’’کشمیر میں اسلامی انقلاب اور حضرت شاہ ہمدان‘‘ تبصرہ

 سہیل بشیر کار ، بارہمولہ

میر سید علی ہمدانی عالم انسانیت خاص کر اہلیانِ کشمیر کے محسن تھے۔آپ تین بار کشمیر آئے۔آپ نے نہ صرف یہاں اسلام کی اشاعت کی بلکہ لوگوں کو ہنر بھی سکھایا۔سید علی ہمدانی سات سو مبلغوں، ہنرمندوں اور فنکاروں کی جماعت لے کر کشمیر پہنچے اور اس ثقافت کا جنم ہوا جس نے جدید کشمیر کو شناخت مہیا کی۔ انھوں نے وادی کشمیر، لداخ، بلتستان میں سب سے پہلے اسلام پھیلانے میں بنیادی کردار ادا کیااور کشمیر کی ثقافت اور معیشت کو بھی ترقی دی ۔اقوام متحدہ کی تنظیم یونیسکو (UNESCO) کی 2012 ء میں شائع کردہ رپورٹ کے مطابق میر سید علی ہمدانی کا شمار اُن تاریخ ساز شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے فنِ تعمیر اور فنون لطیفہ کے فروغ کے ذریعے ثقافت کشمیر کی تشکیل نو کی۔
آپ ہمہ جہد شخصیت تھے۔جہاں آپ داعی و مبلغ تھے، وہیں بہترین مصنف بھی تھے۔’’تحائف الابرار‘‘ میں آپ کی تصنیف کردہ کتب کی تعداد ایک سو ستر (170) بیان کی گئی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب ’’کشمیر میں اسلامی انقلاب اور حضرت شاہ ہمدان‘‘ میں کتاب کے مرتب امتیاز آفرین نے کشمیر میں شاہ ہمدان کے برپا کئے ہوئے انقلاب کو خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔370صفحات کی کتاب میں مرتب نے ان مضامین کو جمع کیا ہے جن میں شاہ ہمدان کی ہمہ جہت شخصیت پر روشنی ڈالی گئی ہے، حرف آغاز اور مقدمہ کے علاوہ کتاب کو مرتب نے 4 ابواب میں تقسیم کیا ہے۔حرف آغاز میں میر امتیاز آفرین لکھتے ہیں،’’پس اسی سمت میں قدم اُٹھاتے ہوئے رضائے مصطفی فاونڈیشن کے اہتمام سے محسن کشمیر حضرت شاہ ہمدان میر سید علی ہمدانی رحمہ اللہ کی حیات و خدمات پر ۲۴ ؍ مارچ ۲۰۱۹ء میں ریاستی سطح کا ایک شاندار سیمینار بڈگام میں منعقد ہوا، جس میں جید عالم دین مولانا شوکت حسین کینگ کی صدارت میں ریاست کے کئی نامور علماء و دانشوران نے حصہ لے کر اپنے تحقیقی مقالے پیش کیے اور حضرت شاہ ہمدانؒ کے علمی و عملی کارناموں کو اُجاگر کیا۔‘‘ (صفحہ 9) مزید لکھتے ہیں،’’اختتام پر کئی رُفقا نے اس بات کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی کہ سیمینار کو زیادہ کا میاب اور مؤثر بنانے کے لیے مقالات کو کتابی شکل دے کر شائع کیا جائے تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس علمی و فکری کام سے مستفید ہوسکیں۔ اس مقصد کے پیش نظر فاونڈیشن کے کارکنان نے اور بھی کئی علما و محققین سے رابطہ کیا اور اُن سے کچھ گراں قدر مقالے حاصل کیے اور الحمد للہ یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچا اور ہماری اس محنت کا ثمرہ آب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔‘‘(صفحہ 11) کتاب کے پہلے باب میں پروفیسر سید علیم اشرف جائسی، پروفیسر غلام رسول ملک، پروفیسر خواجہ محمد اکرم الدین، مولانا مبارک حیسن مصباحی اور ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی کے تاثرات ہیں۔کتاب کے دوسرے باب’’ اوراق حیات ‘‘میں تین مضامین ہیں،جن میں شاہ ہمدان کے ذاتی زندگی کے حیات و خدمات کو اجاگر کیا گیا ہے۔مرتب کتاب کے علاوہ نذیر نقشبندی اور مفتی عبدالحمید نعیمی نے حضرت شاہ ہمدان کے اوراق حیات کو خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
کتاب کے تیسرے باب میں شاہ ہمدان کے افکار و خیالات پر 23 مضامین کو جمع کیا گیا ہے، ہر مقالہ نگار نے شاہ ہمدان کے کسی نہ کسی پہلو کو اجاگر کیا ہے البتہ اس باب میں 7 مضامین میں انتہائی محنت کی گئ ہے۔مرتب کتاب نے جن موضوعات پر لکھا ہے ان کی تفصیل یہ ہے، کشمیر میں اسلامی انقلاب اور شاہ ہمدان، شاہ ہمدان عصر حاضر کے تناظر میں، شاہ ہمدان کی مذہبی رواداری اور جبر و تشدد کے الزام کی حقیقت، شاہ ہمدان اور نصاب تعلیم، عقل و شعور کی ماہیت و افادیت (رسالہ عقلیہ کی روشنی میں)، خانقاہ معلی ۔کشمیر کا ثقافتی و روحانی مرکز و محور، دبستان فتوت اور حضرت شاہ ہمدان۔ فہرست سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ مرتب کتاب نے شاہ ہمدان کے ہمہ جہت پہلو کو قاری کے سامنے لایا ہے،ہر مضمون کو لکھنے میں مستند کتابوں سے استفادہ کیا ہے،ہر مقالہ کے آخر میں حوالہ جات ہے، اسی باب میں بہت ہی علمی مضمون جنیفیہ بلال کا ہے۔انہوں نے ’’میر سید ہمدانی :قرون وسطی میں کشمیر کے مجدد معیشت‘‘ پر انتہائی اہم مضمون لکھا ہے۔یہ مضمون اس غلط فہمی سے قاری کو نکالتا ہے کہ اہل تصوف لوگوں کو دنیا سے کنارہ کشی کی تعلیم دیتے تھے، لکھتے ہیں،’’بلاشبہ، دنیا بھر میں امیر کبیر کی شخصیت پر سینکڑوں کتابیں، رسالے، مجلات تحقیقی مقالات اور مضامین لکھے جاچکے ہیں لیکن یہ مضامین زیادہ تر اُن کی زندگی ، تصنیفات، روحانی کرامات، صوفیانہ فکر اور سیاسی کردار کے متعلق ہیں، تاہم طویل عرصے سے ایک آرزو مسلسل قلب و ذہن میں گردش کر رہی تھی کہ ایک ایسا مضمون لکھا جائے ،جس میں امیر کبیر کی اُن خدمات پر روشنی ڈالی جائے جو اُنھوں نے بحیثیت مجدد معیشت وادی کشمیر کے طول و عرض میں انجام دی ہیں۔ چناں چہ اس مضمون میں شاہ ہمدانؒ کے ذریعے وادی میں لائے گئے مختلف قسم کی دستکاریاں اورفنون لطیفہ کا جائزہ لیا جائے گا۔‘‘(صفحہ 255)مزید لکھتے ہیں،’’جس وقت آپ کشمیر تشریف لائے اُس وقت آپ کے ساتھ سادات عظام کے ۷۰۰ را فراد بھی ہمرکاب تھے جو نہ صرف مذہبی مبلغین و واعظین تھے بلکہ دستکاری ، مصوری ، خطاطی اور دیگر فنون لطیفہ و ہنر مندی میں اُنھیں کمال حاصل تھا۔ (۹) یہ ۷۰۰ نفوس قدسیہ کشمیر کی تاریخ میں اعلیٰ اور نمایاں مقام رکھتے ہیں جنھوں نے وادی کی تہذیب و ثقافت پر گہرے مذہبی ، معاشی اور اقتصادی اثرات چھوڑے جن سے سرزمین جموں و کشمیر آج بھی فیضیاب ہے۔ امیر کبیر نے نہ صرف دین اسلام کو وادی میں متعارف کیا بلکہ معاشی و اقتصادی خوشحالی کی راہ بھی ہموار کی۔ اُنھوں نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کشمیری عوام کو فنون لطیفہ سے متعارف کرایا، جس میں قابل ذکر ، شال بافی ، قالین بافی ,کار قلمدانی ، زرگری ، کڑھائی بنائی ، کاغذ گری، خطاطی ،سنگ تراشی ، مسگری وغیرہ ہے۔ ‘‘(صفحہ 256) مصنف نے مستند حوالوں سے الگ الگ انڈسٹری کا جائزہ لیا جائے اور دکھایا ہے کہ کیسے شاہ ہمدان نے کشمیر میں انڈسٹری کے قیام کے لئے کیسے کوشش کی،چونکہ شاہ ہمدان کے ہاتھوں ہزاروں لوگوں نے اسلام قبول کیا ایسے میں کچھ لوگوں نے شاہ ہمدان پر الزام لگایا ہے کہ آپ نے حکومت سے مل کر جبر کے ذریعہ لوگوں کو دین سے دور کیا۔مرتب کتاب نے شاہ ہمدان کی مذہبی رواداری دکھا کر اس غلط الزام کو دور کیا ہے، لکھتے ہیں آپ کی تصانیف کو دیکھ کر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی نظر پرسب سے زیادہ اثرات امام غزالی ؒ، شیخ محی الدین ابن عربی ؒاور شیخ نجم الدین کبریؒ کے پائے جاتے ہیں اور دنیا جانتی ہے کہ یہ تینوں بزرگ مذہبی رواداری اور انسان دوستی میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپ کے مکتوبات اور ذخیرۃ الملوک کا بغور مطالعہ کرنے کے دوران یہ بات منکشف ہو جاتی ہےکہ آپ کا انداز اور لہجہ ایک ڈکٹیٹر کا نہیں بلکہ ایک روحانی مربی کا ہے اور آپ بادشاہوں کو اخلاقی و دینی ضابطوں کی پاسداری کی نصیحت کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر شمس الدین احمد لکھتے ہیں ،’’جن غیر مسلموں نے اپنی قدیم روایات اور اپنے ہی مسلک پر قائم رہنے کو پسند کیا اُن سے کوئی تعرض نہیں ہوا اور اُن کے ساتھ اختلاط ور وابط کے باوجود اُن کو ہر طرح کی آزادی مسلمی اور عقیدتی آزادی حاصل رہی ۔ مسلمان بادشاہوں کے آخری دور حکومت کے آخری دن تک قرآنی احکام وفرامین کے مطابق کشمیری برہمنوں نے آزادی کی زندگی گزاری، اُن پر کوئی جبر نہیں تھا اور اُن کو اپنے مسلک کے مطابق بھی قانونی تسہیلات میسر تھیں اور مسلمانوں کی حکومت کی رعایا ہونے کی حیثیت میں بھی اُن کو وہی مراعات حاصل رہیں جو مسلمانوں کو تھیں ۔ ہندو ہونے کی وجہ سے اُن کو قتل نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ہی اُن کے مذہب ، مسلک، عقائد یا اُن کے اپنے تہذیبی و تمدنی روایات کو ختم کرنے کی کبھی کوئی سازش ہوئی ۔ ‘‘ (صفحہ 219 )
علامہ اقبال کو شاہ ہمدان کے ساتھ عقیدت تھی ،اس باب کے ایک مضمون میں پروفیسر غلام رسول ملک نے اقبال اور شاہ ہمدان پر مضمون لکھا، روحانی پہلو کو پروفیسر اخترالواسع، پروفیسر محمد حیات عامر حسینی، غلام رسول دہلوی اور ڈاکٹر عبدالقدوس خان نے اجاگر کیا ہے،عصری معنویت پر ڈاکٹر تنویر حیات اور شاہ ہمدان کی بازیافت پر ڈاکٹر معروف شاہ نے بہترین مقالہ لکھا ہے. شاہ ہمدان عالمی سیاح تھے. ان کی سیاحت پر مولانا خورشید احمد قانون گو اور غلام حسن حسنو نے اچھے مضامین لکھے ہیں۔اوراد فتح اور اہل کشمیر پر ڈاکٹر سرتاج احمد صوفی اور شاہ ہمدان کے سیاسی افکار پر شاہدہ اختر اویسی نے روشنی ڈالی ہے۔
شاہ ہمدان جہاں ایک بہترین مبلغ تھے وہی اللہ نے آپ کو سیال قلم بھی عطا کیا، بقول مفتی ابراہیم مصباحی ،’’آپ نے اسلام کے تینوں بنیادی شعبوں عقائد، احکام اور احسان و اخلاق کے اہم گوشوں پر عربی و اردو دونوں زبانوں میں درجنوں کتابیں لکھی ہیں‘‘۔ کتاب کے تیسرے باب ’’ادبیات‘‘ آپ کے ان کتابوں کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے،اس باب میں میں آٹھ مضامین کو شامل کیا گیا ہے، شاہ ہمدان نے جہاں روحانی پہلو کے سلسلے میں اوراد فتحیہ لکھی، وہیں سیاسی افکار کے لیے ذخیرہ الملوک رقم کی، جہاں غزل کہے وہیں حفظانِ صحت کے لیے ایک رسالہ بھی تحریر میں لایا۔اس باب میں پروفیسر قدوس جاوید نے شاہ ہمدان کی غزل کے تعمیری کردار پر روشنی ڈالی ہے، چہل اسرار پر پروفیسر جی آر ملک رسالہ خواطر پر پروفیسر حمید نسیم رفیع آبادی، ذخیرہ الملوک پر مفتی ابراہیم، اوراد فتح پر ڈاکٹر ذوالفقار صدیقی، رسالہ حفظان صحت پر فیاض احمد یتو اور اورداد فتحیہ پر میر امتیاز آفرین نے مضامین لکھے ہیں،ان مضامین میں شاہ صاحب کی کتابوں کا بہترین تعارف و تجزیہ کیا گیا ہے۔
کتاب کے آخری باب میں 9 افراد کے پیغامات ہیں۔ ان پیغامات میں بھی شاہ ہمدان کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔اس کتاب سے اس وقت کے کشمیر کے تہذیب و تمدن پر روشنی پڑتی ہے۔ڈاکٹر تنویر حیات اپنے مقالہ میں لکھتے ہیں،’’کشمیر کی علم وادب کا گہوارہ ہونے کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ محمود غزنوی نے ہندوستان پر اپنی متعدد مہموں کے دوران جب کشمیر پر نا کام حملہ کر دیا، تو البیرونی بہت مایوس ہو گئے ۔ البیرونی کشمیر کی مہم کے دوران محمود کے ہمراہ تھے۔ کشمیر کی مہم میں ناکامی پر اُنھوں نے لکھا:اگر محمود کی کشمیر کی مہم کامیاب ہو گئی ہوتی ، تو ہم علم کے خزانے تک رسائی حاصل کر لیتے ۔البیرونی خود ایک عالم تھا، چناں چہ اُن کومحمود کی کشمیر کی ہم میں ناکامی سے اس وجہ سے مایوسی ہوئی کیوں کہ وہ کشمیر کے عالموں سے تعلق پیدا کرنے کا موقع کھو چکے تھے۔‘‘(صفحہ 315)
یہ کتاب ایک دستاویز ہے جس کا ہر مسلمان گھر میں ہونا لازمی ہے۔خاص کر اہل کشمیر کے ہاں تاکہ انہیں اپنے محسن کی زندگی اور کاموں کا تعارف ہو،یہ کتاب ‘رضائے مصطفی فاونڈیشن کانیر چاڈورہ بڈگام نے شائع کی ہے۔کتاب واٹس اپ نمبر 9858064648 سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
(مبصّر سے رابطہ 9906653927)