کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال:- آج کل حرام کمائی اور خرام خوری کا دور دورہ ہے ۔ مزاج اتنا راسخ ہو گیا ہے کہ اب حرام کو اس طرح استعمال کیا جاتاہے جیسے کہ وہ حلال ہے ۔کوئی احساس بھی نہیں ہوتا۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ حرام کی وہ صورتیں جو بہت زیادہ پائی جاتی ہیں ، کیا ہیں؟تجارت ،ملازمت وغیرہ میں کیا کیا چیزیں حرام کمائی کے زمرے میں آتی ہیں ۔
شوکت احمد خان … بمنہ ، سرینگر
حرام کمائی کی صورتیں …تجارت اور ملازمت میں !
جواب:-حرام کمائی کی یوں تو بے شمار صورتیں ہیں لیکن کچھ شکلیں بہت زیادہ رائج ہیں اور ہر شخص ان کو جانتاہے ، سمجھتاہے اور اس کے رائج ہونے سے واقف بھی ہے ۔ان ہی کثیر الوقوع چند شکلوں کو اختصار کے ساتھ ملاحظہ فرمائیے :
(۱لف)- جن چیزوں کی تجارت قرآن یا حدیث میں حرام قرار دی گئی ہے مثلاً شراب ،چرس ، بھنگ اور اس قبیل کی دوسری منشیات وغیرہ ، ان کا خریدنا ، بیچنا حرام ہے ۔ ان اشیاء سے جو روپیہ کمایا جائے وہ حرام ہے ۔
اسی طرح مردار جانور کا گوشت فروخت کرنا حرام ہے اور اُس سے حاصل شدہ رقم حرام کمائی ہے ہاں مردار جانور کی ہڈیاں خشک کی گئی ہوں یا کھال کو دباغت دیا گیا ہو تو ان دو اشیاء کی قیمت حلال ہوگی ۔ شراب صرف پینا اور پلانا یا خریدنا اور فروخت کرنا ہی حرام نہیں بلکہ شراب کا ٹھیکہ ، شراب کی ایجنسی چلانا ، مورتیوں یا مجسّموں کی تجارت بھی حرام ہے چاہے وہ قدیم اور نادر ہوں یا نئے مجسمہ ہوں ۔شراب کی فیکٹری لگانا ،شراب کی فیکٹری میں ملازمت کرنا ،شراب پلانے کی نوکری کرنا ، شراب ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا۔ مثلاً کوئی شخص ٹرک یا لوڈ کیرئر سے شراب دوسری جگہ پہنچائے اور اپنی مزدوری لے کر یہ سوچے کہ میں نہ خود پیتاہوں نہ پلاتاہوں ۔ تو حق یہ ہے کہ یہ سب حرام ہے او ران میں سے ہر شخص کی آمدنی حرام ہے ۔
شراب کی صنعت کو سپلائی کرنے کے لئے مخصوص طور پر انگور یا دوسری کوئی چیز جو صرف شراب بنانے ہی کے کام آئے ، کاشت کرنا اور اس کی آمدنی حاصل کرنا ۔ یہ آمدنی بھی حرام کمائی میں آتی ہے ۔مثلاً کشمیر میں کچھ علاقوں میں Hops پھول ، جنہیں کشمیری میں شراب پوست کہتے ہیں ، کی کاشت صرف اسی غرض کے لئے ہوتی ہے۔ یا منشیات کی کوئی نباتاتی قسم مثلاً خشخاش اور بھنگ یا فکی تو ان اشیاء کی کاشت سے آنے والی آمدنی حرام ہے ۔ شراب یا دیگر منشیات کے بزنس کے لئے جو دستاویز لکھی جائے ۔اس کا لکھنے والا ، گواہ بننے والا اس کام سے جو آمدنی پائے گا ،وہ بھی حرام ہے ۔
(ب)- تجارت میں دھوکہ فریب دے کر پیسہ کمانا ہے مثلاً نقلی یا دونمبر کی اشیاء اصلی کہہ کر فروخت کرنا ، تو زائد رقم حرام ہے ۔ اسی طرح خود ملاوٹ کرکے یا ملاوٹ کی چیز لاکر فروخت کرنا حرام ہے اس پر جو نفع ہوگا وہ بھی حرام کمائی ہے ۔ سامان عمدہ تھا مگر پرانا ہونے کی وجہ سے خراب ہوچکاہے تو اس عیب دار چیز کو فروخت کرنا اور رقم کمانا حرام ہے ۔ اسی طرح مقرر نرخ سے زائد قیمت لینا یا خریدار کی لاعلمی کا فائدہ اٹھاکر زیادہ نفع لینا حرام ہے ۔ اسی طرح ناپ تول میں کمی کرکے جو رقم کمائی جائے وہ حرام کمائی میں ہی آتاہے ۔
تجارت میں اشیاء ضروریہ مثلاً کھانے پینے اور اس طرح کی ضروریات مثلاً گیس وغیرہ کا ذخیرہ کرنا تاکہ بھائو بڑھا کر پھر من مانی قیمتیں وصول کریں ۔ یہ زائد رقمیں بھی حرام کمائی میں داخل ہیں اس لئے کہ یہ ذخیرہ اندوزی کرنا اسلامی شریعت میں حرام ہے ۔
(ج)-ملازمت میں مقررہ وقت سے کم حاضر رہنا او رپھر اُن اوقات کی تنخواہ لینا حرام ہے ۔ جن شعبوں اور اداروں میں ملازمت کرنا حرام ہے ان کی نوکری کرنا اور تنخواہ لینا حرام ۔ مثلاً بنک کی ملازمت ،انشورنس کمپنیوں کی ملازمت ، شراب پلانے کی ملازمت ، اسی طرح ناچ گانے کی ملازمت ، فیشن سیکھنے اور سکھانے کا کام وغیرہ اس پر ملنے والا روپیہ حرام کمائی ہے ۔اسی طرح غیر شرعی کام کرنے والے اداروں کا ایجنٹ بننا،ان کو افراد مہیا کرنا اور اُس پر رقم کمانا حرام کمائی میں داخل ہے ۔
ملازمت میں رشوت چاہے وہ افراد سے لی جائے یا اداروں سے یہ رشوت کی رقم سخت حرام ہے ۔ ملازمت کے دوران ڈیوٹی پر حاضر رہ کر دوسر ا کوئی غیرمتعلقہ کام کرنا اور تنخواہ اپنے مفوضہ کام کی لینا، یہ تنخواہ لینا بھی حرام کمائی ہے ۔
جن اداروں کے ذریعہ اسلام یا مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جائے یا جن محکموں کے ذریعہ اسلام کو ضرور پہچایا جاتاہو اُن اداروں اورمحکموں کی ملازمت حرام اور وہاں سے آنے والی تنخواہ حرام کمائی ہے ۔ وکالت میں جرائم کے مرتکب افراد مثلاً قتل ،زنا ،ماردھاڑ ، چھیڑ خوانی،رشوت خوری وغیرہ کی وکالت کرنا دراصل مجرم کو بچانے پرتعاون دینا حرام ہے او راس پر جو رقم کمائی فیس کے نام پر لی جائے وہ حرام کمائی میں داخل ہے ۔ اسی طرح کسی ظالم کے حق میں وکالت کرنے کا حکم بھی یہی ہے۔ وکالت میں جھوٹا کیس بنانا ،جھوٹی دستاویز بنانا ، جھوٹے بیان حلفی تیار کرانا او رجھوٹی گواہیاں دلوانا اسی حرام کمائی کے زمرے میں آتاہے ۔
سود چاہے بنک سے لیا جائے یا افراد سے لیا جائے اور چاہے نام بدل کرکسی اور عنوان مثلاًنفع ، بونس وغیرہ کا نام دیا جائے وہ حرام اورسخت ترین حرام کمائی ہے ۔ مزدوری میں اپنا مفوضہ کام نہ کرنا اور مزدور پوری لے لینا حرام کمائی میں ہے ۔ سردست اس مختصر کالم میں اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔حرام کمائی کی دوسری شکلیں بہت ہیں وہ آئندہ کبھی تحریر کی جائیں گی ۔ انشاء اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہیں پر گری پڑی کوئی رقم یا چیز
اٹھانےکے متعلق شریعت کا حکم
سوال:اگر کوئی آدمی کہیں پر پڑی ہوئی کوئی رقم یا کوئی چیز اٹھائے،اس کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟راقم نے پڑھا ہے کہ اگر اس کا مالک نہ ملے تو اس کو اصلی مالک کے نام پر صدقہ دے۔مالک معلوم نہ ہو تو یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا مالک غیر مسلم بھی ہو سکتا ہے ۔کیا ایسے مالک کو صدقہ کا کچھ فایدہ ہوگا ،اگر نہیں تو ایسے رقم یا چیز کا مصرف کیا ہے؟
(ابو عقیل ۔ سرینگر)
جواب:جب کوئی شخص کسی جگہ سے کوئی گری پڑی چیز اٹھائے یا کوئی رقم اٹھائے تو شریعت میں اس چیز کو لُقط کہتے ہیں۔اس لُقطہ کا حکم یہ ہے کہ اٹھاتے وقت مالک تک پہونچانے کی نیت سے اٹھائے ،اگر اُس نے خوش ہوکر اپنے استعمال کی نیت سے اُسے اٹھالیا تو اس نیت کی وجہ سے وہ گنہ گار ہوگا اور پھر وہ شخص اس چیز کا ضامن بن جائے گا پھر ضمان کے احکام اس پر جاری ہوں گے جو الگ سے سمجھنے ضروری ہیں ۔اگر اٹھاتے وقت اس کی نیت درست تھی تو یعنی ماک تک پہنچانے کی نیت تھی تو امید ہے اُسے اِس دیانت داری پر اجر ملے گا ۔اب چیز اٹھانے کے بعد وہ اعلان کرے کہ میں نے فلاں چیز اٹھائی ہے جس شخص کی ہو وہ علامت بتاکر وصول کرے۔یہ اعلان تحریری بھی ہو اور تقریری بھی یعنی زبان سے بھی۔اعلان کی مدت کم سے کم دس دن ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک سال۔اگر یہ چیز یا رقم ایک مرغی کی قیمت کے بقدر ہو تو اعلان دس دن ،اگر ایک بھیڑ بکری کے قیمت کے بقدر ہو تو اعلان چھ ماہ یا سال بھر تک کرنے کا حکم ہے۔
اب اگر مالک آگیا اور چیز اٹھانے والے شخص کو یقین ہوگیا کہ واقعتاً مالک یہی ہے تو پھر دو اشخاص کو گواہ رکھ کر یہ چیز اُس کے حوالے کردے ،اگر اس چیز کی حفاظت میں کوئی رقم خرچ ہوئی ہے مثلاً جو چیز لُقطہ تھی وہ کوئی جانور تھا ،اُس کی حفاظت اور گھاس وغیرہ میں کوئی رقم خرچ ہوئی ہے تو مالک سے وہ رقم وصول کرے اور مالک خوشی خوشی وہ رقم ادا کرے۔اس لئے کہ اس طرح کا خرچہ تو خود مالک کو بھی کرنا تھا اگر جانور اُسی کے پاس ہوتا ۔اگر مالک اس عرصہ میں نہ آیا تو پھر یہ لُقطہ اٹھانے والا شخص اگر خود مستحق زکوٰۃ و صدقات ہے تو صدقہ کی نیت سے یہ چیز خود رکھ لے ،اگر بعد میں مالک آگیا تو وہ چیز اُس کے حوالے کردے اور وہ مالک کو یہ بھی کہہ سکتا ہے یہ چیز مدت ِ اعلان گذرنے کے بعد اُس نے اپنے استعمال میں صدقہ کی نیت سے لائی ہے۔اگر مالک نے اس صدقہ کو برقرار رکھا تو بہتر ،اگر اُس نے چیز کا مطالبہ کیا تو وہ چیز اُس کے حوالے کردے وہ خودبری ہوگا۔اور اگر یہ چیز کسی مالدار مسلمان نے اٹھائی ہے تو پھر مدت اعلان کے بعد وہ شخص دو آدمیوں کو گواہ بناکر غریبوں میں سے کسی زیادہ غریب و مفلس کو صدقہ کی نیت سے دے دے۔اگر اُس کے بعد مالک آگیا تو گواہوں کے بیانات سُناکر اُس کو صدقہ کرنے کی اطلاع دے دے۔یہ لُقطہ اگر کسی مسلمان کا تھا تو یہ یہ اُس کی طرف سے صدقہ ہوگا اور اس صدقہ کا اجراُسے آخرت میں ملے گا۔اور اگر بالفرض یہ کسی غیر مسلم کا تھا تو بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیشن کیلئےکتّے پالنا حرام اوراس پر آنے والے
خرچ اور وقت کیلئے اللہ کے حضور حساب طلب ہوگا
سوال :-کُتّوں کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں کتنے مسائل پیدا ہورہے ہیں ،یہ آئے دن اخبارات میں آتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے چند سوالات ہیں ۔
کتوں کے متعلق اسلام کی تعلیمات کیا ہیں ۔ ماڈرن سوسائٹی میں فیشن کے طور پر کتّے پالنے کا رواج روز افزوں ہے۔اس کے متعلق اسلام کا کیا حکم ہے ؟کتّے کا جھوٹا اسلام کی نظر میں کیا ہے ؟کچھ حضرات اصحابِ کہف کے کتّے کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ کتّے رکھنے میںکیا حرج ہے؟ یہ استدلال کس حد تک صحیح ہے ۔ اس سلسلے میں ایک جامع جواب مطلوب ہے ۔
جاوید احمد…سرینگر
جواب: ایمان کی کمزوری ، مقصدحیات سے لاعلمی ، آنکھیں بند کرکے گمراہ قوموں کی نقالی اور سراسر بے فائدہ کاموں میں شوق اور فخر کے ساتھ پھنس جانا اور پھراُس پر خوشی محسوس کرنا ۔ اس صورتحال کا ٹھیک مشاہدہ کرنا ہو تو مارڈنٹی کے خبط میں مبتلا ہوئے اُن مسلمانوں کا حال دیکھئے جو کتّے پالنے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے اوقات ، اپنی رقمیں کس شوق سے کتّوں پرلُٹا رہے ہیں ۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ کیا ہم تم کو اُن سراسر بے فائدہ بلکہ خُسران والے کاموں کی تفصیل بتا دیں جن کاموں میں پھنسے ہوئے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم تو بہت عمدہ اور بہترین کام کررہے ہیں۔(الکہف) ۔
کتوں کے ان خدمت گذاروں کا شوق ، فخر اور اپنے جھوٹے تفوق کو دیکھئے اور اوپر کی آیت کا اُن پر منطبق ہونے کا مشاہدہ کیجئے ۔
قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ جن لوگوں کو آخرت پر ایمان نہیں(اس لئے اپنے شوق اپنی عادت اور اپنی سرگرمیوں میں ان کے پاس آخرت کے لئے کسی تیاری کا کوئی خانہ ہی نہیں ہے۔)۔اُن کے بے فائدہ کام اُن کے لئے ہم مزیدار بنا دیتے ہیں ۔ (النمل)
نام نہاد ماڈرن سوسائٹی کا جنون رکھنے والے یہود ونصاریٰ کی نقالی میں جس شوق او رفخر کے ساتھ کتّوں کی خدمت میں لگے ہوئے اُن کے حالات دیکھ کر اور سُن کر بے اختیار اوپر کی آیات سامنے آتی ہیں جس کام کا نہ دینی فائدہ ، نہ دینوی ، نہ جسمانی فائدہ ، نہ عقلی ، نہ گھریلو فائدہ ، نہ سماجی ، نہ کوئی انسانی فائدہ ہے ، نہ حیوانی اُس کام میں اپنا وقت اپنی محنت ، اپنی دولت لٹانا اور پھریہ سمجھنا ہم نے کچھ کیا یا ہم بھی کچھ ہیں ۔ یہ وہی اوپر کی آیات کا نقشہ ہے جو مشاہدہ کرنے کی دعوت دیتاہے ۔
کتّوں کے نام بینک بیلنس رکھنا ، اُن کی شادیاں کرانا ، ویب سائٹوں کے ذریعے رشتے طے کرنا پھر شادیوں میں ان کو دلہا دُلہن بناکر لاکھوں ڈالر خرچ کرنا ، کتوں کی مارننگ وایوننگ واک کرانے کی لازمی ڈیوٹی انجام دینا ، کتوں کو گھمانے اور سیر وتفریح کے لئے صبح وشام ہزاروں روپے خرچ کرنا ، کتوں کے کلینک کھولنا پھر ان کے علاج معالجے کی فکر اپنے والدین اور بچوں سے زیادہ کرنا اور پھر کتوں کے متعلق بڑے بڑے سٹور ،اُن کے کھانے پینے کے لے قسم قسم کی مصنوعات یہ سب وہ تماشے ہیں جو یورپ میں عام ہیں جہاں اپنی بوڑھی ماں کو دن میں پانچ منٹ دینے کے لئے بیٹا تیار نہیں ہے مگر اپنے کتّے کو چار گھنٹے دینے پر خوش ہے ۔ یہ عدالت کے مقدمہ اورمیڈیا کی رپورٹوں اور وزارتِ قانون کی بحث وتمحیص سے سامنے آنے والے حقائق ہیں ۔ کتّوں کو پالنے کا شوق رکھنے والے ان سچی حقیقتوں پر غور کریں ۔ کیا وہ اس انتظار میں ہیں کہ جو کسی کشمیری نژاد کو برطانیہ میں کرنا پڑتاہے کہ وہ صبح وشام اپنے کتوں کو سیر کرانے لے جاتاہے اور ہاتھوں میں ٹشو پیشر بھی لینا پڑتاہے تاکہ اگر راستے میں اس کے کتّے نے غلاظت کردی تو وہ اپنے ہاتھ سے اُٹھاکر کوڑے دان تک پہنچائے ورنہ سو پونڈ جرمانہ دینا ہوگا ۔
کتوں کے متعلق اسلام کیا کہتاہے ۔ چند حدیثیں ملاحظہ ہوں ۔
بخاری شریف ، مسلم ،ترمذی وغیرہ میں ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے (شوق نہ کہ ضرورت) کی وجہ سے کتّا پالا اُس کے عمل میں سے ہر روز دو قیراط اجر ختم کردیا جاتاہے ۔
مسلم میں حدیث ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس گھر کے لوگ ضرورت کے بغیر کتّا رکھیں اُن سب کے اجر وثواب میں ہر روز دو قیراط کم کرایا جاتاہے ۔ ابن ماجہ میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت کردہ حدیث ہے کہ جو قوم کتّا رکھتی ہے اُن کے ثواب میں سے ہر روز دوقراط ختم کردئے جاتے ہیں ۔قوم سے مُراد پورا خاندان اور ضرورت کی بناء پر کتّاپالنے کا مطلب ہے شکار کی غرض سے یا کھیتی یا مکان یا مویشیوں کی حفاظت کیلئے جیسے بکروال لوگ وغیرہ ضرورت مند ہوتے ہیں ۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضورصلعم نے فرمایا کہ جبرئیل علیہ السلام نے مجھ سے ایک خاص وقت آنے کا ارادہ کیا تھا۔جب وہ اُس وقت پر نہ آئے تو میں نے سوچا کہ اللہ اور اس کے سارے قاصد وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ پھر جبرئیل ؑ کیوں نہیں آئے ۔ اسی کے بعد میں نے دیکھا کتّے کا بچہ ایک کونے میں چھپا بیٹھاہے ۔ جب وہاں سے اُسے نکال دیا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے ۔ حضورؐ نے فرمایا میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ وعدہ کے وقت کیوں نہیں آئے تو جواباً کہا کہ جس گھر میں کتا ہوتاہم اس گھر میں نہیں آتے ۔ ایک دوسری حدیث جو بخاری شریف میں ہے کہ جس گھر میں کتا یا تصویر ہو تو اس گھر فرشتے نہیں آتے ۔
بخاری میں ہے :حضوراکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس برتن میں کتامنہ ڈالے اُس کو سات مرتبہ صبا کرو۔ ایک حدیث میں ہے کہ اُس برتن کو آٹھ مرتبہ دھوئو اور ایک مرتبہ مٹی سے مانجھ لو۔اس لئے یہ بات طے ہے کہ کتّے کا لعاب نجس بھی ہے اور طرح طرح کے جراثیم سے آلودہ بھی ۔اصحاب کہف کے کتّے سے استدلال کرکے کتے پالنے کے شوق کو درست قرار دینے کی کوشش اسلام سے ناواقفی بھی ہے او رایک حرام کام کو حلال بنانے کی تحریف بھی ہے ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی کہے شراب بھی مائع (Liqued)ہے او رپانی بھی۔ قرآن میں پانی کو ماء طہوراکہاہے لہٰذا شراب بھی پاک اور حلال ہے ۔
کتّوں کے متعلق اسلامی قانون وہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا نہ کہ اصحاب کہف کے کتّے سے کئے جانے والا باطل استدلال۔لہٰذا فیشن کی بنیاد پر کتّاپالنا حرام ہے ۔ اس کا جھوٹا نجس ہے ۔ اس پر خرچ ہونے والا روپیہ حرام پر خرچ کرناہے اور اُس پر صرف ہونے والا وقت ضاع عمر ہے اور اس کا بھی قیامت میں حساب دینا ہوگا ۔