کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

روزے کے اہم مسائل
سوال: -روزے کے متعلق جوعمومی مسائل کثیر الوقوع ہیں ، براہ کرم اپنے مفیدکالم میں خود ہی انتخاب کرکے ضرور شائع کریں ۔
اعجاز احمد…بانڈی پورہ
جواب:-روزہ ہرمسلمان مرد عورت پر فرض ہے
بشرطیکہ وہ بالغ ہو ۔ روزہ کو فرض تسلیم کرنااور اس کو خدا کااور اس کے نبیﷺ کا لازم کردہ حکم اعتقاد رکھنا ضروری ہے۔ اس لئے جو شخص رمضان کی یا روزہے کی توہین کرے ، تو وہ شخص ایمان سے محروم ہوسکتاہے ۔مثلاً کوئی یہ کہے ،ہم کو بھوکا پیاسا رکھنے سے اللہ کو کیا ملے گا ، یا روزہ اس وقت فرض تھا جب لوگوں کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ تھا،اس طرح کے جملے بول دینے سے مسلمان کا ایمان ختم ہوجاتاہے۔روزہ کے فرض ہونے کا عقیدہ رکھنا اور پھر اس کو ادا کرنا دونوں لازم ہیں۔یعنی عقید ہ اور عمل دو الگ الگ امور ہیں اور دونوں ضروری ہیں۔ صرف ایک خاص صورت میں روزہ رکھنا منع ہے اور یہ کہ جب کوئی خاتون حیض یا نفاس کی حالت میں ہو تو اس کے لئے روزہ رکھنا منع ہے ۔ یعنی وہ روزہ رکھنا بھی چاہے تو اجازت نہیںاور اگر وہ رکھے گی تو گنہگار ہوگی ۔ حیض ونفاس کی وجہ سے جتنے روزے چھوٹ جائیں ان کی قضا وہ رمضان کے بعد کرے گی اور وقفہ وقفہ سے قضا کرنے کی اجازت ہے ۔ مریض ، مسافر ، حاملہ عورت ، دودھ پلانے والی خاتون ، اسی طرح جس شخص کو بار بار بے ہوشی ہوتی ہو ان افراد کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے جب مریض صحت یاب ہوجائے اور جب مسافر مقیم ہوجائے ۔اسی طرح حاملہ خاتون کا جب وضع حمل ہوجائے اور دودھ پلانے والی کا بچہ جب غذا کھانے لگے تو اب ان کو اُن فوت شدہ روزوں کی قضا کرنا لازم ہوگا ۔
روزہ مؤخر کرنے کی رخصت ہے۔ایسا بوڑھا شخص یا اتنا کمزور فرد جس کے صحت یاب اور روزے کے قابل ہونے کی اب کوئی امید ہی نہ ہو اور یہ یقین ہے کہ بقیہ ایام حیات اسی حالت میں گذاریں گے جس کو فقہ کی اصلاح میں شیخ فانی کہتے ہیں تو اسے اس کی اجازت ہے کہ روزہ چھوڑ دے اور ہر روزے کے عوض میں ایک صدقہ فطر کے بقدر رقم صدقہ کردے ۔ یہ رقم یکمشت دینا بھی درست ہے ۔
رمضان کے روزے کے لئے ہر روزے کی الگ الگ نیت کرنا ضروری ہے ۔ نیت کے لئے دل میں ارادہ کرنا یا سحری کھانا بھی کافی ہے ۔ اگرزبان سے نیت کے الفاظ پڑھے تو یہ بھی بہتر اور افضل ہے ۔ اگر کسی نے نیت نہ کی یعنی روزہ کھنے کا ارادہ نہ کیا اور پورے دن بغیر کھائے پئے رہا تو روزہ ادا نہیں ہوا۔ صبح سحری میں نیت کے بعد بھی کھانے پینے کی اجازت ہے ۔سحری کے وقت ختم ہونے کے بعد ہرگز کچھ کھانا پینا درست نہیں ۔ اگر ختم سحری کو ایک دومنٹ ہوچکے ہوں تو کوئی ایک لقمہ یا قطرہ پانی ہی پی لے تو روزہ ادا نہ ہوگا ۔
سحری کھائے بغیر روز ہ رکھنے کا مسئلہ
اگر کسی نے جان بوجھ کر یا وقت نہ ہونے کی وجہ سے سحری نہ کھائی تو بھی روزہ کی نیت کرے ،اس کا روزہ درست ہوگا ۔ سحری کھانے کی احادیث میں بڑی فضیلت ہے اس لئے بلا عذر کے سحری کو ترک کرنے سے پرہیز کریں۔ چاہے سحری کی نیت سے تھوڑا سا پانی ، دودھ ، چائے ، کھجور ، کوئی پھل یا چند لقمہ ہی کھالے تو سحری کی فضیلت حاصل ہو جائے گی ۔
کوئی ایسی حالت میں صبح اٹھا کہ اس پر غسل لازم تھا تو اب وہ غسل کرے پھر سحری کھائے ۔ تاکہ روزہ بھی ادا ہو اور نماز بھی ۔ اگر وقت کم تھا تو سحری کی نیت سے پانی، دودھ پی لے اور غسل کرے تاکہ نماز وروزہ دونوں ادا ہوسکیں ۔ اگر سحری کھا کر غسل کرنا مشکل ہومثلاً بیمار ہونے کاخدشہ ہو تو پھر پہلے غسل کرے ۔ اگر یہ نہ ہو سکے تو کم سے کم کوئی چیز کھالے یا پی لے اور پھر غسل کرے ۔ اگر پیٹ بھر سحری کھالی اور اب غسل نہ کیا، تو کم از کم طلوع آفتاب سے پہلے پہلے غسل کرکے نمازِ فجر اداکرے ۔ ورنہ اب اس کے بعد غسل کرے گا تو فجر کی نماز سے محروم ہو جائے گا ۔ غسل میں اگر گرم پانی استعمال کیا تو اُمید ہے کہ کوئی خرابی نہ ہوگی ۔
جوشخص یہ کہے کہ ایسی حالت میں سحری کھاکر تیمم کرکے نماز پڑھے ،وہ غلط ہے ۔
دن میں روزہ کی حالت میں کھانا پینا ، بیوی سے جماع کرنا روزے کو ختم کردے گا ۔جس شخص نے ایسا کیا اس کو روزے کی قضاء بھی لازم ہے اور دو مہینے کے مسلسل روزے بطور کفارہ کے رکھنا لازم ہیں ۔یہ حدیث میںصراحتاً موجود ہے ۔
ہاں اگر کسی نے بھول کر کچھ کھایا پا پیا یعنی اپنے روزے دار ہونے کاخیال نہ رہا تو اس کا نہ روزہ ٹوٹا نہ اسکی قضا لازم ہوگی اورنہ کفارہ لازم ہوگا ۔
مسواک کرنے، انجکشن لگوانے اور
دانت نکلوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا:۔
روزہ کی حالت میں مسواک کرنا ، انجکشن لگوانا ، دانت نکلوانا ، خون نکلوانا درست ہے ۔ اس سے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ روزے کی حالت میں احتلام ہو جائے ، خود بخود قے ہوجائے ،کان میں پانی چلا جائے ، منہ میں بلا اختیار دھواں یا کچھ اور چلا جائے تو روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑےگا۔ اس طرح منہ میں لعاب جمع ہوکر معدہ میں چلا جائے تو بھی روزہ درست ہے ۔یا ناک کو سٹک لیا(ناک کا بلغم اوپر کو کھینچ لیا)اور وہ معدہ میں چلی جائے تو روزہ پر کوئی اثر نہ پڑے گا ۔
روزہ میں تیل ، سرمہ ،عطر
پاؤڈر استعمال کرنا درست ہے
روزہ کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کرنے سے روزہ مکروہ ہو جاتاہے ۔ بیوی سے اس طرح بوس وکنا رکرناکہ شہوانیت سے مغلوب ہو نے کا خدشہ ہو ،یہ مکروہ ہے ۔ اگر انزال ہوگیا تو پھر قضا(صرف ایک دن)لازم ہوگی ، کفارہ نہیں۔ اگر بوس وکنار میں جماع کرلیا تو پھر قضا ایک دن اور کفارہ ساٹھ دن بلاناغہ تسلسل کے ساتھ لازم ہوگا ۔ ایسی صورتحال میں بہتر ہے کہ دن میں زوجہ سے دور رہیں ۔ خصوصاًسحری کے بعد یا دوپہر کو ایک بستر پر ہرگز نہ لیٹیں۔
روزہ کی حالت میں نامحرم کو دیکھنا ،ننگے فوٹو دیکھنا، گانے سننا ، گانے گانا ، گالی گلوچ کرنا ،غیبت کرنا ، نماز نہ پڑھنا ، رشوت لینا ، آوارہ پھرنا ، نامحرم کو بلا ضرورت فون کرنا ،فحش باتیں کرنا ،فاحشانہ لباس پہننا ،جس سے دیکھنے والوں میں فحش جذبات اُبھر جائیں ۔ خواتین کا بے پردہ ہوکر باہر پھرنا ، یہ تمام کام حرام ہیں ۔ ساتھ ہی روزے کے اثرات فوائد اور مقصد کو ختم کردیتے ہیں ۔
اسی طرح حرام کمائی سے سحری یا افطار کرنا حرام تو ہے ہی مگر ساتھ ہی روزہ کی روح اور اس کی افادیت کو ختم کرنے والی چیز ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-فجر کی جماعت کب شروع کرنی چاہئے ؟ رمضان میں اگردیر سے جماعت کرتے ہیں تو بہت سارے لوگ انتظار کرتے کرتے تنگ آجاتے ہیں اور کچھ پہلے ہی اپنی نماز علیحدہ پڑھ کر آرام کرتے ہیں۔اس لئے سوال یہ ہے کہ فجر کی جماعت کے لئے اسلام کا حکم کیاہے؟ رمضان میں اور رمضان کے علاوہ دونوں کے متعلق جواب دیجئے۔
عبدالرشید …نوشہرہ ،سری نگر
رمضان میں نمازِ فجر جلد ادا کرنادرست
جواب:-رمضان المبارک کے ایام میں فجر کی نما ز جلد ادا کرنا درست ہے بلکہ بہت افضل ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت رسول کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں فجر کی جماعت اذانِ فجر کے متصلاً بعد اداکی جاتی تھی ۔ چنانچہ اذان اور اقامت ِ فجر کے درمیان اتنا وقفہ ہوا کرتا تھاکہ اطمینان سے ساٹھ سے لے کر سو آیات کی تلاوت کی جائیں ۔
نیز حضرت عائشہ صدیقہؓکا بیان ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر ایسے وقت میں ادا کرتے تھے کہ عورتیں اپنی چادروں کولپیٹ کر واپس ہوتیں تووہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں۔(بخاری، ترمذی وغیرہ)
اس لئے رمضان میں اذان کے دس پندرہ منٹ کے بعد جماعت شروع کرنا بہت بہترہے ۔ رمضان کے علاوہ دیگر ایام میں چونکہ نمازیوں کی اکثریت دیر سے مسجد میں پہنچتی ہے اور اگر اوّل وقت میں جماعت پڑھی گئی تو کچھ لوگوں کو اوّل وقت جماعت کی فضیلت مل جائے گی لیکن اکثریت جماعت سے محروم رہ جائے گی ۔اس لئے پورے سال میں جماعت فجر دیر سے اداکی جائے ۔اس کے متعلق صحیح حدیث ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نمازِ فجر دیر سے پڑھو اس میں اجر زیادہ ہوگا۔ (ترمذی) اس لئے پورے سال میں طلوع آفتاب سے نصف گھنٹہ پہلے جماعت کھڑی کرنا افضل ہے تاکہ حدیث پر بھی عمل ہو اور جماعت میں بڑی سے بڑی ہوسکے ۔ یہی اُمت کا عمومی طرز ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:- روزہ کی حالت میں مسواک کرنا یا ٹوتھ پیسٹ کرنا کیساہے ؟
اشفاق احمد:سرینگر
روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کرنا مکروہ
جواب:۲- روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کرنا مکروہ ہے ۔اس لئے اگر کوئی شخص اس کا عادی ہوتو سحری کے وقت یا افطار کے بعد کرلیا کرے ۔ سحری کھانے اور فجر کی نماز کے بعد سونے کی وجہ سے منہ کا ذائقہ خراب ہوتاہے تو اس کے لئے بہتر ہے کہ مسواک کرلیا جائے ۔