کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

دینی فکر کے فروغ میں سوشل میڈیا کا استعمال
بنیادی اصول وضوابطہ پر نظر رکھنا لازمی
جناب محترم!سوشل میڈیا (Social media)ا  س وقت انفارمیشن ٹرانسفر کرنے کاایک اہم اور موثر ترین ذریعہ ہے،اگر اس کا استعمال صحیح مقصد کے لیے ہو تو یہ مفید ترین ذریعہ ہوگا،اور اگر اس کا استعمال غلط مقاصد کے لیے ہو تو اس کے ذریعہ پھیلنے والی تباہی فکری واخلاقی،عملی او رسماجی طور پر کیا ہوگی،وہ ہم سب کے سامنے ہے،آج اس کا استعمال مذہب،تجارت،تفریحات،تعلیم،اور طب وغیرہ کے مختلف میدانوں پر بڑے پیمانے پر روزافزوں ہے،حتی کہ دعا،تعویذاور جھاڑپھونک میں بھی اس کا استعمال ہورہا ہے،اب ذیل میں کچھ سوالات پیش خدمت ہیں ،انکا جواب کشمیر عظمی میں شائع کیجئے،میں خود ایک جرنلسٹ(jounalist) ہوں ،اس لیے یہ سوالات اپنے شعبہ کی طرف سے ہی نہیں،سب کی نمائندگی کرتے ہوئے لکھے ہیں۔
   سلیم الظفر،سرینگر
سوال۔1؛سوشل میڈیا پر دینی معلومات اور شرعی مسائل کے متعلق بہت ساری معلومات آتی ہیں ،ان معلومات پر اعتماد کرنے کے لیے کیا اصول ہیں،ان معلومات کوآگے شیئر کیا جاسکتا ہے۔؟
سوال۔2؛کیا کسی کی کال(call)کواس کی اجازت کے بغیر سوشل میڈیا پر اس کی بات چیت کو اپ لوڈ کرنا شریعت میں جائز ہے؟
سوال۔3؛سوشل میڈیاپر ملحدانہ افکار،مخرق اخلاق مواد بھی آتا رہتا ہے،اس میں اسلام اور شعائر اسلام کی آیات بھی ہوتی ہے،ایسے مضامین کو پڑھنے اور دوسرے تک پہونچانے کے متعلق ضابطہ کیا ہے؟
سوال4؛سوشل میڈیا بہت ساری اچھی اور مفید معلومات،عالمی مقالات،جغرافیائی وتاریخی تحقیقات وغیرہ بہت کچھ اس کے ذریعہ ٹرانسفر ہوتا ہے،لیکن اس کے ساتھ ساتھ برائیوں کے پھیلاؤ میں بھی اس کا کردار ہم سب کے سامنے ہے،کیا اس صورت حال میںاسلام کی اشاعت ،دینی معلومات ،اخلاقی تعلیمات کے لیے اس کو بطور ذریعہ استعمال کیا جاسکتا ہے؟
سوال۔5؛مجموعی طور پر سوشل میڈیا کے استعمال میںکن باتوں کو ملحوظ رکھنااور کن باتوں سے اجتناب ضروری ہے،؟  فقط والسلام ،
جوابات
غیر مستنداداروں سے فراہم کردہ معلومات سے اجتناب لازم
یہ تمام سوالات نہایت اہم ہیں اور ان کے جوابات آج کی اہم ضرورت ہے،اختصار کے ساتھ جوابات درج ذیل ہیں۔
جواب۔1؛سوشل میڈیا پر دین سے متعلق جو بھی معلومات آتی ہیں اُن سے مستفید ہونے کے لیے پہلی اور لازمی شرط یہ ہے کہ اُس شخص یا فورم کا مستندauthentic) )ہونالازم ہے جس کی طرف سے وہ دینی معلومات یا شرعی مسائل سامنے آرہے ہیں،اگر غیرمعلوم،غیر مستند فرد یا ادارے کی طرف سے یہ معلومات سامنے آرہی ہوں تو عام مسلمانوں،بلکہ تعلیم یافتہ اور عام علماء،اماموں اور خطیبوں کوبھی اس سے استفادہ کرنا درست نہیں ہے،اس لیے کہ اہل باطل کی طرف سے بھی اور راہِ حق سے منحرف مسلمانوں کی طرف سے بھی اور نامعلوم افراد کی طرف سےاسلام کے نام پر بہت سارامواد سامنے آتا ہے،مگر وہ درست نہیں ہوتا۔۔ہاں صرف وہ ماہر علماء جو حق وباطل کے باریک فرق کو اپنی بصیرت اور دقت نظر سے پہچان سکتے ہیں،وہ ہر قسم کے مواد کو تنقیدی نقطۂ نظر سے پڑھ سکتے ہیں تاکہ وہ بوقت ضرورت امت کو ا س مواد کی گمراہی سے باخبر کرسکیں ۔
اجازت کے بغیر ریکارڈنگ کرنا خیانت
جواب۔2؛کسی بھی شخص سے جب دینی بات کی جائے توا س کی گفتگو اس کی اجازت کے بغیر ریکارڈ کرناخیانت اور اس کی اجازت کے بغیر وہ گفتگو انٹرنیٹ پر ڈالنا دوسری خیانت ہے،یہ اس حدیث مبارک کی خلاف ورزی ہے جس میں فرمایاگیا ہے کہ مجالس کی گفتگو امانت ہے(سنن ابی داؤد عن ىجابر(،اگر کسی شخص نے کسی کی گفتگو اس کی اجازت کے بغیر ریکارڈ کرلی ہو اور پھر اس لئے اپنے پاس محفوظ رکھی تاکہ کبھی اسے اِس شخص کے خلاف استعمال کیا جائے تو یہ بھی ناجائز ہے۔
    ہاں صرف وہ گفتگو محفوظ کرنے کی اجازت ہے جو اس ریکارڈ کرنے والے کے کسی حق کو ثابت کرے،اور آئندہ اس کے انکار ہونے یا کرنے کا خدشہ ہو،یااپنی بے گناہی ثابت کرنی ہوتو وہ بات چیت محفوظ کی جاسکتی ہے،اس کے علاوہ نہیں۔آج مختلف دینی فکر کے جو افراد خفیہ بن کر کسی عالم سے سوالات کرکے پھر اس کے جوابات اس کی اجازت کے بغیر سوشل میڈیا کے ذریعہ عام کرتے ہیں ،یہ دین کی خدمت ہرگز نہیں،صرف انتشار پھیلانے کا کام ہے۔
غیر اسلامی مواد پڑھنا ۔۔اہم مسائل
جواب۔3؛سوشل میڈیا پر آنے والا مواد(content)اگر الحاد،بے دینی،فحاشی،اخلاقی حدود کے باہر یا دین اسلام کے خلاف ہو تو ایسا مواد نہ توپڑھنا ہر اس شخص کے لیے درست ہے جو اس کی مضرت اور خرابی سے اپنے آپ کو نہ بچاسکےاور نہ ہی اس کےلیے یہ جائز ہے کہ وہ آگے کسی اور کو شیئر کرے،ہاں وہ شخص اگر اس کو رد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور اس کو خود متاثر ہونے کا خدشہ نہ ہو ،وہ شخص پڑھ بھی سکتا ہے تاکہ وہ اس کاردکرسکے اور  ایسے دوسرے شخص کو بھی بھیج سکتا ہے جو اس کے رد کرنے میں معاون بن سکے۔
  اسی طرح وہ شخص بھی یہ غیر اسلامی مواد پڑھ سکتا ہے جو اس کے غلط ہونے کو تو محسوس کرپائےمگر خود  رد(refute) نہ کرسکے اورکسی دوسرے بڑے صاحب علم تک وہ مواد پہونچائے جو بوقت ضرورت ا س کو رد کرسکےاور عام مسلمانوں کو اس کے غلط اثرات سے بچاسکے۔اسلام کے خلاف ہر دور میں زبان وقلم استعمال ہوتے رہے ہیں ،آج کے دور میں یہ کام زیادہ بڑے پیمانے پر میڈیا کے سہارے ہورہا ہے ،یہ آج کے بابصیرت اور اسلامی حدود کی حقیقی پہچان رکھنے والے محافظین اسلام اس تجزیہ وتردید کرنے کے ذمہ دار ہیں ،۔
طبی، قانونی و سائنسی معلومات کےلئے ماہرین کی تصدیق ضروری
جواب۔4؛سوشل میڈیا میں جو مفید اور صحیح معلومات سامنے آتی ہیں اُن سے مستفید ہونا درست ہے،مگر ان میں کچھ معلومات ایسی بھی ہیں جن کی تصدیق اس شعبہ کے ماہرین سے کرانا ضروری ہے،مثلاً طبی تحقیقات،قانونی نکات،سائنسی نظریات یا بحث طلب تھیوریاں سامنے آئیں تو اس کے ماہرین سے استصواب رائے کرانا ضروری ہے،اور اس سوشل میڈیا میں جوجو خرابیاں ہیں ان سے اپنے آپ کو بچانا ضروری ہے اور اپنے متعلق خوش گمانی یا نفسانی محرکات سے مغلوب ہونا ہرقسم کے غلط مواد کو دیکھنا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے ۔
  مستند اہل علم،صحیح فکر رکھنے والے مفکرین اور اسلامی اسکالرز،اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت کرنے والے افراد اور اخلاقی روحانی مصلحین اس کے ذریعہ عظیم خیر پھیلاسکتے ہیں،جیسے ہمارے عہد کے بے شمار مستند اہل علم ومصلح شخصیات کے بیانات سے دعوت،تزکیہ،تفہیم اور اصلاح وارشاد کا بڑا کام ہورہا ہے۔
معلومات مستند اور جذبات مخلصانہ ہوں توسوشل میڈیا کا استعمال درست 
جواب۔5؛مجموعی طور پر سوشل میڈیا ایسا عالمگیر پلیٹ فارم ہے کہ اس کے ذریعہ ہر باطل فکر،الحاد وخالق بیزاری،حیوانی تہذیب اور اخلاقی اقدار کی بیخ کنی کرنے والا نہایت تیز اثر رکھنے والا میڑیل بہت پرکشش اسلوب کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے،اب اہل ایمان اسی میدان میں پہونچ کر اس زہرکا تریاق مہیا نہ کریں تووہ لوگ جو اب صرف اس میڈیا کے بند کھول سے باہر آکر کچھ پڑھنے،سننے اور پوچھنے سیکھنے سے دور ہوچکے ہیں ان کا متاثر ہونا یقینی ہے،اس لیے صحیح اصولوں کے ساتھ،حدود کی رعایت کرکے اور خود کو اس کے زہر یلے اثرات سے بچا کر اس عظیم اور وسیع پلیٹ فارم کو اسلام کےحق میں استعمال کیا جاسکتا ہے،مگر معلومات مستندہو،جذبہ مخلصانہ ہو،اسلوب داعیانہ ہو،انتشار پھیلانے سے اجتناب ہواور غیر ضروری بحث طلب موضوعات سے احتراز ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : انسان کا رزق تو پہلے سے لکھا ہوتا ہے ،اب کس کام سے انسان کمائے گا؟ رزق میں کمی یا زیادتی کن وجوہات سے ہوتی ہیں؟
شیخ عامر ۔لال بازار سرینگر
رَزاق کی طرف سے لکھے ہوئے رِزق کے 
حصول کے لئے محنت و مشقت لازمی
جواب : یہ بات بالکل برحق ہے کہ رزا ق اللہ جل شانہٗ ہےاور ہر مخلوق کا رزق لکھا ہوا ہے ،مگر لکھا ہوا ہونے کے یہ معنیٰ ہرگز نہیں کہ انسان چپ چاپ بیٹھ جائے اور لکھا ہوا رزق اُسے خود بخود ملتا رہے گا ،بلکہ اُس لکھے ہوئے رزق کو پانے کے لئے جو محنت مطلوب ہے وہ انجام دینا ضروری ہے ۔اُس کے بعد ہی لکھا ہوا رزق ملے گا ۔اس کے لئے چند مثالیں پیش ہیں۔بیماری میں شفا بھی ملتی ہے اور موت بھی آسکتی ہے۔اگر شفا لکھی ہوئی ہے تو وہ شفا بغیر علاج و معالجہ کے اللہ عطا کرسکتے ہیں مگر اللہ کی مشیت اور سُنت یہ ہے کہ علاج و معالجہ بھی ہو اور ضروری پرہیز بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اُس کے بعد لکھی ہوئی شفا عطا فرمادیتے ہیں۔لہٰذا علاج بھی ضروری ہے اور پرہیز بھی ۔دودھ پیتے بچے کے لئے ماں کی چھاتی اور پستان میں دودھ اللہ پیدا کرتے ہیں مگر دودھ پلانے کا عمل ماں کی ذمہ داری ہے اور پینے کا عمل بچہ خود فطری اور وجدانی طور پر سر انجام دیتا ہے ۔زمین سے ہر قسم کا اناج ،سبزیاں اور قسم قسم کے نباتات اللہ سبحانی تعالیٰ اُگاتے ہیں مگر کاشت کارکو محنت کرنا بھی لازم ہے۔انسان کو زندگی میں طرح طرح کی کامیابیاں ملتی ہیں ،وہ سب کامیابیاں انسان کے لئے لکھی ہوتی ہیں مگر وہ لکھی ہوئی کامیابی انسان کو مطلوبہ محنت کے بعد ہی ملتی ہے ،اور یہ بھی لکھی ہوئی بات ہے ۔لہٰذا ہر کام کے لئے مطلوب محنت کرنا لازم ہے۔رزق کے لکھے ہوئے ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان نہ تو یہ سمجھے کہ مجھے کچھ بھی نہیں کرنا ہے ،جو لکھا ہوا ہے وہ خود ملے گا ،اور نہ ہی انسان یہ سمجھے کہ میں جو کچھ بھی کروں گا ،اُس کے نتیجے میں وہ چیز مجھ کو لازماً ملے گی ،جس کے لئے میں نے محنت کی ہے ،چاہے اللہ نے لکھا ہو یا نہ لکھا ہو ۔انسان کو ہر کام کے لئے ضروری اور مطلوبہ محنت ،جدوجہد اور کوشش کرنی ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھنا ہے کہ اللہ کی مشیت اور مرضی ہوگی تو یہ کام حسنِ انجام کو پہنچے گا اور اللہ کا منشا و رضا نہ ہو تو پھر نتیجہ ہماری ہماری چاہت و کوشش کے خلاف نکلے گا ،اور یہ بھی لکھا ہوا ہوگا ۔رزق کے لئے بھی یہی ضابطہ ہے۔اس کی مزید تفصیلات بڑی کتابوں میں مل سکتی ہیں۔