کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

سوال:۱-اگر کوئی شخص سحری میں دیر سے جاگ جائے تو وہ کیا کرے گا ۔ کیا سحری کھائے بغیر روزہ رکھنا صحیح ہے ؟
سوال:۲- روزہ کی حالت میں مسواک کرنا یا ٹوتھ پیسٹ کرنا کیساہے ؟
سوال:۳- روزہ کی حالت میں اگر مجبوری میں انجکشن کرناپڑے تو کیا روزہ باقی رہتاہے یا ختم ہوجاتاہے ؟کچھ لوگ کہتے ہیں روزہ ٹوٹ جاتاہے۔اسی طرح اگر پانی کی بوتل چڑھانی پڑے تو روزے کا کیا حکم ہے؟
اشفاق احمد… سرینگر 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سحری کے بغیر روز ہ جائز

جواب:۱-اگر کوئی شخص صبح کو ایسے وقت بیدار ہو اکہ وہ سحری نہیں کھاسکتاہے تو اُس کے لئے یقیناً یہ جائز ہے کہ وہ سحری کھائے بغیر روزے کی نیت کرے ۔ اگرچہ سحری کھانے کی ترغیب بھی ہے اور اس کو باعثِ برکت بھی قرار دیا گیا ہے مگر سحری روزے کی شرائط میں نہیں ہے ۔لہٰذا بغیر سحری کھائے روزہ رکھنا درست ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کرنا مکروہ

جواب:۲- روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کرنا مکروہ ہے ۔اس لئے اگر کوئی شخص اس کا عادی ہوتو سحری کے وقت یا افطار کے بعد کرلیا کرے ۔ سحری کھانے اور فجر کی نماز کے بعد سونے کی وجہ سے منہ کا ذائقہ خراب ہوتاہے تو اس کے لئے بہتر ہے کہ مسواک کرلیا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انجکشن سے روزہ نہیں ٹوٹتا

جواب:۳- انجکشن چاہے وہ رگوں میں چڑھایا جائے یا گوشت میں دونوں کے لئے حکم یہ ہے کہ انجکشن سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔اس لئے انجکشن چاہے وہ کوئی سا بھی کیوں نہ ہو اُس کا براہ راست اثر معدہ پر نہیں پڑتا اگرچہ طاقت کا انجکشن ہی ہوتو جسم میں طاقت ضرور آتی ہے مگر روزہ فاسدہونے کے لئے دراصل معدہ میں کسی چیز کے پہنچنے کو شرط قرار دیا گیا جو کہ یہاں نہیں پایا گیا ۔ اس سے زیادہ اہم شریعت کا فیصلہ ہے ۔ اگر کسی شخص نے بھولے سے پیٹ بھر کر کھانا کھالیا یا سیراب ہوکر پانی پی لیااور بعد میں یاد آیا کہ اسے تو روزہ تھا تو اس صورت میں معدہ کھانے ،پانی سے بھرجانے کے باوجود  روزہ برقرار رہے گا ۔ اس کے برعکس اگر کسی نے جان بوجھ کر صرف ایک قطرہ پانی پی لیا تو روزہ ختم ہوگیا۔ تو اصل چیز شریعت کا فیصلہ ہے ۔ انجکشن کے متعلق تمام علماء کا یہی فیصلہ ہے البتہ بلاضرورت یہ کیا گیا تو روزہ مکرو ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دورانِ روزہ آنکھ ،کان اور ناک میں دوائی ڈالنا

۱- آنکھ میں دوائی ڈالنے سے روزہ پر کیا اثر پڑے گا ؟
۲-کان میں دوائی ڈالنے سے روزہ ٹوٹے گا یا نہیں ؟کچھ کتابوں میں لکھاہے کہ ٹوٹ جائے گا۔
۳- ناک میں دوائی ڈالنے سے روزہ ٹوٹے گا یا نہیں ؟
۴-زنانہ مخصوص معائنہ P.V.جس میں رحم بچہ دانی میںدوائی رکھی جاتی ہے ۔ اس سے روزہ ٹوٹے گایا نہیں؟
۵-روزہ میں Inhaller استعمال کرنے سے روزہ ٹوٹے گا یا نہیں؟
 محمد عرفان بٹ 
جواب:۱-آنکھ میں دوائی ڈالنے کے متعلق تمام قدیم کتابوں میں لکھاہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتاہے ۔ لیکن اُس وقت چونکہ طبّی تحقیقات خصوصاً علم تشریح الاعضاء اس درجہ ترقی یافتہ نہ تھا جس درجہ آج ہے ۔ اس لئے فقہاء نے اُس وقت کے اطباء اورماہرین جسم انسانی کی یہ رائے قبول کی کہ آنکھ کا معدہ سے کوئی تعلق نہیں ان کے درمیان کوئی منفذ نہیں۔اس لئے تمام فقہی کتابوں میں ہی لکھا گیا کہ روزہ نہیں ٹوٹے گا اور یہی تمام فقہی کتابوں میں درج ہوتا رہاہے ۔ آج کا علم تشریح الاعضاء (Anotomy) بہت ترقی یافتہ اور کہیں زیادہ تحقیقی ہے ۔ اس سے آج یہ ثابت ہے کہ آنکھ کے کنارے سے ایک بار یک VIENسیدھے ناک میں آتی ہے اور اُس سے آنکھ کا پانی معدہ تک پہنچاتاہے ۔ اس لئے جب دوائی ڈالی جائے گی تو وہ بھی اسی رگ کے ذریعہ ناک سے گذرتے ہوئے معدہ تک پہنچ جاتاہے ۔ اس لئے آنکھ میں دوائی ڈالنے سے یقیناً روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ راقم نے خود بھی متعدد مستندماہرین فقہ و ماہرین طب جدید سے استصواب رائے کیا ہے ۔
جواب:۲-کان کے متعلق قدیم اطباء کی رائے یہ تھی کہ کان کا براہ راست راستہ معدہ تک ہے اور اندر سے ایک منفذ (گذر گاہ)بھی ہے ۔اس لئے تمام قدیم کتابوں میں لکھا گیا کہ کان میں دوائی ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا لیکن اس وقت کی Anotomy اور خصوصاً طب کے شعبہ E.N.T.کے ماہرین اس پر متفق ہیں کہ کان کے اندر سے معدہ تک کوئی گذر گاہ نہیں ۔ اس لئے خود راقم نے بھی متعدد طبی کتابوں اور طب کے مستند ماہرین سے استفادہ کیا ہے ۔لہٰذا کان میں دوائی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا البتہ قدیم تمام کتابوں میں چونکہ روزہ ٹوٹ جانے کا حکم لکھا گیا ہے اس لئے اگر اس قدیم قول کی رعایت کرکے دن میں دوائی استعمال نہ کی جائے تو زیادہ بہتر ہے ۔
جواب:۳-ناک میں دوائی ڈالنے سے یقیناً روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ اس میں قدیم اطباء اور آج کے E.N.T.ماہرین سبھی متفق ہیں اور خود ہر انسان کانتیجہ یہ بھی کہ ناک کے ذریعہ سے معدہ تک جائے نقوذ ہے ۔ لہٰذا روزہ میں دوائی ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جانا یقینی ہے ۔ اس لئے روزہ کی حالت میں ناک میں ہرگز دوائی نہ ڈالی جائے اوراگر دوائی ڈالنے کی مجبور ی ہو تو سمجھ لیا جائے کہ روزہ ٹوٹ گیا ہے اور آئندہ اس روزہ کی قضا رکھنی ہوگی ۔ 
جواب:۴-عورتوں کے امراض مخصوصہ کی جانچ کے لئے اگر رحم یعنی بچہ دانی میں کوئی دوائی پہنچائی گئی تو چونکہ یہ منفذفطری  سے اندر جسم انسانی کے اندر ایک ایسی چیز پہنچ گئی جس کا اثر جسم پرپڑے گا اس لئے روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ 
اسلامک فقہ اکیڈیمی میں یہی فیصلہ ہواہے جس میں امراضِ نسواں کے ماہر اطباء کی رائے سے بھی بھرپور استفادہ کیا گیا اور پھر یہ فیصلہ ہواہے کہ اگر صرف آلہ پہنچایا گیا تو روزہ سلامت ہے اگر دوائی بھی ساتھ میں پہنچائی گئی تو روزہ ٹوٹ گیا ۔
جواب:۵-فقہ اکیڈیمی کے ایک تحقیقی اجلاس میں امراضِ تنفس کے متعدد ماہرین اطباء کی تحقیقی آراء سے یہ واضح ہواکہInhallerکا کام پھیپھڑوں کو راحت پہنچاناہے اس لئے ایک قسم کی گیس جوآگے پہنچ کر مائع (Liquid) بن جاتی ہے اندر پہنچائی جاتی ہے لیکن اس گیس کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور معدہ تک پہنچ جاتاہے ۔ اس تحقیق پر فقہ اکیڈمی میں فیصلہ ہواکہ Inhaller کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رمضان میں نمازِ فجر جلد ادا کرنادرست

سوال:-فجر کی جماعت کب شروع کرنی چاہئے ؟ رمضان میں اگردیر سے جماعت کرتے ہیں تو بہت سارے لوگ انتظار کرتے کرتے تنگ آجاتے ہیں اور کچھ پہلے ہی اپنی نماز علیحدہ پڑھ کر آرام کرتے ہیں۔اس لئے سوال یہ ہے کہ فجر کی جماعت کے لئے اسلام کا حکم کیاہے؟ رمضان میں اور رمضان کے علاوہ دونوں کے متعلق جواب دیجئے۔
عبدالرشید …نوشہرہ ،سری نگر
جواب:-رمضان المبارک کے ایام میں فجر کی نما ز جلد ادا کرنا درست ہے بلکہ بہت افضل ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت رسول کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں فجر کی جماعت اذانِ فجر کے متصلاً بعد اداکی جاتی تھی ۔ چنانچہ اذان اور اقامت ِ فجر کے درمیان اتنا وقفہ ہوا کرتا تھاکہ اطمینان سے ساٹھ سے لے کر سو آیات کی تلاوت کی جائے ۔ 
نیز حضرت عائشہ صدیقہؓکا بیان ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر ایسے وقت میں ادا کرتے تھے کہ عورتیں اپنی چادروں کولپیٹ کر واپس ہوتیں تووہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں۔(بخاری، ترمذی وغیرہ)
اس لئے رمضان میں اذان کے دس پندرہ منٹ کے بعد جماعت شروع کرنا بہت بہترہے ۔ رمضان کے علاوہ دیگر ایام میں چونکہ نمازیوں کی اکثریت دیر سے مسجد میں پہنچتی ہے اور اگر اوّل وقت میں جماعت پڑھی گئی تو کچھ لوگوں کو اوّل وقت جماعت کی فضیلت مل جائے گی لیکن اکثریت جماعت سے محروم رہ جائے گی ۔اس لئے پورے سال میں جماعت فجر دیر سے اداکی جائے ۔اس کے متعلق صحیح حدیث ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نمازِ فجر دیر سے پڑھو اس میں اجر زیادہ ہوگا۔ (ترمذی) اس لئے پورے سال میں طلوع آفتاب سے نصف گھنٹہ پہلے جماعت کھڑی کرنا افضل ہے تاکہ حدیث پر بھی عمل ہو اور جماعت میں بڑی سے بڑی ہوسکے ۔ یہی اُمت کا عمومی طرز ہے ۔