کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال:-غسل میں نیت کیا کرنی چاہئے؟غسل کن کن چیزوں سے فرض ہوتاہے ؟غسل میں کتنے فرض ، سنت اور مکروہ ہیں ؟کیا فرض چھوٹ جانے سے غسل ہوتاہے ؟غسل کا صحیح (مسنون)طریقہ کیاہے ؟کیا عورت کے بال بھی غسل میں دھونے ہیں؟ روزے میں کس طرح غسل کریں ؟جمعہ دن غسل کرنا کیساہے ؟اس کاثواب بتائیں ۔
شبیر احمد …اسلام آباد ،کشمیر
غسل کی فرضیت اور مسائل
جواب:-کسی مسلمان کو جب ناپاکی لاحق ہوجائے جس کی بناء پر وہ نماز پڑھنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کے لائق نہیں رہتا۔ اُس ناپاکی سے پاک ہوکر نماز کے قابل بننے کے لئے بھی غسل لازم ہوتاہے اور کبھی وضو لازم ہوتاہے ۔ اب چاہے وضو کرنا ہو یا غسل دونوں میں ایک ہی نیت کرنی ہوتی ہے ۔
غسل کرنے میں دل سے یہ ارادہ کریں کہ میں اپنے جسم کو شریعت اسلامیہ کے بتائے ہوئے حکم کے مطابق پاک کرتاہوں تاکہ میں نماز کے قابل ہوجائوں ۔یہی غسل کی نیت ہے ۔
غسل لازم ہونے کی وجوہات یہ ہیں : احتلام ہونا ۔ یہ مرد کوہو یا عورت کو ۔ اگلی شرمگاہ سے شہوت کے ساتھ منی خارج ہونے کواحتلام کہتے ہیں ۔ اس سے غسل کرنا فرض ہوجاتاہے ۔ دوسرے مرد وعورت کا ہمبسترہونا۔اس میں صرف دخول کرنے سے دونوں پر غسل لازم ہوتاہے چاہے انزال ہوا یا نہ ہوا ہو۔
ان دوامور کے علاوہ عورتوں پر غسل لازم ہونے کی دو وجوہات اور بھی ہیں ۔ ایک حیض آنا ، دوسرے نفاس آنا۔
حیض ہرماہ آنے والے نسوانی عذر کو کہاجاتاہے اور نفاس اُس خون کو کہتے ہیں جو بچہ پیدا ہونے کے بعد آتاہے ۔اس حیض ونفاس میں حکم یہ ہے کہ اس خون کے ختم ہونے کے بعد غسل کرنا لازم ہوتاہے ۔ حیض زیادہ سے زیادہ دس دن اور یا پھرعادت کے ایام کے بقدر ہوتاہے اور نفاس زیادہ سے زیادہ چالیس دن ایامِ عادت کے بقدر ہوتاہے ۔
غسل میں تین فرض ہیں ۔ اچھی طرح غرغرہ کے ساتھ کلی کرنا ، ناک میں نرم ہڈی تک پانی پہنچانا،سارے جسم کے ہر ہر حصے کو پانی سے تر کرنا ۔
غسل میں یہ چیزیں سنتیں ہیں ۔ بسم اللہ پڑھنا ، دونوں ہاتھوں کو دھونا پھر استنجاء کرنا ۔جسم پر اگر ناپاکی لگی ہو تو اُس کو دھونا پھر پورا وضو کرنا ۔پھر سر پر پانی بہانا ۔ اُس کے بعد پہلے دایاں کندھاں پھر بایاں کندھا دھونا۔ پھر پورے جسم پرپانی بہانا ۔ تسلسل کے ساتھ غسل کرنا۔ جسم کو رگڑنا اور مَل مَل کردھونا۔ پورے جسم پر تین بار پانی بہانا ۔ کم سے کم پانی خرچ کرنا یعنی پانی کے اسراف سے بچنا ۔
غسل کرنے کا مسنون طریقہ یہی ہے جیسے غسل کی سنتیں بیان ہوئیں ۔ اسی ترتیب کے مطابق غسل کرنا سنت ہے ۔
غسل کے اخیر میں پھر دوبارہ وضو کرنا ہرگز لازم نہیں ہے ۔ ہاں اگر غسل کے فارغ ہونے پر پیشاب کا قطرے نکل آئیں تو پھر غسل کرنے کے بعد وضو بھی لازم ہوگا ۔
عورت کو اپنے غسل میں سارے جسم کے ساتھ سراور سر کے سارے بال دھونا بھی لازم ہے ۔ ایک بال بھی یا اُس کی جڑ بھی اگر خشک رہ جائے تو غسل نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہربال کے نیچے جنابت کا اثر ہوتاہے ۔
البتہ اگر عورت نے بالوں میں بہت ساری مینڈیاں گندھی ہوں جن کو کھولنا دقت طلب بھی ہو اور وقت طلب بھی جیسے کہ عام طور ہمارے کشمیر میں بکروالوں کی خواتین کرتی ہیں تو اس صورت میں وہ مینڈیاں(لٹیں) کھولنا ضروری نہیں ۔البتہ بالوں کی جڑوں کو ترکرنا ضروری ہے اور یہ ہرحال میں ضروری ہے ورنہ غسل نہ ہوگا ۔
روزے میں غسل اُسی طرح کرناہے جس طرح باقی ایام میں ۔ البتہ کلی میں غرارہ ضروری نہیں ہے ۔ اس لئے جب روزے کی حالت میں غسل کیا جائے تو غرارہ نہ کیا جائے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پانی حلق سے نیچے چلا جائے اور روزہ فاسد ہوجائے ۔
جمعہ کے دن غسل کی بہت فضیلت ہے اور تاکید کے ساتھ غسل کرنے کا حکم احادیث میں موجود ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کا غسل ہرمسلمان بالغ پر لازم ہے ۔ (بخاری ومسلم)
اس لئے حدیث پر عمل کرنے اور سنت انجام دینے کی نیت سے جمعہ کے دن ضرور غسل کرنا چاہئے ۔ ہاں بیماری ، سفر یاپانی سرد ہونے کے باعث غسل نہ کرپائیں تو کم ازکم اس کا احساس اور افسوس ہونا چاہئے کہ ایک سنت پر عمل نہ ہوپایا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-بہو ،ساس ، داماد ،سسر اگر غریب ہوں تو کیا ان کو زکوٰۃ ،عشر یا صدقہ فطر دے سکتے ہیں ؟
غلام عباس شاہ … بانڈی پورہ ، کشمیر
اصول اور فروع کو زکوٰۃ دینا درست نہیں
جواب:-زکوٰۃکی رقوم ساس ، سسر ، داماد ،بہو ،بہنوئی او ربرادرِ نسبتی کو دینا درست ہے بشرطیکہ وہ مستحق ہوں ۔ جیسے دادا ،دادی کو زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے اسی طرح نانا نانی کو بھی زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے ۔ اس لئے اصول اور فروع کو زکوٰۃدینا درست نہیں ہے اصول میں والدین اور والدین کے والدین آتے ہیں جبکہ فروع میں اولاد اور اولاد کی اولاد آتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-کیا زکوٰۃ کسی غیر مسلم نادار شخص کو دی جاسکتی ہے ؟
سوال:۲- کیازکوٰۃ کسی دینی ادارے اور دینی رسالے کو دی جاسکتی ہے ؟
سوال:۳- کیا حج بیت اللہ کے لئے صاحب زکوٰۃ ہونا ضروری ہے ؟
طارق احمد زرگر ولد غلام رسول زرگر…پاندان نوہٹہ ، سرینگر
زکوٰۃ کامصرف
جواب:۱- زکوٰۃ کی رقوم صرف مسلمانوں کا حق ہے ۔ کسی غیر مسلم کو زکوٰۃ کی رقم اگر دی گئی تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی ۔
جواب:۲-کسی دینی رسالے میں زکوٰۃ کی رقم دی گئی تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی ۔
ہاں اُس رقم سے اشاعت دین کا کام ضرور ہوگا مگر زکوٰۃ نئے سرے سے اداکرنا لازم ہوگی ۔ کسی دینی ادارے میں اگر زکوٰۃ غریب بچوں پر خرچ ہوتی ہو تو ایسے دینی ادارے کو زکوٰۃ کی رقم دینا نہ صرف جائز بلکہ بہتر اور افضل ہے اس لئے کہ ایسے ادارے میں زکوٰۃ کے دو فائدے ہوں گے ۔ ادائیگی ٔ زکوٰۃ اور اشاعتِ دین میں تعاون ۔
اگر کسی دینی ادارے میں زکوٰۃ کی رقوم غریب طلباء پر نہیں بلکہ ملازمین کی تنخواہوں پر ، ادارے کی تعمیرات میں ، ادارے کی سٹیشنری کی ضروریات پر خرچ ہوتی ہوںتو ایسے ادارے میں زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی ۔
جواب:۳- حج بیت اللہ کے لئے جورقم درکار ہوتی ہے یقیناً وہ اتنی مقدار کی رقوم ہوتی ہیں جو نصاب زکوٰۃ سے زائد ہوتی ہے ۔ زکوٰۃ کی مقدارنصاب 612گرام چاندی یا اُس کی موجودہ قیمت ہے ۔ اگر حج کے لئے جمع شدہ رقم پر ایک پورا سال گذر چکاہو تو پھر اس پر زکوٰۃ کی ادائیگی بھی لازم ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-عموماً لوگ حمام کے غسل خانوں میں بغیر طہارت کے داخل ہوتے ہیں۔ کیا اس جگہ نماز یا کلمات پڑھنا جائز ہوگا؟
( منظور احمد قریشی …باغات برزلہ)
مساجد کے حمام میں نماز و تلاوت کامسئلہ

جواب: -کشمیر میں مساجد میں غسل خانوں سے ملحق پتھر کی سلو ں کا وہ حصہ جس کو حمام کہاجاتاہے ،دراصل اس کو حمام کہنا ہی غلط ہے او ریہ غلط العوام کی وہ قسم ہے جس سے شرعی مسائل تک متاثر ہوجاتے ہیں ۔ حمام کے معنی غسل خانے کے ہیں ۔ چنانچہ جہاں گرم پانی سے نہانے کا انتظام ہو اور ایک بڑے ہال کو چاروں طرف سے بند کردیا گیا ہو پھر چاروں طرف گرم پانی کے نلکے ہوںیا گرم پانی کا حوض ہو اُس ہال میں داخل ہوکر نہانے کا ،بدن کوگرم کرنے کا کام لیا جاتاہے ۔ اسی کو حمام کہاجاتا ہے۔ حمام دراصل صرف نہانے کا ہوٹل ہے ۔ شرح ترمذی۔ احادیث میں جس حمام میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے وہ یہی حمام ہے ۔ یہاں کشمیر میں مساجد یا گھروں میں جو حصہ پتھر کی سلوں سے تیار شدہ ہوتاہے اس کا اصلی نام صفّہ ہے جس کو یہاں کے شرفاء ’’صوفہ ‘‘کہا کرتے تھے ، جو مسجد نبوی کے صفّہ سے ماخوذ ہے ۔ اُس صوفہ پر نماز ، تلاوت ، تسبیح وغیرہ سب جائز ہے ۔ مساجد میں جو صفہ یعنی یہاں کے عرف میں حمام ہے اُس میں یقینا بے وضو وغسل آدمی داخل ہوتاہے مگر اُس کی وجہ سے وہاں نماز پڑھنا ممنوع قرار نہیں پائے گا۔ جیسے کہ اپنے گھروں میں میاں بیوی کے مخصوص کمرے میں بھی انسان بے وضو وبے غسل ہوتاہے تو اُس وجوہ سے وہاں نماز پڑھنا ممنوع نہیں ہوتا ۔اسی طرح مساجد کے صفہ(حمام)کا معاملہ ہے کہ یہ مسجد کا حصہ بھی ہے مگر مسجد کے حکم میں نہیں ۔اُس گرم حصہ پر اگر صف بچھائی جائے اور اس صف پر سنتیں ، نوافل ،تلاوت ،تسبیح ، ذکر وغیرہ کیا جائے تو یقینا یہ جائز ہے ۔ بلکہ اس کی وجہ سے وہ لغوباتوں کے بجائے محل عبادت بن سکتاہے ۔ ورنہ یہ صفہ طرح طرح کی لغویات کا مرکز بن جاتاہے ۔