کتاب و سنت کے حوالے سے معائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال : ہمارے محلے میں ہماری مسجد شریف میں لائوڈ اسپیکر کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے اور وہ بھی اونچے Valumeپر۔صبح کی اذان ،اُس کے بعد نماز سے پہلے کی تسبیح۔نماز اور نماز کے بعد کی دعائیں،یہ سب کچھ لاوئڈ اسپیکر کو رکھ کے کیا جاتا ہے۔اس عمل میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ جاتا ہےاور اس دوران ہمیں اور جملہ عیال ،جن میںشیر خوار بچے ،طلاب اور بزرگ شامل ہیں ،زبردست کوفت محسوس کرتے ہیں۔اذان دینے کے لئے لاوئڈ اسپیکر اور وہ بھی مدھم Valumeپراستعمال کیا جاسکتا ہے لیکن باقی چیزوں کے لئے اور وہ بھی صبح کے وقت ۔کیا اس عمل کو غیر اسلامی عمل سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ہے۔مسجد کے اندر عباد ت کرنے والے شائد باہر کے ہمسائیگان کی مشکلات اور پریشانیوں کو نہیں سمجھتے ۔اس حوالے سے شرعی احکام و اصولوں کی وضاحت کی ضرورت ہے ۔مسجد شریف کے امام صاحب اور باقی انتظامی ،آپ کے مشورہ پر عمل کرے اور لوگوںکو راحت ملے۔
عبدالحمید خان ۔سرینگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

مساجد میں لائوڈ اسپیکروں کا استعمال ،شرعی حدود کی وضاحت
جواب : نماز میں بھی اور نماز کے علاوہ وعظ ،نعت خوانی ،اَوراد ،دُعائے صبح، وغیرہ میںبھی مسجد کے باہر کا مائک استعمال کرنا شرعاً دُرست نہیں ہے۔اس لئے کہ نماز میں قرآن کریم کتنی اونچی آواز کے ساتھ پڑھنا شریعت میں مطلوب ہے ،اس کے لئے خود قرآن کریم میں ارشاد ہے ،ترجمہ: اپنی نماز یں نہ اونچی آوازمیں پڑھو اور نہ ہی بالکل آہستہ پڑھو،بلکہ اس کے درمیان کا رویہ اختیار کرو(سورہ اسرا۔۱۱۰)اب اگر مائک اور وہ بھی مسجد کے باہر کا مائک استعمال کیا جائے اور مسجدمیں پڑھی جانے والی نماز کی آواز پورے محلہ میں گونجتی ہو تو یہ عمل خلاف شریعت ہے۔لہٰذا جب نماز کی آواز میں مائک استعمال کرنا ہو تو وہ صرف مسجد کے اندر والا مائک استعمال کرنے کی اجازت ہے۔باہر کا ہرگز نہیں۔
اسی طر ح وعظ ،چاہے وہ جمعہ کے موقعہ پر ہو یا مخصوص راتوں ،مثلاً شبِ قدر یا شبِ برات میں ہو ،یا مسجد میں کوئی دینی جلسہ ہو تو مائک کا استعمال صرف مسجد کے اندر کے لئے کرنے کی اجازت ہے۔جو لوگ نماز،وعظ ،اَوراد ،دُعائے صبح ،ختمات وغیرہ کے لئے مسجد کے باہر کا لائوڈ اسپیکر استعمال کرتے ہیں ،وہ ایسا کام کررہے کہ جس کے جواز کی کوئی دلیل نہیں۔اور ساتھ ہی یہ باہر لوگوں کو اذیت پہنچانے کا عمل ہے۔دنیا بھر کے مسلمانوں میں کہیں یہ کام نہیں ہوتا ،صرف یہاں کشمیر میں اور وہ بھی محدود مساجد میں۔خلاصہ یہ کہ شرعی حکم کے مطابق مسجد کے باہر کا مائک صرف اذان کے لئے استعمال کرنا درست بلکہ بہتر ہے۔اس لئے کہ اذان کی آواز دُور سےدُور تک پہنچانا مطلوب ہے۔اس سلسلے میں یہ بات قابل غور ہے کہ اگر کوئی شخص وعظ کرے،دعائے صبح پڑھے ،نعت خوانی کرے ،اوراد ِ شریف پڑھے تو اُس کی خواہش یہ کیوں ہوتی ہے کہ باہر دُور دُور تک میری آواز پہنچے۔کیا یہ خواہش اس لئے ہوتی ہے کہ وہ ایک شرعی حکم کی بجا آوری کا جذبہ رکھتا ہے ۔اگر ایسا ہے تو شریعت نے یہ حکم کہاں دیا ہے کہ وعظ ،دُورود شریف اور کلمات وغیرہ کی آواز دُو ر دُور تک ضرور پہنچے؟ اگر شریعت کا حکم ہوتا تو یہ کسی ایک مسجد یا چند مساجد کے لئے یا کسی مخصوص علاقہ کے لئے کیسے ہوگا۔اسلام تو عالمگیر اور بین الاقوامی دین ہے،تو دوسرے مقامات کے مسلمان اس پر عمل پیرا کیوں نہیں؟اور پھر جب مائک نہیں تھا تو اس پر عمل کیسے ہوتا تھا ۔جس شخص کو یہ شوق ہو کہ وہ اپنی آوازدُور دُور تک پہونچائے ،وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے کہ اس شوق کے پیچھے جذبہ اتباع دین کا ہے یا شہرت طلبی کا۔اور پھر سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کسی ایسی عبادت کا حکم دیتا ہے ،جس میں دوسروں کو اذیت پہونچے ؟ جواب ہے کہ ہرگز نہیں۔ہاں! اذان کا مقصد چونکہ اہل ایمان کو نماز کے لئے دعوت دینا ہوتا ہے ،اور یہ دعوت اُس صورت میں زیادہ کامل ہوگی جب آواز دُور دُور تک پہونچے،تو اذان کے لئے مائک استعمال ہو ۔اس لئے وعظین ،خطبا اپنے مواعظ کو مسجد کے اندر کریں اور دعائے صبح ،اورادِ شریف اور ختمات شریفہ پڑھنے والے اپنے اس عمل میں وہ اخفا اختیار کریں جو شریعت کا مطلوب ہے۔

 

 

سوال : بہت ساری خواتین اپنے بالوں کے ساتھ مصنوعی بال جوڑتی ہیں ۔اب جب وہ وضو کرتے ہوئے اپنے سَر پر مسح کرتی ہیں تو کیا اُن مصنوعی بالوں پر ہی مسح ہوتا ہے ،اور بعض خواتین اپنے فطری بالوں پر مسح کرتی ہیں ۔ہماراسوال یہ ہے کہ اگر کسی نے اُن مصنوعی بالوں پر مسح کیا تو کیا مسح ادا ہوجاتا ہے یا نہیں؟
سوال ۲: ۔کیا عورتوں کو بھی پورے سَر کا مسح کرنا اُسی طرح سنت ہے کہ جیسے مَردوں کو ؟عورتوں کو بالوں کا وہ حصہ جو پیچھے سے لٹکا ہوا ہوتا ہے ،کیا اُس حصے پر بھی مسح لازم ہے؟
سوال:۳۔بہت ساری خواتین آرائش کے لئے اپنے ناخن پر نیل پالش لگاتی ہیں ،جو عموماً بہت گاڑھا لیکوڈ ہوتا ہے ۔یہ پینٹ کی طرح ہوتا ہے ۔کیا ناخن پالش پر وضو ہوجاتا ہے۔اس طرح اگر ہاتھوں یا بالوں پر مہندی لگی ہوئی ہو تو کیا وضو ہوجاتا ہے؟
مریم سُلطان ۔سرینگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

مصنوعی بالوں پر مسَح اور ناخن پر لگی نیل پالش میں وضوکا مسئلہ!
جواب: خواتین کے جو فطری بال ہوتے ہیں اُن بالوں پر اس طرح مسح کیا جائے کہ بھیگے ہوئے ہاتھ پورے سَر پر گذر جائیں۔مسح کے معنیٰ یہی ہیں کہ بھیگا ہوا ہاتھ کسی عضو پر گذارا جائے۔اب اگر کسی عورت نے’’وِگ‘‘ استعمال کیا ہواہو، تو اس میں دو خرابیاں ہیں ۔ایک یہ کہ ایسے مصنوعی بال استعمال کرنا جائز نہیں اور اگر ان مصنوعی بالوں پر مسح کیا جائے تو یہ مسح بھی ادا نہ ہوگا ،یہ بال چونکہ جسم ِ فطری نہیں ہوتے ،اُن پر مسح گویا اپنے جسم پر مسح نہ ہوگا۔
۲۔ پورے سَر کا مسح کرنا سنت ہے اور اس سنت پر پورے اہتمام سے عمل کرنا چاہئے کہ یہ پورے سَر کا مسح جس طرح مَردوں کے لئے سنت ہے ،اُسی طرح عورتوں کے لئے بھی سنت ہے۔،البتہ عورتوں کے سَر کے پیچھے کو لٹکے ہوئے بال پیچھے کی طرف لٹکے ہوئے ہیں اُن پر مسح نہیں کرنا ہے۔سَر کے پیچھے اُس حصہ جہاں بال نیچے کی طرف لٹکے ہوئے ہوتے ہیں ،وہاں تک مسح کرکے پھر لٹکے ہوئے بالوں کے نیچے گردن پر مسح کرکے پھر کانوں پر مسح کرنا چاہئے۔
۳۔ ناخن پر نیل پالش ہوتو اس پر نہ غسل ہوتا ہے اور نہ وضو ہوتا ہے،دراصل نیل پالش ایک گاڑھا پینٹ ہے جو پانی کو ناخن تک نہیں پہنچنے دیتا ،اس لئے جس خاتون کے ناخن پر یہ پینٹ لگا ہوا ہو وہ اگر غسل کرے گی اور نیل پالش لگا رہ گیا تو غسل ادا نہ ہوگا،اور وضو کرے تو وہ بھی ادا نہ ہوگا ۔اس لئےکہ اُس کے ناخن در حقیقت خشک رہ گئے ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے تنگ انگوٹھی لگی ہوئی ہو تو نہ غسل ہوگا اور نہ وضو ہوگا ۔

 

 

سوال : سونے کے وقت کیا کیا دعائیں پڑھ سکتے ہیںاور وہ دعائیں بغیر وضو پڑھنا جائز ہےیا نہیں؟
غلام محی الدین وانی ۔ترال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سونے کے وقت مسنون دعائیں پڑھنا جائز
جواب: سونے کے وقت سورہ فاتحہ ،آیت الکرسی ،سورہ ملک ،چار قل ،تسبیح فاطمہ پڑھنا مسنون ہے ۔احادیث میں ان کے پڑھنے کی ترغیب بھی ہے اور فضیات بھی ہے۔لہٰذا یہ سب پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئےمزید یہ کہ بخاری و مسلم میں حدیث ہے ۔حضرت برأبن عاذب کہتے ہیںکہ۔۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم سونے کا ارادہ کرو تو پھر دائیں کروٹ لیٹ کر یہ دعا پڑھو ’’اَللّھُم اَسلمُت نفسی۔۔۔۔ الخ ۔یہ دعا مکمل بخاری شریف وضو کا بیان میں موجود ہے۔اس لئےکوشش کی جائے کہ باوضو سوئیں ،اگر کوئی بے وضو سوئے تو یہ بھی جائز ہے اور اوپر کی ساری دعائیں بے وضو پڑھنا بھی جائز ہے۔سورہ الم سجدہ پڑھنےکی تاکید بھی احادیث میں آتی ہے ۔سونے کے وقت اور دعائیں ہیں۔دعائوں کی کتاب مثلاً حصن المسلم اور مسنون دعائیں میں موجود ہیں۔

 

 

سوال: پہلے ٹیلی فون اور اب موبائیل فون کا استعمال زندگی کا لازمی حصہ بن گیا ہے۔اس کے بہت سارے مسائل میں سے ایک مسئلہ سلام کا بھی ہے۔برائے کرم فون پر سلام کے متعلق ضروری مسائل تحریر فرمائیں۔
بشیر احمد ۔بھدرواہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موبائیل پر’ہیلو‘ سے قبل ’السلام و علیکم ‘کہنا گناہ نہیں
جواب:سلام مسلمانوں کا شعار ہے۔ اس لئے فون پر پہلے سلام کیا جائے پھر بات کی جائے۔جب فون سے رابطہ کیا جائے تو رابطہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ ہیلو کیا جائے ،جب جواب میں ہیلو آجائے تو یہ رابطہ ہونے کی علامت ہے۔اب سلام کیا جائے ،یہ اُس وقت ہے جب یہ یقین ہو کہ اگلا شخص مسلمان ہے ۔اگر انجانے میں کسی غیر مسلم کو السلام علیکم کہا گیا تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ہاں! جب یہ معلوم ہوکہ میں جس سے بات کرنا چاہتا ہوں ،وہ غیر مسلم ہے تو پھریہاں سے آداب کہیںیا گُڈ مارننگ ،گڈ آفٹر نون یا گُڈنائٹ جیسے الفاظ کہیں،السلام علیکم نہ کہیں۔یہ مسلمان کے ساتھ مخصوص ہے۔فون پر اگر کوئی خاتون ہو تو چونکہ عموماً فتنہ کا خطرہ نہیں ہوتا ،اس لئے سلام کرنے اور سلام کا جواب دینے میںکوئی حرج نہیں ۔لیکن اگر فتنہ کا خطرہ ہو ،مثلاً یہی سلام و کلام غلط روابط قائم ہوجانے کا سبب بنے تو یہ سلام کرنا بھی منع ہے،اور سلام کا جواب دینا بھی منع ہے،یہ مردوں کے لئے بھی ہے ،عورتوں کے لئے بھی۔آج کل غیر محرم کے ساتھ غلط روابط کا بڑا ذریعہ یہ فون ہی ہے۔
با ت چیت ختم کر کے پھر سلام کرنا بھی حدیث سے ثابت ہے۔ لہٰذا جیسے ملاقات کرکے رخصت ہوتے وقت سلام کرنا سنت ہے ،ایسے ہی فون پر بات چیت ختم کرکے سلام پر اختتام کرنا سنت ہوگا ۔اس طرح ہر شخص کے لئے سلام کے الفاظ کا درست کرنا بہت ضروری ہے۔بہت سارے لوگ سلام تو کرتے ہیں مگر الفاظ میں سخت غلطیاں ہوتی ہیں۔مثلاًسلام علیکم ،یا ساں ولیم ،یا سا علیکم یا سا ملیکم وغیرہ ۔یہ سب غلط ہیں ۔اس طرح کے غلط کلمات سلام کے نام پر غیر سلام ہے۔صحیح یہ ہے ’’السلام علیکم ‘‘۔اس کو انگریزی میں یوں لکھا جائے۔ASSA-LAMU.ALAIKUM۔بہت سارے لوگ سلام کے جواب میں بھی سلام ہی کرتے ہیں ۔یاد رہے سلام کرنا سنت اور جواب دینا واجب ہے۔سلام کے الفاظ یہ ہیں ’’السلام علیکم‘‘۔۔۔ا سکا جواب یہ ہے ’’وعلیکم السلام ‘‘اگر سلام یا جواب ِسلام میں یہ اضافہ کیا جائےتو بہتر ہے۔ورحمتہ اللہ و بر کا تہٗ