے۔ لیکن ادے پور میں جن نوجوانوں نے کنہیا لال کو وحشیانہ طورپر قتل کیا ہے ، انھوں نے مسلم کاز کو زبردست نقصان پہنچایا ہے ، کیونکہ یہ عمل نہ تو اسلام کی تعلیمات کا حصہ ہے اور نہ ہی رسول اللہ نے اپنے ساتھ ظلم وزیادتی کرنے والوں کے ساتھ ایسا بہیمانہ سلوک کیا ہے بلکہ انھوں نے اپنے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کے سامنے حسن اخلاق کا مظاہرہ کرکے ان کا دل جیتا۔یہ انسانی تاریخ میں خیرخواہی اور بلند کرداری کی بہترین مثال ہے۔
گزشتہ 28؍جون کی شب جس وقت درزی کنہیا لال کے وحشیانہ قتل کی خبر عام ہوئی تو پورے ملک میں سنسنی پھیل گئی ۔ ادے پور میں تو حالات اس درجہ کشیدہ ہوئے کہ انتظامیہ کو پورے شہر میں کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ کنہیا لال نے کچھ دنوں پہلے سوشل میڈیا پر نوپور شرما کے بیان کی حمایت کی تھی۔ اس کے بعد سے اسے مسلسل دھمکیاں مل رہی تھی۔ ایک مقامی باشندے کی ایف آئی آر کے بعد گزشتہ دس جون کوکنہیا لال کو گرفتار بھی کرلیا گیا تھا ، لیکن اگلے ہی روز اسے عدالت نے ضمانت دے دی تھی۔ ضمانت پررہا ہونے کے بعد وہ مسلسل اپنی جان پر منڈلارہے خطرے سے پولیس کو آگاہ کررہا تھا ، لیکن اسے تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔ آخرکارمنگل کی شام مبینہ طورپر محمدریاض اور غوث محمد نام کے دونوجوان کپڑے سلوانے کے لیے اس کی دکان میں داخل ہوئے اور ناپ لینے کے دوران اس کی گردن تن سے جدا کردی اور اس کی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا کے حوالے کردی۔ اس واقعہ کے بعد راجستھان کی گہلوت سرکار نے جس تیزی کے ساتھ اقدامات کئے ہیں ، وہ یقینا لائق تحسین ہیں ، کیونکہ ویڈیو عام ہونے کے بعد جس طرح اشتعال پھیلنا شروع ہوا تھا ، اس میں کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوسکتا تھا۔ نہ صرف یہ کہ چھ گھنٹوں میں ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا بلکہ انھیں خصوصی عدالت کے ذریعہ جلدازجلدکیفرکردار تک پہنچانے کا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کنہیالال کے پسماندگان کو51؍لاکھ روپے معاوضہ کا چیک بھی پیش کردیا۔ ساتھ ہی خاندان کے دولوگوں کو سرکاری ملازمت دینے کا بھی اعلان کیا گیاہے۔
مسلم قائدین ، علماء، ملی تنظیموں اور اردو میڈیا نے کنہیا لال کے بہیمانہ قتل کی جن الفاظ میں مذمت کی ہے ، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس وحشیانہ واردات کو انجام دینے والوں کے حق میں کوئی معمولی آواز بھی نہیں اٹھی ہے۔ اس کے برعکس دسمبر 2017 میں اسی ادے پورمیں جب شمبھو ناتھ ریگر نے ’ لوجہاد‘ کا الزام لگاکر ایک بنگالی مزدور محمدافرازل کو وحشیانہ طورپر کلہاڑے سے قتل کردیا تھا توملزم کی حمایت میں سینکڑوں لوگ سڑکوں پر آگئے تھے اور عدالت میں اس کا دفاع کرنے کے لیے پانچ سو لوگوں نے ملزم کی بیوی کو تین لاکھ روپے چندہ جمع کرکے دیاتھا۔ان دونوں واقعات میں مماثلت یہ ہے کہ شمبھوناتھ نے بھی اسی طرح وحشیانہ قتل کی ویڈیو بنائی تھی جس طرح کنہیالال کو قتل کرنے والے نوجوانوں نے بنائی ہے۔شمبھو لال کا معاملہ ابھی عدالت میں زیرسماعت ہے اور اس کی سزا کوسوں دور ہے۔ وہ ایک بار ضمانت پر باہر بھی آچکا ہے۔پچھلے آٹھ سال کے دوران درجنوں مسلمانوں کی گاؤکشی کے جھوٹے الزامات لگاکر لنچنگ کی گئی ہے ، لیکن ابھی تک کسی قصور وار کو سزا نہیں ملی ہے۔ لیکن کنہیا لال کے قاتلوں کو آئندہ ایک ماہ کے اندرپھانسی پر چڑھائے جانے کا امکان ہے۔
کنہیالال کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنے واٹس ایپ پر ایک ایسا اسٹیٹس لگایا تھا جس میں نوپور شرما کے اہانت آمیز بیان کی تائید کی گئی تھی ۔اس کے بعد کچھ لوگ اس کے پیچھے پڑگئے تھے ۔ اگر آپ نوپور شرما کے معاملے میں حکومت کے کردار کا جائزہ لیں تو بہت زیادہ واضح نظر نہیں آئے گا۔شاید اسی لیے سپریم کورٹ نے پولیس سے اس کے لیے ریڈکارپٹ بچھانے کی بات کہی ہے۔دہلی پولیس نے بادل نخواستہ نوپورکے خلاف جو ایف آئی آر درج کی ہے اس میں معاملے کو طول دینے کے لئے مزید تیس لوگوں کو بطورملزم شامل کرلیاگیاہے۔ جبکہ نوپور شرما نے جو سنگین حرکت کی تھی اس کی وجہ سے پورے ملک کا امن وامان خطرے میں پڑگیا تھااور عالمی پیمانے پر ہندوستان کی شبیہ داغدار ہوئی تھی۔ نوپور شرما کو ملنے والی دھمکیوں کے سبب اسے سیکورٹی فراہم کی گئی اوراس وقت وہ سرکاری سیکورٹی میں کہیں روپوش ہے۔اس نے اپنے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں درج کئے گئے مقدمات کو یکجا کرنے کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا ، لیکن عدالت نے اس کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اس سے غیرمشروط معافی کا مطالبہ کیا ہے۔اس معاملہ میں پولیس کی جانبداری کا اندازہ حال ہی میںکی گئی محمدزبیر کی گرفتاری سے بھی ہوتا ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ محمدزبیر اپنی ویب سائٹ ’آلٹرنیوز‘کے ذریعہ گودی میڈیا کی اشتعال انگیزی اور نیوزچینلوںکی فرضی خبروں کا پردہ چاک کرتے ہیں۔زبیرنے ہی سب سے پہلے نوپورشرما کے معاملے کو اجاگر کیا تھا۔تبھی سے فرقہ پرست عناصر ان کے پیچھے پڑے ہوئے تھے اور حکومت پر ان کی گرفتاری کا دباؤ ڈال رہے تھے۔ آخرکار پولیس کو اس میں کامیابی مل گئی اور انھیں ایک ایسے ٹوئٹ کی بنیاد پر مذہبی جذبات بھڑکانے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا ، جوچار سال پرانا ہے اور جس میں انھوں نے ایک فلم کا بینر ٹوئٹ کیا تھا۔اگر حکومت نے وقت رہتے نوپور شرما کو گرفتار کرلیا ہوتا تو یقینا حالات اس حد تک خراب نہیں ہوتے۔ انصاف کے دوہرے پیمانوں کی وجہ سے ہی آج ملک یہ دن دیکھ رہاہے۔ہمارے حکمرانوں کو جتنی جلد اس کا احساس ہوجائے اتنا ہی ملک کے حق میں بہتر ہوگا۔
رابطہ۔[email protected]