کشمیر پر ’’گھر واپسی‘‘ کے منڈلاتے ہوئے خطرات

  سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کی طرف سے سرینگر نشست کے ضمنی پارلیمانی انتخابات کیلئے امیدوار ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کشمیر عظمیٰ کے سنیئر نامہ نگار بلال فرقانی کے ساتھ خصوصی انٹریو کے دوران آئندہ انتخابات، ریاست کی تازہ ترین صورتحال اور جنگجوئوں و فورسز کے درمیان جھڑپوں کے دوران احتجاجی مظاہروں کے نئے رجحان کے علاوہ مزاحمتی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔
 
سوال(۱) ریاست کی موجودہ صورتحال میں کیا آپ کو لگتا ہے کہ لوگ ووٹ دینگے اور بائیکاٹ کی صورت میں جو نمائندگی سامنے آئے گی یا وہ جائز نمائندگی ہوگی۔
جواب: منتخب نمائندہ آپ کی نمائندگی کرتا ہے، چاہے آپ ووٹ دیںیا نہ دیں۔ اگرآپ یہ سوچیں گے کہ 10لاکھ ووٹروںمیں سے سبھی   10لاکھ ووٹ دینگے تو ایسا نہیں ہوگا۔سوال یہ ہے کہ لوگوں کوسوچنا ہوں گا کہ وہ اپنے تشخص کو بچاتے ہیںیا نہیں۔یہ لوگوں کوہی فیصلہ کرنا ہے۔لوگ مجھ پر یہ الزام نہیں لگا سکتے ہیں کہ میں نے خود کو دائو پر نہیں لگایا۔
سوال(۲) ان انتخابات میں آپ کو کس بات کی سب سے زیادہ فکر ہے۔3سال قبل ہی آپ کو پارلیمانی الیکشن میں ہار کا منہ دیکھنا پڑا۔
  جواب:یہ راستہ میں نے لوگوں کے وقار اور ریاست کے استحکام کیلئے چنا ہے ،جو ہمیشہ میری آرزو رہی ہے اس لئے انتخابات سے مجھے کوئی خوف نہیں ہے۔
سوال(۳)۔۔کیا یہ تضاد نہیں ہے کہ آپ نے جلسوں میں اپنے کارکنوں کو اُن لوگوں سے تعاون کرنے کی ہدایت دی جو آزادی چاہتے ہیںاور اب پارلیمانی انتخابات میں شرکت کر رہے ہیں۔
 جواب:کیا کسی کو پارلیمنٹ میں جانا نہیںہے،اگر نیشنل کانفرنس پارلیمنٹ میں نہیں جائے گی تو کوئی اور جائے گا۔کیا آپ کسی کو پارلیمنٹ میں جانے سے روک سکتے ہیں۔مگروہاں جا کرکشمیر کے لوگوں کے مسائل اُجاگر کرنے ہے،جو نہیں کئے گئے۔آپ ٹریک ریکارڑ دیکھ سکتے ہیں کہ گزشتہ دفعہ جن لوگوں کو پارلیمنٹ میں بھیجا گیا،کیااُن میں سے کسی نے کشمیر کی تباہی،ظلم اور ہلاکتوں کے بارے میں ایک لفظ بھی بولا ،اگر مجھے دکھاو گے تو میں آج ہی اپنی نامزدگی واپس لو نگا۔
سوال(۴)شہری ہلاکتوں سے آپ کو نہیں لگ رہا ہے کہ انتخابات کیلئے ماحول بگڑ رہا ہے۔
  جواب:یہاںماحول کب ٹھیک تھا۔1996میں جب الیکشن لڑا توکہیں5فیصد ووٹ پڑے اورکسی جگہ10فیصد ،مگر ہم نے ریاست کو اُس صورتحال سے باہرنکالا اورحالات کو پٹری پر لانے کیلئے قربانیاں دیں، کتنوں کو شہید ہونا پڑا  لیکن ایک راستہ بنالیا۔آج بھی گولیاںچل رہی ہیں،بے گناہ مارے جا رہے ہیں، آج بھی حالات خراب ہیں مگر یہ ایک اسکیم کے تحت ہو رہا ہے۔تا کہ لوگ ووٹ ڈالنے کے لئے نہ نکلیں اور ان میں ڈر پید کیا جائے۔ لوگوں کو اپنے دل سے اس ڈر کو نکالناہوگا، اگر وہ اُس آفت سے بچنا چاہتے ہیںجو آرہی ہے۔
سوال(۱۴) نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے قائدین بار بار یہ بات دہراتے ہیں کہ حالات کواس وجہ سے خراب کیا جا رہا ہے تاکہ لوگ ووٹ نہ ڈالیں۔
سوال(۵)کیا آپ کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے بہتر طریقے سے نپٹا جاسکتا تھا۔
 جواب:کیوں نہیں ؟اس صورتحال سے بہتر طریقے سے بھی نپٹا جاسکتا تھا۔اُس نے (محبوبہ مفتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اپنا ضمیر فروخت کر دیا ہے ، جیسے اس کے مرحوم والد نے کیاتھا اور وہ دن دور نہیں جب اس کو بھی اللہ کے غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سوال(۶) اپوزیشن میں رہ کر سیاسی جماعتیںزمین و آسمان کے قلابے ملاتی ہیںلیکن اقتدار میں آکر پھرانہیںسب کچھ کیوں فراموش ہوتا ہے؟۔
جواب :۔1996میں صرف ایک جماعت کی حکومت تھی اور اس میںکسی کی مداخلت نہیں ہوتی تھی ۔جوہم کرنا چاہتے تھے کر سکتے تھے۔کولیشن میں مصیبت یہ ہوتی ہے کہ آپ جوکچھ کرنا چاہتے ہیں وہ کر نہیں پاتے،کولیشن کوئی آسان بات نہیںہے۔اس لئے میں لوگوں سے کہتا ہو کہ یا تووہ پورا ووٹ دیں یاپھر نہیں دیں۔
سوال(۷): آپ کو کیوں لگ رہا ہے کہ لوگ نیشنل کانفرنس کے حق میں ووٹ دینگے۔
 جواب:اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے اور اگر میں کشمیریوں کیلئے کچھ کرنا چاہتا ہو ںتو میں جیت جائوں گا۔یہ لوگوں کو فیصلہ کرنا ہے۔ہمیں کل الزام نہ لگانا جب گھوڑے تم پر دوڑائے جائے گے۔2014میں بھی ہم نے یہی کہاتھا کہ ہوشیار ہو جاؤ ،طوفان آرہا ہے،اورآج لوگ اس طوفان میں بہہ رہے ہیں۔ تمہارے بچوں کو روز گارنہیں ملتا ،سڑکیں اور راستیں نہیں بنتے ، یہاں بجلی نہیں پہنچی۔
(۸)سوال: سال2017کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
 جواب :۔2017 ہمارے لئے اس وجہ سے انتہائی اہم ہے کہ اتر پردیش کے انتخابات نے یہ بات ہمارے سامنے رکھ دی ہے کہ ہندوستان’’ وحدت میں کثریت ‘‘کے نام پر بنا تھالیکن آج اُس وحدت کوختم کرکے ہندو راشٹر کو سامنے لانے کی کوشش ہورہی ہے۔کشمیریوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ایسا دن بھی کبھی آئے گاجب آر ایس ایس اور بی جے پی اُس خاکے رنگ بھریں گے جو قائد اعظم محمد علی جناح نے1946-47میں کھینچا تھا۔
سوال(۹): اتر پردیش کے انتخابی نتائج جموںو کشمیر پر کس طرح اثر انداز ہونگے۔
 جواب: ان انتخابات کا فوری نتیجہ یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ شوسینا نے(وادی میں) دفتر کھولنے شروع کردیئے اور آر ایس ایس نے لوگوں کو خریدنے کی اپنی مہم شروع کردی ہے۔آر ایس ایس کی’’گھر واپسی‘‘ کا مقصد مسلمانوں کواپنامذہب تبدیل کر کے ہندو بنانا ہے۔مودی جی بہت کچھ بولتے ہے مگر آج تک نریندرمودی نے اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بولا کہ وہ ہندوستان کو ہندومملکت نہیں بنانا چاہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ پارلیمنٹ میں ایک بھی شخص نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ کہیں آپ کا مقصد بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کا تو نہیں ؟۔
سوال(۱۰): کیا آپ کا مطلب ہے کہ جمہوری نظام میں آر ایس ایس ،شوسینا یا دائیں بازوں کی کسی دوسری جماعت کو جموں کشمیر میں دفتر کھولنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
  جواب:میں ان کی مخالف نہیں کرونگا،اگر کشمیری مسلمان ان کو چاہتے ہوں۔کشمیری مسلمان انہیں (زعفرانی برگیڈ) کونظر انداز کرنا چاہتے ہیں اور وہ کشمیری مسلمان خواہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہو وہ قطعی ہندوستان کو ہند راشٹر کی شکل میں نہیں دیکھنا چاہتے۔
 سوال(۱۱):مرحوم شیخ محمد عبداللہ نے سیکولر بھارت کے ساتھ رہنے کی حمایت کی،موجودہ حالات کے تناظر میں کہیں آپ کو یہ تونہیں لگتا ہے کہ وہ فیصلہ غلط ثابت ہورہا ہے۔
 جواب: اُس مرحلے پربھارت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ غلط نہیں تھا۔ وہ ویسا ہی مرحلہ تھا،حملہ آوار یہاں تھے اور مہاراجہ نے الحاق کیا تھا۔یہ مہاراجہ ہری سنگھ تھے جنہوںنے ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا تھا ،شیخ عبداللہ نہیں۔دستاویز الحاق پر مہاراجہ نے دستخط کئے۔ تیاریاں پہلے ہی کی جاچکی تھیں۔اس وقت جو اچھی چیز صرف ہم حاصل کرسکتے  تھے وہ دفعہ370تھا، جس نے ہمیں آٹانومی دی،مگر ہمارے اپنے لوگوں نے اس کو فروخت کیااوراس کیلئے میں صرف نئی دلی کو قصور وار نہیںٹھہراتا ہوں۔
سوال(۱۲): آپ بار بار کہتے ہیں یہ انتخابات سیکولر طاقتوں اور فرقہ پرستوں کے درمیان ہے۔کشمیر میں یہ مقابلہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے درمیان ہے۔
 جواب۔یہ مقابلہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی کے درمیان نہیںہے بلکہ نیشنل کانفرنس اور آر ایس ایس کے درمیان ہے۔پی ڈی پی کا اپناکوئی وجودہی نہیں۔پی ڈی کو کس نے بنایا؟،بی جے پی اور آر ایس ایس اس کی خالق ہے۔2002میں کس نے پی ڈی کو لایا؟، بغیر کسی ابہام کہتا ہو کہ پی ڈی پی آر ایس ایس کا چہرہ ہے۔
سوال(۱۳): کیا آپ کا مطلب ہے کہ حکومت ہند از خود صورتحال کو خراب کر رہی ہے۔
 جواب: صورتحال خراب ہورہی ہے انکی اپنی کرنی سے۔اتر پردیش میں جوکچھ ہو رہا ہے،وہاں کے حالات کا یہاں براہ راست اثرنہیں پڑ رہا ہے کیا؟۔کیا یہاں کے دانشور اور نوجوان اپنے مستقبل کے حوالے سے فکر مند نہیں ہیں۔ میں یہ پوچھناچاہتا ہوںکہ چاڈورہ سانحہ کیوں پیش آیا،3نوجوانوں کو کسی ارادے کے تحت مارا گیا۔یہ اس لئے ہوا کہ فاروق عبداللہ کو اس دن عوامی جلسے سے خطاب کرنے کے لئے چاڈورہ جانا تھا۔اس تناظر میںیہ واقعہ کیاکچھ بیان کرتاہے؟۔
سوال(۱۴):اس صورتحال سے باہر نکلنے کا راستہ کیا ہے
جواب: ریاست میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہونا ہوگا ۔
سوال(۱۵)۔آپ نے کہا کہ اتحاد کی ضرورت ہیں،آپ اس کا خاکہ کھینچ سکتے ہیں کہ کس طرح اور کن سے اتحاد کی ضرورت ہے۔
  جواب:سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں ؟اور وہ یہ ہے کہ ریاست کی خصوصی پوزیشن قائم رکھی جائے۔ہم یہ بھی جانتے ہیں اگر یہ پوزیشن قائم رکھنی ہے تو پاکستان کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے، اس کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکتا ۔ہم ہندوستان کے ساتھ کتنے ہی سمجھوتے کیوں نہ کریں ،ان سمجھوتوںکا کوئی بھی نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا اور اسی طرح اگر یکطرفہ طور پاکستان کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرینگے تووہ بھی نہیں چلے گا ،اس لئے دونوں ملکوں کے ساتھ بات کرنا ضروری ہے۔یہاں داخلی پہلو بھی ہے اور خارجی پہلو بھی۔ ہمیں تمام فریقین کو ایک ہی میز پر لانا ہوگا۔ یہ بہت مشکل ہے، آسان کام نہیںہے کیونکہ ایک جماعت پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتی ہے تودوسری جماعت کہتی ہے کہ ہمیں آزاد ہونا ہے۔اس لئے آپ کو مل بیٹھ کر دیکھنا ہے کہ ان حالات میں کیاکچھ ممکن ہے۔ایک ایسی ریاست جو ہر طرف سے گھری ہوئی ہے ،کیاوہ بچ سکتی ہے۔ہمارے پاس نہ فوج ہے اورنہ ایسے وسائل کہ ہم اپنی سرحدوں کی حفاظت کرسکیں ۔ایک طرف پاکستان ہے، ایک طرف سے چین ہے اور ایک طرف سے ہندوستان ، جوسب نیوکلائی طاقتیں ہیںاورہمارے پاس کوئی چیز نہیں۔ان حالات میںمل بیٹھ کر ہی کوئی راستہ نکالا جا سکتاہے۔ اگر سوفیصدبات نہیں بنے گی 60فیصد بھی اتفاق کریں تو بھی کام چل سکتا ہے۔
سوال(۱۶):کیا آپ کا کہنا ہے کہ مزاحمتی جماعتوں سے بھی اتحاد ضروری ہے
 جواب:مزاحمتی جماعتیں اس ریاست کا حصہ ہیں۔ وہ کوئی بیرونی طاقتیں نہیں ہیں۔ اسی زمین کا حصہ ہیں اور انہیں ریاست اتنا ہی حق ہے جتنا ہمیں حاصل ہے۔میں کس طرح کہہ سکتا ہوں کہ انکا وجود نہیں ہے۔
سوال(۱۷):مزاحمتی خیمے کے ساتھ اتحاد کن خطوط پر اتحاد ہوسکتا ہے۔
 جواب:کوئی بھی راستہ اگرنکالنا ہے تو مل کر بیٹھ کر نکالناہوگا۔اس کے بغیرکوئی چارہ نہیںہے۔اگر میں کہوں گاکہ میرا راستہ ٹھیک ہے اوروہ کہیںگے کہ ہمارے راستے صحیح ہیںتواس سے کام نکلے گا۔ جب وہ وہاں (خانہ وتھانہ نظر بندی) سے نکل آئیں تو ایک دن ہمیں بیٹھنا ہوگا۔ہمارے درمیان کتنے ہی اختلافات اور دوریاں کیوں نہ ہوں، اس وطن کو بچانے کیلئے ہمیں ان اختلافات کوایک طرف رکھنا ہوگا۔میں جانتا ہو12 سے13ہزار نوجوان جیلوں میں بند ہیں اور نوجوانوں کو روز پکڑا جا رہا ہے۔
سوال(۱۸):کیا فاروق عبداللہ اس کیلئے پہل کریںگے۔
جواب:میں اس کیلئے پہل کرنے کو تیار ہوں۔ میںچاہتا ہوں کہ ایک میز پر بیٹھ کر آپس میں بات کریں اور یہ دیکھ لیاجائے کہ کس راستے سے منزل کاحصول ممکن ہے اور اس منزل کے لئے اکھٹے لڑینگے۔اگر ہم ایک مٹھی کی طرح ہوجایںگے تو دونوں ملکوں(ہند و پاک) کو ہماری بات مانی پڑے گی اور جب تک ہم منقسم رینگے ہماری بات کوئی نہیں سنے گا۔
سوال(۱۹):مذاکراتی عمل کو آپ کیسے دیکھتے ہیں جبکہ حکومت ہندمتعلقہ فریقین کے ساتھ بات کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ان حالات میں مزاکراتی عمل کا دائرہ کار آپ کہا ںدیکھتے ہیں۔
جواب:مایوس نہیں ہونا ہے بلکہ ان کا مقابلہ کرنا ہے اور اگر نیت صحیح ہے تو گھبرائیں مت ،وہ طاقتیں اللہ کی طرف سے بھی آجائینگی جو ہمیں ہمت عطا کر یں گی۔ 
سوال(۲۰):پی ڈی پی اور بی جے الزام لگاتی ہے کہ انتخابات کی وجہ سے فاروق عبداللہ مزاحمتی جماعتوں سے بات چیت کی وکالت کرتا ہے۔
 جواب:کھبی نہیں!فاروق عبداللہ نے آٹانومی پراپنا مؤقف تبدیل نہیںکیا۔ اگر کوئی ایسا کہتا ہے تو وہ متضاد باتیں کرتاہے ۔میں کہتا ہو کہ آگے کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔یہ بات صرف فاروق عبداللہ ہی نے نہیں کہیں ۔کیا پی ڈی پی نے نہیں کہا کہ بی جے پی کے ساتھ طے پائے ایجنڈا آف الائنس میںیہ بات شامل ہے کہ ہم حریت کے ساتھ بات کرینگے؟، کیاانہوں نے نہیں کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ بات کرینگے؟،کیا ہوئی یہ سب باتیں اقتدار سنبھالنے کے بعد؟،کوئی پی ڈی پی سے پوچھے۔ میں کہتا ہو کہ جب تک ہم  اپنے گھر کو ٹھیک نہیں رکھینگے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
سوال(۲۱):مگر نیشنل کانفرنس نے اس کے لئے کیا کیا۔
 جواب۔۔نیشنل کانفرنس نے بہت کوششیں کی، تاہم کچھ طاقتیںایسی ہیں جو رخنہ ڈال رہی ہیں،اس وقت بھی ہمارے ارادے صاف ہیں لیکن کچھ طاقتیں ہمارے اتحادکی کوششوں کے خلاف کئی محازوں پر آج بھی سرگرم ہیں۔آج بھی میرے ارادے وہی ہیں۔
سوال(۲۲): نوجوان سڑکوں پر آ رہے ہیں اور جان بحق ہو رہے ہیں،اس کے بارے میں حکومت ہند کا کیا اپروچ ہونا چاہے۔
 جواب: اگر ایک لاکھ لوگ بھی مر جائیں توکیا یہ حکومت ہند کیلئے کوئی مسئلہ ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو انہوں ( حکومت ہند) نے بات چیت کا سلسلہ کب کا شروع کیا ہوتا تاکہ کوئی حل برآمد ہوتا۔میرے دور میںحزب المجاہدین کے لیڈروں کے ساتھ بات ہوئی۔ مجھے وزیر داخلہ نے طلب کیا۔وہاں خفیہ ایجنسیاں ’’را ‘‘اور’’ آئی بی‘‘ بھی موجود تھی اوروزیر داخلہ نے مجھ سے مخاطب ہوکرکہا کہ فاروق عبداللہ ان مذاکرات  کے حق میں نہیں ہے۔میں نے ایڈوانی جی،جو اُس وقت وزیر داخلہ تھے ،سے سوال کیا کہ آپ کو کس نے کہا ہے کہ فاروق عبداللہ بات چیت کے حق میں نہیں ہے؟۔میںتو چاہتا ہوں کہ کوئی راستہ نکلے اور بات چیت ہوں۔دوسری ریاستیں ترقی کے آسمان پر پہنچ رہی ہیں اور ہم زمین بوس ہو رہے ہیں۔ غلط فہمی سے باہر آئیے، کچھ لوگ آپ کے کانوں میں غلط باتیں ڈال رہے ہیں۔ایسا بلکل نہیں ہے بلکہ نیشنل کانفرنس اس حق میں ہے۔اُس بات چیت کے عمل میں کچھ غلطیاں ہوئیں اوراُنکو(بات چیت کے لئے سامنے آئے حزب کمانڈروں) ایکسپوز کیا گیا۔نتیجہ کیا نکلا، وہ سب کے سب مارے گئے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اُن کے ساتھ خاموشی کے ساتھ بات ہوتی ۔کسی کو معلوم نہیں ہوتا اور کوئی راستہ نکل آتا،مگر اُنہیں ایک اسکیم کے تحت ایکسپوز کیا گیا اوراُن کے آنے سے پہلے میڈیا کو بھی لایاگیا۔وہاں اتنے لوگ موجود تھے کہ وہ چل نہ سکے۔کہاں ہیں آج وہ؟ کیا وہ شکار نہیں ہوئے اور سب مارے گئے۔
سوال(۲۳): لوگ جنگجوئوں کیلئے مر مٹنے پر کیوں تیار ہیں،یہ رجحان کیوں تیزی کے ساتھ پنپ رہا ہے۔
  جواب:آپ لوگوں میں رہتے ہے،لوگ محسوس کرتے ہیں کہ کشمیریت کا قتل کیا گیا اور انکے وقار کو مسخ کیا گیا، اس لئے وہ گولیوں کا سینہ تان کے سامنا کرتے ہیں اور وہ اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کرتے۔
سوال(۲۴):فی الوقت مذاکراتی عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے؟۔
 جواب:اول ڈول ڈاکٹرین ، کہ تم جتنا ان (ریاستی عوام)کودبائوو گے وہ کمزور ہوجایں گے اور دوسری رکاوٹ آر ایس ایس کا پس منظرہے۔بی جے پی حریت سے بات نہیں کرنا چاہتی جبکہ دوسرے فریقوں سے بات کی۔وہ یہ ماننے کیلئے تیار نہیں ہے کہ حریت فریق ہے مگر وقت ا ٓچکا ہے کہ وہ حریت کو فریق تسلیم کریں۔ جب پارلیمانی وفدیہاں آیا تو وزیر اعلیٰ نے انہیں ایک سیاسی جماعت( پی ڈی پی) کے صدر کی حیثیت سے مدعو کیا، حکومت ہند یا وزیر اعلیٰ کی طرف سے نہیں۔ اگر حکومت ہند کی طرف سے مکتوب گیا ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ (حریت والے)ضروربات کرتے اور یہ تاثر ملتا کہ حکومت ہند حریت کے ساتھ بات کر رہی ہے۔یہ غلطیاں ہیں جس سے حکومت ہند کو باہر آنا ہوگا۔انکی بھی عزت ہے،ان برسوں میں انہیں بھی مصائب کا سامناکرنا پڑا۔انہیں عزت دے کر انہیں میز پر بلائو اور انا کے اُس گھوڑے سے نیچے اتر آئو ،جس کی لگام آر ایس ایس کے ہاتھوں میں ہے۔ایک دن آپ کو بات کرنا ہوگی کیونکہ بات چیت ہی ایک واحد راستہ ہے۔ہوسکتا ہے سو چیزیں حل نہ ہو دس تو ہو سکتی ہیں۔
سوال(۲۵) 2008کے بعد2010اور2016میں حالات خراب ہوئے اور سینکڑوں نوجوان جان بحق ہوئے،کیا یہ فکرمندی کی بات نہیں۔
 جواب:دیکھ رہا ہوں، کسی طرح اگر انہیںراستے پر نہیں لایا گیا تو ہمارا مستقبل تاریک ہوگا۔ لوگوں کواس راستے سے اُس راستے پر جانا ہے جہاں انہیں یہ لگے کہ انکی عزت بحال ہوئی اور وہ خود اپنے مالک ہیں۔ یہ کوشش کرنا ہوگی کہ نئی نسل برباد نہیں ہونے پائے اور اگرحالات ایسے ہی رہیں تو کیاباقی رہے گا؟، صرف زمین رہے گی!۔
سوال(۲۶) رواں برس مسلح جھڑپوں کے مقامات کے نزدیک کئی شہری جاں بحق ہوئے۔کیا کہنا چاہیں گے آپ؟۔
  جواب:فوجی کے سرابرہ نے گولی چلانے کے احکامات دئیے۔یہ جمہوریت نہیں بلکہ مطلعق العنانیت ہے۔ قتل و غارت گری کو فروغ دیا جارہاہے اورافسپا ان کو تحفظ فرہم کرتا ہے ۔ اس سلسلے کو ختم کیا جانا چاہئے۔ جب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا تب تک مزید سانحات پیش آتے رہیں گے ۔
سوال (۲۷)1947میں کیا الحاق کی وجہ یہی بنی تھی۔
  جواب:الحاق کی وجہ یہ بنی تھی کہ کشمیرپر قبائلی حملہ ہوا تھااور اگرپاکستان حملہ آورنہیں ہوتا تومہاراجہ ہری سنگھ جموں و کشمیر کو آزاد وطن کے طور پر قائم رکھنا چاہتے تھے، جو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا،مگر ایساہو نہ سکا۔ حملہ آور آئے اور مہاراجہ کے  لئے ہندوستان کے ساتھ الحاق کئے بغیر کوئی راستہ نہیں رہا۔
سوال(۲۸):آپ کی حکومت نے اسمبلی میں آٹانومی کی قرارداد منظور کر کے مرکز کو بھیج دی مگر انہوں نے اُسے خاطر میں نہ لاتے ہوئے بستہ فراموشی میں ڈال دیا اور آپ نے کوئی احتجاج نہیں کیااور برابر مرکزی حکومت کا حصہ بنے رہیں۔
 جواب:ہمارے پاس اسمبلی میں دو تہائی اکثریت تھی اور ہم نے اٹانومی کی قرار داد پاس کی۔مرکز نے جب اسے کوڑے دان کی نذر کیاتو   ہم حکومت چھوڑنے پرتیار ہوئے۔اسی دوران میری والدہ (بیگم اکبر جہاں) کا انتقال ہوا اور وزیر اعظم ہند اٹل بہاری واجپائی اور وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی تعزیت کیلئے آئے اور انہوں نے مجھے یقین دلایاکہ ہم جلد بازی میں کوئی قدم نہ اٹھائیں اور وہ آٹانومی پر بات کر نے کیلئے تیارہیں ۔پہلے کے سی پنتھ کو اس بات چیت کی ذمہ داری سونپی گئی اور 2سال بعد جیٹلی کو لایا گیامگرمعاملہ آج تک وہیں پررکا ہوا ہے۔ کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ 
سوال(۲۹): ایجنڈا آف الائنس پر آپ کے تاثرات کیا ہیں۔
 جواب:پی ڈی پی کا کہنا ہے کہ وہ ایجنڈا آف الائنس کے تحت کام کر رہے ہیں۔مگر کہاں ہیںوہ وعدے جو لوگوں کے ساتھ کئے گئے؟۔اگر ان میں دم ہوتا تو حکومت چھوڑ دیتے۔
سوال(۳۰) :مرکزی حکومت نے انہیںبھی ایسی ہی یقین دہانی کرائی ہوگی،جیسی آپ کے ساتھ کی تھی تو اس میں کیا فرق ہے۔
جواب: 1990میں جب جگموہن کوگورنر بناکریہاں لایاگیاتو میں نے کیا کیا؟۔میں نے مرکز سے کہا تھاکہ جگموہن قاتل ہیں اور اُس کو مسلمان قبول نہیں کرئے گے۔بندوق یہاں(کاندھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ہوگی اور ٹریگر اس کے ہاتھوں میں ہوگا۔میں نے کہا تھا کہ جب آپ جگموہن کی تعیناتی کا اعلان کرینگے تو میں 12بجے رات سے قبل مستعفی ہوجاؤں گااورمیں نے اُسی وقت حکومت چھوڑ دی۔میں اپنے لوگوں کو قتل ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔
سوال(۳۱): پارلیمنٹ میں ایک یا دو اراکین کی آواز کی کوئی قدر ہوگی۔
 جواب:ارادے اگر پختہ ہوںتو اللہ تعالیٰ بھی آپ کی آوازکوقوت عطا کرتا ہے ،انسان کو ہمت کرنی چاہئے ،اللہ تعالیٰ خودبخود راستہ بناتا ہے۔
سوال(۳۲) آپ اس سے قبل بھی پارلیمنٹ کے رکن رہے اورمرکز میںوزیر بھی۔کیا آپ نے اس وقت کشمیریوں کے حق میں کوئی آواز بلند کی۔
 جواب:ہم نے کئی دفعہ پارلیمنٹ میں آوازاُٹھائی۔ جب افضل گورو کوپھانسی دی گی،ہم کابینہ میں بیٹھے تھے،غلام نبی آزاد بھی  موجودتھے۔میں نے کہا کہ ہم دو کشمیری ہیںاور آپ کی حکومت کاحصہ ہے۔ کیاآپ نے ہم سے کھبی اس بارے میں پوچھا؟۔ہم نے آواز اٹھائی، ہر بار اٹھائی مگر ہم سے نہیں پوچھا گیا۔
 سوال(۳۳): کیا آپ کو نہیں لگ رہا ہے کہ مین اسٹریم جماعتوں کے کشمیر کے بنیادی مسئلہ سے آنکھیں چُرانے کی وجہ سے یہاںمین اسٹریم  کے لئے جگہ دن بہ دن سکڑ رہی ہے؟۔
 جواب:مین اسٹریم جماعتوں کیلئے جگہ کھبی نہ سکڑے گی اور نہ ہی ختم ہوگی۔ نیشنل کانفرنس کے خلاف کئی بار ایسی کوششیں کی گئیں۔1996سے قبل کہا جاتا تھا کہ نیشنل کانفرنس کا پتہ بتایئے کہ وہ کہاں ہے۔1996کے اسمبلی انتخابات میں ہم نے ان کو اپنا پتہ بتادیا۔2014میں بھی جب الیکشن کا وقت آیا تو وہ (بی جے پی )ہمارا پتہ پوچھتے تھے پی ڈی پی کا نہیں ۔ میں اسپتال میں تھا ،وہ میرے پاس آئے اور کہاں ہمارے ساتھ شامل ہوجائے۔مگرمیں اپنے ساتھیوں کومبارکباد پیش کرتا ہو جنہوں نے نہیں مانا ۔ نیشنل کانفرنس آج بھی لوگوں کے دلوں میں بسی ہوئی ہے۔وہ ( بی جے پی )ہمارے کاندھوں پر سوار ہوکر آنا چاہتے تھے۔ہمارے لوگوں میں اللہ تعالیٰ نے صلاحت دی اورہم ان کے گھوڑے نہیں بنے۔
سوال(۳۴)نقل مکانی کرنے والے پنڈتوں کی واپسی اور اُن کے لئے مخصوص علیحدہ کالونیوںکے قیام پر سیاست ہو رہی ہے۔1990میں اُن کی نقل مکانی کی اصل وجہ کیا تھی؟۔
 جواب:پنڈتوں کے سنیئر لیڈروں سے کھبی ایمانداری سے پوچھو تووہ (حقیقت) بتائیں گے کہ جگموہن نے پنڈتوں سے کہا کہ مجھے مسلمانوں پر سختی کرنی پڑے گی جس کی وجہ سے آپ پر عتاب آنے کااندیشہ ہے لہذامیں آپ کی منتقلی کا انتظام کرونگا اور3ماہ بعد واپس لے آونگا،آج28سال ہوگئے۔بدقسمتی کی بات ہے کہ پنڈتوں کو آج بھی جگموہن کی نفرت نہیں بلکہ کشمیری مسلمانوں سے شکایت ہے جو اُس وقت اپنی جانیں بچا نے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھے۔
سوال(۳۵): بجلی پروجیکٹوں کی واپسی اور سیلف رول کے بارے میں آپ کے تاثرات کیا ہے۔
 جواب:وہ(پی ڈی پی والے) اب کسی کے بارے میں نہیں کہتے۔کہاں گیا انکا سیلف رول؟،کہا گئے وہ بجلی پروجیکٹ؟۔فاروق عبداللہ کے بارے میں کہتے تھے کہ اس نے بجلی گھر بیچ کھائے ہندوستان کو ،میں ان کے منہ پر جواب دیتا تھا، تمہارے پاس پیسے نہیں۔ ہم نے بڑی مشکل سے بغلیار بجلی پروجیکٹ بنایا جو آج ہمیں بجلی فراہم کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ ہم نے کس طرح بنایا۔ ایک اور بجلی پروجیکٹ تھا ساولاکوٹ اور مفتی محمد سعید نے اس کو بند کروادیا کہ کہیں فاروق عبداللہ اس سے پیسے تو نہیں بنا رہا ہے۔ وزیر خزانہ تحقیقات کرنے لگااور اس کو بنانے والے کے خلاف کاروائی کرنے لگا مگر آج ان ہی کا وکیل بنا ہوا ہے۔
سوال(۳۶): آپ نے اوڑی پروجیکٹ کے بارے میں کہا تھا کہ اس کومرکزکے حوالے نہیں کرینگے لیکن بعد میں ایک ہفتے کے بعد ہی اس کو منظوری مل گئی۔
 جواب:مجھے یاد ہے جب میںدلّی گیا تو اس وقت کے مرکزی وزیر برائے بجلی کمارا منگلم نے کونٹر گارنٹی نہیں دی۔ہم عرب ممالک سے رقومات لے آتے اور پروجیکٹ مکمل کرتے۔کمارا منگلم نے کہا کہ وہ کشمیر کے لئے نئی اسکیم لے کر آئیںگے۔2پروجیکٹ لے لو باقی4ہم (مرکز)کوبوٹ( Boot) یعنی بناؤ ، چلاؤاور لوٹاؤ کی بنیاد پر دے دو۔میں نے چیف سیکریٹری کے بغیرہی دستاویز مفاہمت پر دستخط کئے اور بغلیار اور ساولاکوٹ پروجیکٹ لے لئے، جو2700میگاوٹ بجلی دیتے ہیں۔ باقی پروجیکٹوں سے12 فیصد کے حساب سے بجلی فراہم ہوتی ہے۔
سوال(۳۷): کیا آپ کا مطلب ہے کہ لوگ محسوس کرتے ہیںکہ انکی شناخت کو خطرہ ہیں۔
 جواب:لوگ اپنی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش محسوس کر رہے ہیں کیونکہ وہ (بی جے پی اور آر ایس ایس) ہمیںمدغم کرنے کی فکر میں ہیں  لیکن ہم مدغم ہونے کیلئے تیار نہیں، وہ چاہیںکچھ بھی کرلیں،ہم ایسا نہیںہونے دینگے۔
سوال(۳۸): جب ایسی صورتحال ہو تو اپوزیشن ، خاص طور پر نیشنل کانفرنس،کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔تو آپ کیا کوشش کر رہے ہیں
 جواب:۔ہم پارلیمنٹ میں کس لئے جانے کی کوشش کرتے ہیں؟، اس لئے کہ کوئی آواز ہو، جو ان (حکومت ہند) سے کہہ سکے کہ ہم تمہارے غلام نہیں ہے۔ہمیں غلام نہ سمجھو،ہم عزت رکھتے ہیں اور عزت کی خاطر لڑنے کیلئے تیار ہیں۔
سوال(۳۹): کیاچین پاکستان اقتصادی راہداری سے بین الاقوامی سطح پر کشمیرکے بیانیہ میں تبدیلی آسکتی ہے ؟۔
  جواب۔۔گلگت،اسکردو،بلتستان اورہنزہ مہاراجہ کشمیر (ہری سنگھ)کی ریاست کا حصہ ہیں۔ اس کو پاکستان پانچویں ریاست بنانا چاہتاہے وہ غلط ہے ۔اس سے اُن کو گریز کرنا چاہئے۔یہ طریقہ کار کشمیر کے مسئلہ کومزید الجھائے گا،سلجھائے گا نہیں۔کل ہندوستان کی حکومت  یہ دلیل پیش کر کے کہ انہوں (پاکستان) نے کشمیر کے اُس حصے کو مدغم کیا ہے ہم سارے علاقے کو مدغم کرینگے۔اس لئے انہیں ہزار مرتبہ اس پر سوچنا ہوگا۔سی پیک سے ہماری ترقی میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن اگر دونوں ملکوں کااس پر اتفاق ہوگاتو۔اگر ایسا ہوتا ہے تو سب سے زیادہ فائدہ کشمیر کو ہوگا۔
سوال(۴۰):  اس شاہراہ کی تعمیرسے کیا مزید عالمی طاقتوں کی توجہ کشمیر کی طرف مبذول ہوگی؟۔
 جواب:چین عالمی طاقت ہے اورسلامتی کونسل کا مستقل ممبر ہے۔اگر عالمی طاقتیں اس میں شامل نہیں ہوتیں تو مسئلہ کشمیر کا کب کا فیصلہ ہوا ہوتا۔
 سوال(۴۱):سرکار کیلئے آپ کا پیغام کیا ہے۔
 جوا:حکومت کیلئے ہمارا یہ پیغام ہے کہ حکومتیں آتی ہیں اور جاتی ہیں۔جو تم سختیاں کر رہے ہو، وہ ختم کرو۔جن کے ساتھ( اتحاد کر کے) حکومت کرتے ہو ان سے لڑنے کی ہمت رکھواور اگرایسا نہیں کرسکتے تو حکومت سے استعفیٰ دو۔