کم عمری کی شادی اور میرا نظریہ ! تلخ و شریں

حمیراعلیم

اکثر خواتین اور سو کالڈ لبرلز کی طرف سے کم عمری کی شادی پر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں ۔کچھ دن پہلے ایک ساتھی لکھاری کا اسی بارےمیں ایک آرٹیکل پڑھنے کا اتفاق ہوا۔انہوں نے بھی کم عمری کی شادی کو غلط قرار دیا اور وجوہات میں بچیوں کا بچپن چِھن جانے، ان پر سسرال اور شوہر کے مظالم، گھر کی ذمہ داری وغیرہ وغیرہ کا ذکر کیا گیا تھا۔میرا نکتہ نظر ان سے قطعی مختلف ہے ،جس کی بہت سی دینی اور دنیاوی وجوہات ہیں ۔
اگر دنیاوی لحاظ سے دیکھا جائے تو ساری دنیا میں بشمول حقوق انسانیت کے سوکالڈ علمبردار امریکہ کے دس سے گیارہ سال کی بچیوں کی بڑی عمر کے مردوں سے نہ صرف شادیاں ہوتی ہیں بلکہ انکا جنسی استحصال بھی ہوتا ہے ۔بعض اوقات انہیں مشرقی ممالک سے خرید کر بنا شادی کے بھی رکھا جاتا ہے۔ان سے جسم فروشی بھی کروائی جاتی ہے۔کئی اسٹیٹس میں 12 سال کے بچے قانونی طور پر شادی کر سکتے ہیں ۔دنیا کے سب سے کم عمر اور غیر شادی شدہ والدین میں لڑکی پندرہ سال کی اور لڑکا گیارہ سال کا ہے۔( سین سٹیورٹ 11 گرل فرینڈ ایما ویبسٹر 15)دنیا بھر کا میڈیا انہیں ایسے کوریج دے رہا تھا جیسے انہوں نے مریخ فتح کر لیا ہو۔ہمارے ملکی چینلز نے بھی اس خبر کو زوروشور سے چلایا۔
اگر صرف اپنے ملک ہی کی بات کیجائے تو ٹی وی چینلز کے پروگرامز اور سوشل میڈیا کی ویڈیوز میں چھٹی ساتویں کلاس کی بچیاں نہ صرف بڑے دھڑلے سے اپنے ناجائز تعلقات کا اعتراف کرتی نظر آتی ہیں بلکہ اپنے ابارشنز کیلئے رجوع کئے جانے والے ڈاکٹرز اور کلینکس کا پتہ بھی بتاتی ہیں ۔جب میں ٹیچنگ کر رہی تھی تو کئی ایسے واقعات خود اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ پرائمری اور مڈل اسٹینڈرڈ کی بچیاں اسکول بنک کر کے اپنے بوائے فرینڈزکیساتھ جاتی رہیں اور جب کسی ایمرجنسی کی صورت میں اسکول ٹائمنگ میں گھر سے کوئی لینے آیا تو معلوم ہوا کہ بچی تو کئی دن سے اسکول آئی ہی نہیں ۔گیارہ بارہ سالہ بچے بچیاں ،جنہیں والدین اسکولز میں تعلیم حاصل کرنے بھیجتے ہیں وہ ایک دوسرے کو رجھانے میں مصروف ہیں، والدین کیلئے تو وہ ابھی بچے اور معصوم ہیں لیکن فطری تقاضوں اور انٹرنیٹ نے انہیں بالغ بنا دیا ہے ۔
ان سب غیراخلاقی اور غیر شرعی حرکات پر تو کسی این جی او، حکومت، لبرل کو کوئی اعتراض نہیں ۔لیکن اگر قرآن وسنت کیمطابق بالغ بارہ تیرہ سالہ بچے اور بچی کی شادی کر دی جائے تو ساری دنیا میں فساد برپا ہو جاتا ہے۔وجہ صرف یہ ہے کہ نکاح کو قرآن سورہ النساء آیت 24 میں ’’حصن‘‘ قلعے کا نام دیتا ہے۔یعنی گناہ سے محفوظ رہنے والا قلعہ ۔اور اگر نکاح کو عام کر دیا گیا تو یہود و نصارٰی کا ہم پہ غلبہ ناممکنات میں سے ہو گا۔انکا پورا زور ہمیں دین اسلام پہ عمل کرنے سے روکنے پر ہےاور اس سلسلے کی سب سے پہلی کڑی زنا کو عام کرنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ہر طرح کا اخلاق باختہ لٹریچر اور سائٹس فری آف کاسٹ مہیا کر رہے ہیں ۔جبکہ مغرب میں 18 سال سے کم عمر کے بچوں کیلئے یہ سب ممنوع ہے۔
اب آ جائیے ان اعتراضات کیطرف جو لبرلز کو کم عمری کی شادیوں پر ہیں ۔
تو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر دس سے پندرہ سالہ بچہ بچی بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کیساتھ ناجائز تعلق قائم کر سکتا ہے تو جائز میں کیا قباحت ہے۔دوسرے اگر سسرال یا شوہر ان سے بدسلوکی کرتے ہیں تو یاد رکھیے یہ بدسلوکی صرف کم عمر میں بیاہی جانے والی بچیوں سے ہی نہیں بلکہ ہر عمر اور ہر رشتے کی خواتین سے روا رکھی جاتی ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو گھر کے کام کاج اور بچوں سسرال کی خدمت اور دیکھ بھال کیساتھ ساتھ ان عورتوں کو باہر کے کام بھی نہ کرنے پڑتے۔مردانہیں اپنے دشمن کے خاتمے کیلئے کاری کا جھوٹا الزام لگا کر قتل نہ کرتے، اپنے مجرم بیٹوں کو بچانے کیلئے پانچ سے پندرہ سالہ بچیوں کو ونی نہ کیا جاتا۔
اس لئے ضرورت اس بات کی نہیں کہ ایسے قوانین بنائے جائیں جو کم عمری کی شادی کو روکیں،بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن و حدیث کی تعلیم کو عام کیا جائے۔ایسے باعمل اساتذہ ہائر کئے جائیں جو بچوں کو قرآن حدیث کا رٹا صرف اس لئے نہ لگوائیں کہ پیپر میں پاس ہونا ہے۔بلکہ انہیں ایسے پڑھائیں کہ بچے باعمل مسلمان بنیں۔صرف یہی ایک صورت ہے جو زنا اورناانصافی کا خاتمہ کر سکتی ہے۔کیونکہ جب بچوں میں اللہاور اُس کے رسولؐ کی محبت پیدا ہو گی تو وہ انکے پسندیدہ اعمال کر کے انکے محبوب بننے کی کوشش کریں گے۔قرآن و سنت پہ عمل کریں گے تو کسی بھی قسم کے حرام کام سے بچیں گے۔والدین کو دھوکہ دیکر چھپی دوستیاں لگا کر بدکاری اور اولادکے قتل جیسے گناہوں سے بچیں گے۔
جب انہیں یہ معلوم ہو گا کہ اللہ نے کس رشتے کے کیا حقوق و فرائض بتائے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں کیسے ادا کر کے عملی نمونہ پیش کیا ہے تو ان کیلئے ان حقوق و فرائض کی ادائیگی آسان ہو جائے گی اور معاشرے میں امن و سکون پیدا ہو گا۔ہر گھر اور معاشرے میں بگاڑ اور گناہ و جرم کی وجہ ہی یہی ہے کہ ہم اپنے فرائض سے غفلت برتتے ہیں اور حقوق مقررہ حد سے بھی زیادہ چاہتے ہیں ۔
جب ایک مرد یہ جانتا ہو گا کہ والدین کی خدمت، بہن بھائیوں، بیوی بچوں کی کفالت اس کی ذمہ داری ہے، اس کہ بیوی کی نہیں، بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ الگ رہائش ہو، شوہر کے مال پہ اس کا پورا حق ہے۔ اس کا وقت، جذبات، احساسات اس کی بیوی کا حق ہیں نہ کہ غیر عورتوں کا، بیوی ایک نوکرانی نہیں اس لئےاگر وہ کھانا نہ پکا سکے، گھر کے کام کاج نہ کر سکے، کپڑے نہ دھو سکے،مرمت نہ کر سکے، جوتے پالش نہ کر سکے، اس کے والدین اور رشتے داروں کی خدمت نہ کر سکے تو اُسے اور اس کے والدین کو گالیاں اور طعنے دینے یا طلاق کی بجائے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم والا طرز عمل اپنانا ہے۔( نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیک وقت 9 ازدواج مطہرات تھیں مگر آپؐ اپنے کپڑے خود دھوتے، جوتے مرمت کرتے، بکریوں کو دودھ دوہتے، بیگمات کو آٹا گوندھ دیتے، سبزی کاٹ دیتے، آگ جلا دیتے، پانی لا دیتے تھے، ان کیساتھ کھیلتے، ہنسی مزاح فرماتے تھے۔سفر میں ساتھ لیجاتے اور سواری کیلئے اپنا گھٹنا پیش کرتے۔دوران سفر انکی نازک طبیعت کا نہ صرف خود خیال فرماتے بلکہ خدمت پہ مامور غلام سے بھی فرماتے’’ اونٹ کو دھیان سے چلانا کہ ان پر نازک آبگینے سوار ہیں ۔‘‘کھانا نہ بنا ہوتا تو چیختے چلاتے تھے نہ طعنے دیتے نہ گالیاں کہ تم نو نو عورتیں مجھ ایک شوہر کی خدمت نہیں کر سکتیں بلکہ روزہ رکھ لیتے تھے۔کبھی کسی عورت پہ ہاتھ اٹھایا نہ نامحرم کو دیکھا یا چھوا کجا کہ ناجائز تعلقات رکھتے۔باہر کے کام بھی کرتے اور گھر کے بھی۔کبھی کسی بیگم کے بحث کرنے پر انکے والدین سے شکایت نہیں کی بلکہ اگر والدین نے مداخلت کرنی چاہی تو انہیں فرمایا’’ یہ ہم میاں بیوی کا معاملہ ہے آپ مت بولیں ۔‘‘ )
بیوی کے والدین کو بھی اپنے والدین کی طرح سمجھ کر عزت دینی ہے۔نہ اپنے والدین کیساتھ زیادتی کرنی ہے نہ ہی بیوی بچوں کیساتھ۔مہر معاف نہیں کروانا بلکہ ادا کرنا ہے۔جہیز نہیں لینا بلکہ خود گھر بنانا ہے، بیوی کو اپنی استطاعت کےمطابق بہترین کھانا، کپڑا، آسائش زندگی دینا ہے۔اگر نبھا نہ ہو سکے اور نوبت طلاق تک پہنچ جائے تو جو کچھ بیوی کو دیا ہو ،اسے واپس نہیں لینا اور نہ ہی اسے بچوں کیوجہ سے اذیت دینی ہے۔تویقین مانیے کسی بھی گھر میں کسی بھی عورت کا استحصال نہیں ہو گا۔کوئی بیوی، ماں، بہن، بیٹی ظلم کا شکار نہیں ہو گی۔عورت تو بدترین حالات میں بھی گزارا کرتی ہے اور گھر بسانے کیلئے ہر چیز برداشت کرتی ہے تو جب اس کے حقوق کا خیال رکھا جائے گا تو وہ کیوں اپنے فرائض سے غفلت برتے گی؟
ہمارے معاشرے کے مرد کا دین چار شادیوں کی رخصت سے شروع ہو کر شوہر مجازی خدا ہوتاہے پر ختم ہو جاتا ہے۔باقی معاملات میں قرآن کیا کہتا ہے اس سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔اس میں کچھ قصور ہم عورتوں کابھی ہے کہ ہم اپنے بیٹوں کو قرآن و سنت کی تعلیم و تربیت نہیں دیتیں ۔مگر مرد بھی اتنا ہی قصور وار ہے کہ قرآن مردوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائیں اور دین سکھائیں ۔مگر دونوں ہی دنیا میں اتنے گم ہیں کہ دین کو بھلا بیٹھے ہیں اور اسکی سزا میں دنیا کی زندگی ان پر تنگ کر دی گئی ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
’’ اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا تو اس کیلئے زندگی تنگ ہو جائے گی۔‘‘( سورہ طہ124) گھر جائے سکون کی بجائے جہنم کا منظر پیش کرتا ہے۔جس کی وجہ حقوق کی منصفانہ ادائیگی کا نہ ہونا ہے۔اس لئے قوانین، جلسے جلوس، این جی اوز، اور بین کے بجائے قرآن و حدیث کی تعلیم عام کرنے کا انتظام کرنے کی ضرورت ہے۔تاکہ آنے والی نسلیں بہتر زندگی گزار سکیں۔