کشمیر میں جی۔20اجلاس امید افزاء

شہرہ آفاق ڈل جھیل کے کنارے شیر کشمیر انٹر نیشنل کنونشن سینٹر میں میں جی20کے سیاحتی شعبہ سے متعلق ورکنگ گروپ کاتین روزہ اجلاس کل سے جاری ہے جس میں سیاحت کے مختلف پہلوئوں پر سیر حاصل بحث ہورہی ہے اور اجلاس کے اختتام پر گروپ اپنی سفارشات بھی پیش کرے گا۔ کشمیر کے تعلق سے یہ اجلاس اس لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ کشمیر قدرت کے حسین نظاروںکی وجہ سے پوری دنیا میں نہ صرف جانا جاتا ہے بلکہ کشمیر کو کرہ ارض پر جنت بھی قرار دیاجارہا ہے۔چونکہ جی 20اجلاس کا تعلق شعبہ سیاحت سے ہی ہے اور اس میں دنیا کے طاقتور ترین ممالک کے مندوب شرکت کررہے ہیں تو یہ مندوب کشمیر کی سیاحت کو فروغ دینے میں سفیروںکا رول ادا کرسکتے ہیں۔یہ انتہائی امید افزاء ہے کہ کشمیر میں سیاحتی شعبہ پٹری پر واپس لوٹ چکا ہے ۔گزشتہ سال ۱یک کروڑ 88لاکھ سیاحوں نے جموںوکشمیر کی سیاحت کی جن میں سے 25لاکھ کے قریب سیاحوں نے کشمیر وادی کا رخ کیا۔اس سال بھی سیاحتی سیزن اچھا جارہا ہے۔

 

 

آج کل آپ کشمیر کے کسی بھی سیاحتی مقام کا رخ کریں ،آپ کو وہاں رونق ملے گی اور ہر جگہ آپ کوچہل پہل دیکھنے کو ملے گی ۔ سیاحوںکی تعداد میں ریکارڈ اضافہ سے انکار نہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بیرون ممالک سیاحوں کی تعداد مسلسل کم ہے اور محکمہ سیاحت و دیگر متعلقین کی جانب سے کی جارہی کوششوں کے باوجود ہم بڑی تعداد میں غیر ملکی سیاحوںکو کشمیر لانے میں کامیاب نہیں ہورہے ہیں۔ غیر ملکی سیاحوں کی آمد میں نمایاں کمی کیلئے اگرچہ کئی عوامل ذمہ داربشمول کشمیر کے معروضی حالات بھی ذمہ دار ہیں تاہم اس کی سب سے بڑ ی وجہ مغربی ممالک کی جانب سے اپنے شہریوں کیلئے کشمیر جانے پر عائد سفری پابندیاں ہیں۔یورپی یونین میں شامل سبھی ممالک کے علاوہ برطانیہ اور امریکہ نے کشمیر کو منفی ٹریول لسٹ میں رکھا ہے اور شہریوں کو کشمیر کا سفر و سیاحت کرنے سے منع کیا ہوا ہے جس کیلئے وہ کشمیر کے حالات کو وجہ قرار دے رہے ہیں ۔ان کا ماننا ہے کہ کشمیر میں امن و قانون کی صورتحال بہترنہیں ہے اور انکے ملک کے شہریوں کو اپنی سلامتی کی خاطر کشمیر جانے سے گریز کرنا چاہئے ۔اکتوبر2022میں بھی امریکہ نے اپنے شہریوں کو جموںوکشمیر کا سفر کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ انہیں لداخ جانے سے نہیں روکا گیا ہے اور کشمیر کیلئے یہی وجہ دی گئی ہے کہ وہاں حالات ٹھیک نہیں ہیں۔

 

 

 

جب اتنے بڑے پیمانے پر ترقی یافتہ ممالک نے آپ کے ساتھ ایک طرح کا سیاحتی بائیکاٹ کیا ہو ،تو غیر ملکی سیاحوںکے اعدادوشما ر میں اضافہ کے بارے میں سوچنا بھی غلط ہے۔اب جبکہ جی20ممالک ودیگر مہمان ممالک کے مندوبین کشمیر میں ہیں اور سیاحت پر بات ہورہی ہے تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ جی20کے طاقتور ترین ممالک کے علاوہ دیگر مہمان ممالک کشمیر کے لئے اپنے دل کے دروازے کھول دینگے اور اپنے شہریوں کو کشمیر آنے سے نہیں روکیں گے ۔جی20و دیگر مہمان ممالک واقعی ایسا کرسکتے ہیں اور اگر جی 20کا مطلب اس فورم کے رکن ممالک کا باہمی اقتصادی اشتراک ہے تو ان ممالک کو سیاحت کے شعبہ میں بھی اشتراک کرنے سے ہچکچانا نہیںچاہئے بلکہ کشمیرکے سیاحتی سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے کے امکانات تلاش بھی کرنے چاہئیں۔چونکہ جی 20رکن ممالک کی سیاحت وزارتوں کے اعلیٰ حکام وفود سمیت اس کانفرنس میں شامل ہیں تو وہ یقینی طور پر کشمیر کی سیاحت کو فروغ دینے کے امکانات کا جائزہ لے سکتے ہیں اور کشمیر کی سیاحتی صلاحیت کو حد درجہ استعمال کرسکتے ہیں۔اس کیلئے جی20ممالک و دیگر ممالک کوفوری طور اُن غیر منصفانہ سفری پابندیوںکو ہٹا دینا چاہئے جو انہوںنے اپنے شہریوں کی کشمیر سیاحت پر لگادی ہیں۔چونکہ مرکزی حکومت مسلسل یہ دعویٰ کررہی ہے کہ جموںوکشمیر کے حالات دفعہ370کی منسوخی کے بعد مکمل طور ٹھیک ہوچکے ہیں تو یہ مرکزی اکابرین کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جی20رکن ممالک و دیگر مہمان ممالک کے مندوبین پر یہ باور کرائیں کہ کشمیر اب بدل چکا ہے اور اُن کی سفری پابندیوںکا نہ صرف یہ کہ بدلتے حالات میں کوئی جواز نہیں بنتا ہے ۔امریکہ سے لیکر سبھی جی20ممالک کو چاہئے کہ ایڈوائزیرہٹادیں اور اپنے لوگوںکو سرکاری سطح پر کشمیر آنے کی ترغیب دیں کیونکہ جب تک سرکاری سطح پر ایسی سفری پابندیاں ہٹائی نہیں جاتی ہیں،لوگ کشمیر کا سفر کرنے سے گریز کرتے رہیں گے۔ اس تناظر میں کشمیر میںاس کانفرنس کا کامیاب انعقادانتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سے پوری دنیا کیلئے یہ واضح پیغام جائے گاکہ کشمیر سیاحت کیلئے کھلا ہے اور پوری دنیا کے لوگوںکو کشمیر کے حسین نظاروںسے لطف اندوز ہونے کیلئے وادی کے کوہ و دمن ،مرغزاروں اور آبشاروں کی سیاحت کرنی چاہئے ۔

 

 

 

اس کے نتیجہ میں کشمیر کے تعلق سے جو منفی تاثر عالمی سطح پر حالات کے حوالے سے پایا جارہا ہے ،اُس کو بھی زائل کرنے میں مدد ملے گی اور یقینی طور پر اس سے سیاحت کا شعبہ بام عروج پر پہنچ سکتا ہے ۔جاریہ کانفرنس کے دوران جس طرح پہلی بار کشمیر میں کوئی پابندی نہیں ہے اورمعمول کا کاروبار جاری ہے۔اُس سے ایک امیدپیدا ہوگئی ہے کہ بدلتا کشمیر عالمی توجہ حاصل کرپائے گا اورجی20سیاحتی ورکنگ گرو پ اجلاس کشمیر کی سیاحت کو عالمی منظر نامہ پر اجاگر کرنے کا ذریعہ بن جائے گا جس سے یہاں کی سیاحت چل پڑ ے گی اور جب سیاحت چل پڑے گی تو براہ راست کشمیر کی معیشت بھی چل پڑے گی کیونکہ کشمیر کی معیشت بالواسطہ یا بلاواسطہ شعبہ سیاحت پر منحصر ہے اور اگر یہی شعبہ نڈھا ل رہے تو معیشت کا منجمد ہونا طے ہے اور اگر یہ شعبہ چل پڑے تو معیشت کا پہیہ بھی نہیں رکنے والا ہے ۔