کشمیر سے خوشبو آنے لگی | ندرو اور لیوینڈربیرون ممالک ایکسپورٹ ہونا شروع : وزیر اعظم

نیوز ڈیسک
نئی دہلی //وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کشمیری ندرو اور لیوینڈر کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔نو تشکیل شدہ( ایف پی او )ڈل جھیل میں اگائے گئے کنول کے تنوں کو متحدہ عرب امارات کو برآمد کر رہا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ماہانہ ریڈیو پروگرام ‘من کی بات میں کہا کہ کشمیر میں کنول کے تنے کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے جسے ‘ندرو بھی کہا جاتا ہے جس کے بعد ڈل جھیل میں نادرو کی کاشت کرنے والے کسانوں نے ایک( ایف پی او )تشکیل دیا ہے۔ تقریبا ً250 کسانوں نے اس ایف پی او میں شمولیت اختیار کی ہے، اور جموں و کشمیر کے ڈوڈہ ضلع کے بھدرواہ قصبے میں تقریباً ڈھائی ہزار کسان لیوینڈر کی کاشت کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا، “جب کشمیر یا سرینگر کی بات آتی ہے تو ہمارے ذہن میں سب سے پہلی تصویر جو آتی ہے وہ اس کی وادیوں اور ڈل جھیل کی ہوتی ہے،ہم سب ڈل جھیل کے نظاروں سے لطف اندوز ہونا چاہیں گے تاہم، اس میں ایک اور چیز بھی خاص ہے،ڈل جھیل اپنے لذیذ کنول کے تنوں کے لیے بھی مشہور ہے جسے ‘کنول ککڑی بھی کہا جاتا ہے‘‘۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کنول کے تنوں کو ملک بھر میں مختلف مقامات پر مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے،کشمیر میں انہیں ندرو کہا جاتا ہے۔کشمیر کے نادرو کی مانگ کی روشنی میں ڈل جھیل میں نادرو کی کاشت کرنے والے کسانوں نے ایک ایف پی او تشکیل دیا ہے، تقریباً 250 کسان اس ایف پی او میں شامل ہو چکے ہیں، آج ان کسانوں نے اپنے ندرو کو بیرون ممالک ایکسپورٹ کرنا شروع کر دیا ہے، ابھی کچھ عرصہ قبل 250 کسانوں نے ایف پی او کو بھیجا ہے۔ اس کامیابی سے نہ صرف کشمیر کا نام روشن ہو رہا ہے بلکہ اس سے سینکڑوں کسانوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ زراعت سے متعلق کشمیر کے لوگوں کی ایسی ہی ایک اور کوشش ان دنوں اپنی کامیابی کی خوشبو بکھیر رہی ہے، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کامیابی کی خوشبو کی بات کیوں کر رہا ہوں،خیر یہ تو خوشبو کی بات ہے!جموں و کشمیر کے ڈوڈہ ضلع میں ایک قصبہ ‘بھدرواہ’ ہے، یہاں کے کسان کئی دہائیوں سے مکئی کی روایتی کھیتی میں مصروف تھے، لیکن کچھ کسانوں نے کچھ مختلف کرنے کا سوچا اور پھولوں کی کاشت کی طرف رخ کیا۔ یعنی پھولوں کی کھیتی۔آج تقریبا ڈھائی ہزار کسان یہاں لیوینڈر کی کاشت کر رہے ہیں۔ان کو مرکزی حکومت کے آروما مشن کے ذریعے بھی ہاتھ میں لیا گیا ہے۔اس نئی کاشت سے کسانوں کی آمدنی میں بہت اضافہ ہوا ہے، اور آج، لیونڈر کے ساتھ ساتھ، ان کی کامیابی کی خوشبو دور دور تک پھیل رہی ہے۔”جب کشمیر کی بات ہو، کنول کی بات ہو، پھولوں کی بات ہو، خوشبو کی بات ہو، تو کنول کے پھول پر بیٹھی کپوارہ میںماں شاردا کا یاد آنا فطری بات ہے۔ یہ مندر اسی راستے پر بنایا گیا ہے جس کا استعمال کوئی شاردا پیٹھ جانے کے لیے کرتا ہے۔ مقامی لوگوں نے اس مندر کی تعمیر میں بہت مدد کی ہے۔ میں جموں و کشمیر کے لوگوں کو اس نیک کام کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں”۔