کشمیری زبان و ادب کافروغ صرف سرکاری زبان کا درجہ دینا کافی نہیں

۔ 2020میں اُس وقت کے رئیس جامعہ کشمیرپروفیسر طلعت احمدنے اعلان کیاتھا کہ نئی تعلیمی پالیسی 2020 کی سفارشات کے مطابق کشمیری زبان و ادب کو فروغ دینے کیلئے کشمیر یونیورسٹی میں جلد ہی اکیڈیمی آف کشمیری لنگویج قایم کی جائے گی ۔ پروفیسر طلعت نے کہاتھا کہ یہ اکیڈیمی ترجمے کے بارے میں مختصر نصاب پیش کر سکتی ہے تاکہ کشمیری ادب ، فلسفہ اور ثقافت کا بھرپور خزانہ پوری دنیا تک پہنچ سکے۔یہ اعلان انتہائی امید افزاء تھا کیونکہ عملی طور پر سرکاری سطح پر کشمیری زبان کو دیس نکالاگیاتھا اور رسمی طور ہائی سکول سطح پر ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھائے جانے کے علاوہ اس کی ترویج کیلئے عملی طور کچھ نہیں کیاجارہاتھا تاہم تین سال گزر جانے کے باوجود بھی جامعہ کشمیر کی جانب سے اکیڈیمی قائم کرنے کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی او ر یوں پھر ثابت ہوگیا کہ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں جبکہ عملی طور ابھی بھی کچھ نہیں ہورہا ہے ۔کشمیری زبان کی زبوں حالی پر آج کل بہت سے لوگ ماتم کناں ہیں ۔

 

کچھ حکومت کی عدم توجہی پر نالاں توکچھ اپنی غفلت پر خفالیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ زبان اپنی آن بان اور شان کھورہی ہے ۔آج کی نئی نسل کیلئے شاید یہ کوئی اتنی اہم زبان نہ ہو لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہماری زبان کی جڑیں انتہائی گہری ہیں ۔یہ زبان ہمیں یوں ہی اپنے آبا و اجداد سے ورثے میں نہیں ملی ہے بلکہ اس زبان کو زندہ رکھنے کیلئے کشمیریوں نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔کبھی سنسکرت،کبھی فارسی ،تو اب اردو ،وقت کے حاکموں نے اس زبان کو ختم کرنے کیلئے کیا کچھ نہ کیا ۔کشمیری زبان ان سب مشکلات کے باوجود گوکہ آج کل غریب ہے ،لیکن زندہ ہے۔یہ کوئی کل کی زبان نہیں ہے بلکہ اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔1919میں جارج ابراہیم گریرسن نے لکھا تھا کہ کشمیری دردی زبانوں میں سے وہ واحد زبان ہے جس کا لٹریچر دستیاب ہے ،اتنا ہی نہیں بلکہ اس کی تاریخ 750برس پرانی ہے ۔یہی وہی دور ہے جہاں سے بیشتر جدید زبانوں بشمول انگریزی کا احیاء ہوا ہے۔ آزادی ہند کے بعد کشمیری کو اگر چہ کشمیر وادی میں بحیثیت مضمون پرائمری سکولوں میں متعارف کیا گیا لیکن 1955میں اس کی تدریس اس بہانے سکولوں میں روک دی گئی کہ اس سے بچوں پر زبانوں سے متعلق پڑھائی کا بوجھ کم ہوجائے گا۔بعد ازاں کشمیری زبان کے بہی خواہوں کی جانب سے تحریک چلانے کے بعد کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ کشمیری قائم کیا گیااور یوں70کی دہانی کے آغاز میں یونیورسٹی میں کشمیری کو بحیثیت مضمون پڑھانا شروع کیاگیا۔گوکہ بعد میں کچھ کالجوں میں بھی کشمیری پڑھایا جانے لگا لیکن یہ اضافی مضمون کے طور ہی نصاب میں رہی ۔کشمیری زبان کو روبہ زوال ہوتا دیکھ کر گوکہ حکومت نے2000میں کشمیری کو بطورلازمی مضمون سکولوں میں متعارف کرایالیکن اس فیصلہ کو عملانے میں دس سال لگ گئے۔فیصلہ عملایا بھی گیا تو کیا ہوا۔کشمیری کی کتابیں تیار کی گئیں ۔سکولی نصاب میں شامل ہوئیں لیکن معاملہ وہی لکھے من اور پڑھے خدا والا ۔اب جبکہ کشمیری زبان کو سرکاری زبان کا در جہ بھی ملا ہے اور اب کشمیری زبان کو فروغ دینے کی باتیں کی جارہی ہیں تاہم جن بچوں کو کشمیری بطور مضمون پڑھایا جارہا ہے ،وہ بھی نیم حکیم ہی ہیںکیونکہ وہ زبان کے اصلوب سے بالکل بے بہرہ ہیں۔آخر ہوگا بھی کیا؟ ۔مضمون تو متعارف کرایا لیکن اساتذہ میسر نہیں ہیں۔بیشتر سرکاری سکولوں میں تو سائنس اور اردو کے اساتذہ کشمیری پڑھاتے ہیں ۔ایسے اساتذہ زبان کے ساتھ کیا انصاف کر پائیں گے جب انہیں خود بھی معلوم نہیں کہ اس زبان کی تحریر و تقریر کے اصلوب کیا ہیں۔یہی حالت سرکاری زبان اردوکی بھی ہے ۔گوکہ بولنے کو تو یہاں اردو زبان بولی جاتی ہے لیکن اس کے اصل مفہوم سے اکثر بے خبر ہیں۔اگر حکومت واقعی کشمیری زبان کو روبہ زوال ہونے سے بچانے کے علاوہ اس کو فروغ دینے کی خواہاں ہے تو اس کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے ۔ آپ سکولوں میں کشمیری زبان کے گرامر اور رسم الخط سے نابلداستاد سے کشمیری مضمون پڑھاتے جائیں گے تو ماحصل طالب علموں کی ایک ایسی کھیپ ہوگی جو ادھر کے ہونگے ،نہ اُدھر کے۔نجی سکولوںمیں کشمیری مضمون کا حال ہی بے حال ہے۔وہاں ذریعہ تعلیم و تدریس انگریزی ہے اور انگریزی زبان پر اس قدر توجہ دی جارہی ہے کہ بچے کشمیری بولنا ہی تقریباً بھول گئے ہیں اور جب بول چال کی زبان دوسرے ہو،تو بھلا انہیں کیسے کشمیری زبان سیکھنے کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔موجودہ ماحول میں روز اول سے ہی بچوں کو کشمیری زبان سے اس قدر دور رکھا جارہا ہے کہ ان کے نزدیک اب یہ زبان بے وزن ہوگئی ہے۔گھروں میں کشمیری بولنے کا چلن نہیں ،سکولوں میں انگریزی اور اردو کا بول بالا،ایسے میں کشمیری زبان پروان چڑھے تو کیسے۔موجودہ برق رفتار اور ترقی یافتہ دور میں اگر کسی زبان کو فروغ دینا ہے تو اس کو روزگار سے جوڑنا ضروری ہے۔اگر ہم بھی یہاں کشمیری تمدن اور زبان کو زندہ و جاوید رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کو جاب مارکیٹ سے جوڑنا ہی پڑے گااور اس کو بول چال کی زبان سے روزگار کا وسیلہ بنانا ہوگا۔چونکہ اب یہ سرکاری زبان بن چکی ہے تواعلیٰ سیول امتحانات میں کشمیری کو بحیثیت مضمون اور ذریعہ ترسیل قرار دیا جائے،نیز کشمیری زبان میں تحقیق کو فروغ دینے کے علاوہ سرکاری سطح پر خط و کتابت کشمیری زبان میں شروع کرنے کی پہل کی جائے۔اتنا ہی نہیں کشمیری بولنے والے علاقوں میں سرکاری ملازمتوں کیلئے کشمیری زبان جاننا ضروری قرار دیا جائے تاکہ ہر فرد یہ زبان اپنا نے پر مجبور ہوجائے تاکہ حقیقی معنوں میں اس زبان کی ترویج و اشاعت یقینی بن سکے۔