کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حک مفتی نذیر احمد قاسمی

عیب دار مال کاعیب بتائے بغیر
فروخت کرنا شرعی طور پر سخت منع
سوال:۱-اگرکوئی شخص تجارت میں فروخت ہونے والے سامان کی خرابی اور کسی عیب کوچھپائے اور خریدار کو یہ جتلا کر فروخت کرے کہ وہ سامان اچھا ہے تو اس کے لئے قرآن وحدیث میں کیا حکم ہے ؟
سوال:۲- کئی تاجر لوگ بہت قسمیں کھاکرمال کانرخ بتاتے ہیں ۔خریدار قیمت میں کمی کرنے کا اصرار کرتاہے تو دوکاندار مزید قسمیں کھاتاہے ۔یہ قسمیں کبھی سچی ہوتی ہیں اور کبھی جھوٹی ۔اس طرح قسمیں کھاکرمال فروخت کرنا بڑی تعداد میں بازاروں اور دوکانوں میںعام ہے ۔
اس بارے میں قرآن وحدیث میں کیا حکم ہے ؟
عبدالرشید …ایک دوکاندار،سرینگر

جواب:۱-عیب دار اور خرابی والا سامان عیب بتائے بغیر فروخت کرنا شرعی طور پر سخت منع ہے ۔قرآ ن کریم میں ارشاد ہے ۔ ترجمہ :
اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقوں سے مت کھائو ۔عیب دار چیز فروخت کرنا اور ظاہر ہے اُس کی قیمت زیادہ لی جائے گی تو وہ چیز بیچ کر جو زائد قیمت لی گئی وہ باطل طرح سے کھاناہے اور وہ حرام ہے ۔نیز حدیث میں ہے کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ خرابی اور عیب بتائے بغیر کوئی چیز فروخت کرے او رکسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے سامان کا عیب جاننے کے باوجود اُس پر پردہ ڈالے ۔ بخاری ، مستدرک حاکم، ابن ماجہ ۔
ایک حدیث میں ہے ۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا جوشخص عیب دار چیزیں فروخت کرے او ر عیب کو ظاہر نہ کرے وہ اللہ کی ناراضگی اور غضب میں رہتاہے ۔اور ایک حدیث میں ہے کہ ایسا شخص ہروقت فرشتوں کی لعنت میں رہتاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسمیں کھا کھا کر مال بیچنے کا معاملہ
جواب:۲-قسمیں کھانے کے متعلق قرآن میں ارشاد ہے ۔ ترجمہ: تم اللہ کو اپنی قسموں کا نشانہ مت بنائو۔یعنی ضرورت بے ضرورت قسمیں مت کھائو اور اس میں غلط قسمیں کھانا بھی شامل ہے۔
حدیث میں ہے حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تین شخصوں پر نظر رحم نہیں کرتاہے ۔ ان میں سے ایک وہ شخص جو قسمیں کھاکھاکر اپنا مال بیچتاہے ۔ یہ حدیث ترمذی ،ابودائود، نسائی میں ہے۔
دوسری حدیث میں ہے حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے تاجرو! تم مال بیچنے میں زیادہ قسمیں کھانے سے پرہیز کرو۔نسائی ۔ ایک حدیث میں ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے تاجرو! تجارت میں غیر ضروری اور لغو باتیں کرنی پڑتی ہیں اور قسمیں کھائی جاتی ہیں ۔ اس لئے تم کثرت سے صدقہ کرو ۔یہ حدیث ترمذی وغیرہ میں ہے ۔
اللہ کی ذات کے علاوہ ہرچیز کی قسم کھانا منع ہے ۔ حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم کھائی اُس نے شرک کیا ۔ اس پر غیر اللہ کی قسم کھانے سے پرہیز کرناضروری ہے اور سخت مجبوری میں جب قسم کھانے کی ضرورت پڑے تو سچی بات پر قسم کھائی جائے اور صرف اللہ کی قسم کھائی جائے اور جھوٹی قسم کھانے سے پرہیز کیا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال:۱-میرے شوہر مجھے اپنی پندرہ ہزار ماہانہ کی آمدنی سے کوئی خرچہ نہیں دیتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ تیری اپنی آمدنی ہے اور وہ میری آمدنی کو مجھ سے لے کر اپنے نجی اور والدین کے گھرکے اخراجات کے لئے خرچ کرتے ہیں ۔کیا یہ سب کچھ وہ صحیح کرتے ہیں ؟
سوال:۲-کیا بیٹے کے بالغ ہونے کے بعد ماں بیٹے اکٹھے سوسکتے ہیں ؟ کیا ان کا بانہوں میں بانہیں ڈال کر چلنا ،اُٹھنا بیٹھنا ، کھاناپینا اکھٹے ہونا جائز ہے ۔ جب کہ بیٹے کی بیوی بھی ہو ؟
سوال:۳-کیا بیوی شوہر سے یہ تقاضا کرسکتی ہے کہ میں سسرال والوں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی ہوں ، میرا اُن سے الگ رہنے کا انتظام کردیجئے ۔ ان حالات میں شوہر کن کے ساتھ رہے ۔ خصوصاً رات کے اوقات میں ۔ اس کا کھانا پینا والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ ہو کہ بیوی بچوں کے ساتھ ؟
ایک خاتون خانہ …اننت ناگ

عورت کی اپنی آمدنی کے باوجود نفقہ شوہر پر لازم
جواب:۱-زوجہ سے اُس کی رضامندی کے بغیر اس کی آمدنی لینا اپنے اوپر یا اپنے دوسرے اقارب پر خرچ کرنا ہرگز درست نہیں ہے ۔ زوجہ از خود کچھ رقم دے تو لینے میں حرج نہیں مگر جبر واصرار سے لینا ہرگز صحیح نہیں ہے ۔ حدیث میں ہے کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کا مال اُس کے دل کی رضا کے بغیر اپنے اوپر خرچ کرے ۔شریعت اسلامیہ نے عورت کا نفقہ اور تمام ضروری اخراجات شوہر پر لازم کئے ہیں ۔اگر عورت کی اپنی کوئی آمدنی ہوتو بھی اُس کا نفقہ شوہر پر ہی لازم رہتاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہی چادر میں 2مَردوں کا سونا منع
جواب:۲-بیٹا بالغ ہوجائے تو اُس کوالگ سُلانے کا حکم ہے ۔ ایک ہی بستر میںایک ہی چادر یا لحاف میں دو مَردوں کا ایک ساتھ سونا حدیث کی رو سے منع ہے ۔ اگر کوئی مرد اور عورت ہوں چاہے وہ ماں بیٹا ہویا باپ بیٹی ، یا بھائی بہن اُن کو ہرگز اجازت نہیں کہ وہ ایک ساتھ ایک ہی بستر میں ایک ہی چادر کے نیچے سوئیں ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ نیندمیں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح بوس وکنارکربیٹھیں جو اُن کے لئے غیر شرعی اور غیر اخلاقی بھی ہو اور باعث ندامت بھی۔
بانہیں ایک دوسرے پر آویزاں کرکے چلنا بچوں کے لئے تو کسی نہ کسی درجے میں دُرست ہے ۔ ان کے علاوہ اسلامی معاشرے میں میاں بیوی کے لئے بھی پسندیدہ نہیں اور ماں بیٹے کے لئے بھی نہیں ، بھائی بہن کے لئے بھی نہیں ۔یہ ایک قسم کے آوارہ مزاج اور غیر مہذب بلکہ بے سلیقہ وبدتمیز ہونے کی علامت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات بیوی بچوں کے ساتھ
گزارنا شوہر کیلئے لازم
جواب:۳- زوجہ اگر سسرال والوں سے الگ رہنے کا مطالبہ کرے اور شوہر کے لئے اس مطالبہ کے پورا کرنے میں کوئی واقعی مشکل نہ ہو تو پھر یہ مطالبہ دُرست ہے ۔ اس صورت میں شوہر کو رات اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہی گزارنا لازم ہے اگر شوہر کے الگ رہنے میں واقعتاً مشکلات ہوں تو زوجہ کا علیحدگی کا مطالبہ کرنا ہی غلط ہے ۔ دراصل یہ حکم حالات کے مطابق ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-۱- بچوں کی تاریخ پیدائش غلط لکھی گئی ۔اب بچے بڑی کلاسوں میں یعنی کالج میں پڑھتے ہیں ۔ اب ہم کیا کریں ؟
خورشید احمد…کشتواڑ
غلط تاریخ پیدائش درست کرنا لازمی
جواب:۱- بچوں کی تاریخ غلط اندارج ہوئی ،یہ عمدً ہوا ہو یا سہواً بہرحال اس غلطی کی تصحیح کرنا لازم ہے ورنہ زندگی بھر ہی جھوٹ بولا بھی جائے گا اور لکھا بھی جائے گا کہ میری عمر یہ ہے حالانکہ عمر کچھ اور ہوتی ہے ۔ اس لئے درستگی کے لئے جو کچھ بھی کرنا پڑے ضرور کریں ۔ ورنہ یہ گناہ سار ی زندگی رہے گااور یہ والدین کے سر پر ہوگا ۔