کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

خواتین کے روزہ کے مخصوص مسائل
سوال:-میں ایک خاتون ہوں ۔ میری طرح بہت ساری خواتین کو کچھ نجی قسم کے شرعی مسائل پوچھنے ہوتے ہیں مگر شرم کی وجہ سے پوچھ نہیں پاتیں ۔ چونکہ ماہ رمضان اب آنے والا ہے لہٰذا خواتین کے متعلق روزوں کے مخصوص مسائل بیان کریں ، مہربانی ہوگی ۔
ایک خاتون …سرینگر
جوابات:۔
۱-حیض ونفاس میں روزہ رکھنا منع ہے۔ اگر روزہ رکھنے کی خواہش بھی ہوتو بھی منع ہے ۔
۲-حالت حمل اور حالت شیرخوارگی میں روزہ چھوڑ دینے کی اجازت ہے ۔ اگر روزہ رکھ سکیں تو بہت بہتر ہے ، نہ رکھ سکیں تو بعد میں قضاء کریں ۔
۳-روزہ کی حالت میں سحری سے افطار تک شوہر سے جماع کرنا سخت جرم ہے ۔ اگر شوہر و بیوی نے رضامندی سے ایسا کیا تو دونوں کا روزہ ختم ہوگیا ۔ اب ان دونوں کو ایک روزہ بطور قضا بھی لازم ہے اور ساٹھ روزے بطور کفارہ کے لازم ہیں ۔ یہ ساٹھ روزے مسلسل رکھنا لازمی ہے ۔
اگرشوہر نے جماع کے لئے زبردستی کی تو عورت کو حق ہے کووہ روک دے ۔ وہ اُٹھ کر دوسری جگہ چلی جائے اور سختی سے منع کرے ۔ اگر پھر بھی شوہر جماع کرنے میں کامیاب ہوگیا تو اب شوہر پر قضا وکفارہ دونوں (اکسٹھ دن)لازم ہونگے اور عورت پر صرف ایک دن کی قضاء لازم ہوگی۔ اگر عورت کو معلوم ہے کہ اس کا شوہر قابویافتہ نہیںتو دن میں دور رہنا ہی بہتر ہے ۔
۴-اگر کسی خاتون نے مقام ستر میں اندر کوئی دوا ڈالی تو روزہ ٹوٹ جائے گا ۔
۵-اگر لیڈی ڈاکٹر نے کسی بیماری کے ملاحظہ کے لئے یا حمل کے متعلق کسی بات کے معلوم کرنے کے لئے خشک ہاتھ شرمگاہ کے اندر ڈالا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔ اگر تر انگلی یا دوا لگائی ہوئی انگلی ڈالی گئی تو روزہ ٹوٹ جائے گا ۔
۶-اگر کوئی عورت صبح صاد ق سے پہلے حیض سے پاک ہوگئی تو اب اسے روزہ رکھنا لازم ہے ۔ چاہے وہ صبح صادق سے پہلے غسل نہ بھی کرسکے ۔
۷- اگر صبح صاد ق کے بعد وہ حیض سے پاک ہوئی تو اب روزہ نہیں رکھ سکتی مگر اس دن کچھ کھانا پینا بھی اس کے لئے منع ہے اور اس روز کی بھی بعد میںقضا کرے ۔
۸-تراویح کی نماز جس طرح مردوں کے لئے سنت ہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی سنت ہے اور جیسے مردوں کے بیس رکعت سنت ہیں اسی طرح عورتوں کے لئے بھی بیس رکعات سنت ہیں اور جیسے مردوں کے لئے نماز میں قیام لازم ہے اسی طرح عورتوں کے لئے لازم ہے ۔
۹- روزے کی حالت میں شوہر سے بوس وکنار کرنا، جس سے شوہر کے بے قابو ہونے کا خطرہ ہویا اسے منی خارج ہونے کا خطرہ ہو،مکروہ ہے ۔اسی طرح ایسی باتیں کرنا جن سے شہوانی جذبات اُبھرجاتے ہیں ، یہ بھی مکروہ ہیں ۔ عورت کو لازم ہے کہ وہ خود بھی بچے اور شوہر کو بھی اس کے لئے روک دے ۔
۱۰- حیض ونفاس کی وجہ سے روزہ چھوڑنا لازم ہے مگر دن میں کھلے عام کھانا یا گھر میں بچوں کی موجودگی میں اس طرح کھانا پینا کہ ان کے دل میں رمضان کی عظمت اور روزہ کی ہیت ختم ہونے لگے ، یہ ہرگز درست نہیں۔ اس طرح چھپ کر کھایا جائے کہ گھر کے کسی فرد حتیٰ کہ نابالغ بچوں کو بھی پتہ نہ چلے ۔ اگریہ نہ ہوسکے تو بار بار بچوں کو یہ بتایا جائے کہ روزہ رکھنا ضروری ہے مگر میں بیمار ہوں اس لئے شرمندہ ہوکر مجبور ہوکر کھانا پڑرہاہے ۔
۱۱- حیض کی وجہ سے روزہ ،نماز،تلاوت منع ہے ۔ تسبیح، ذکر ، دعا کی اجازت ہے ۔ اس لئے وضو کرکے صفائی ستھرائی کے ساتھ صاف کپڑے پہن کر جائے نماز پر بیٹھ کر تسبیح ، وظیفہ ، درود شریف اور دعائیں کرنا بہت بہتر ہے اور رمضان کے برکات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ تسبیح میں کلمہ طیبہ ، کلمہ شہادت، کلمہ تمجید، کلمہ توحید پڑھ سکتی ہیں یا کوئی ذکر ہو وہ بھی کرسکتی ہیں۔ درود استغفار بھی درست ہے ۔
۱۲-وہ مسائل جن کا معلوم کرنا ضروری ہے مگر حیاء کی وجہ سے کسی اجنبی نامحرم سے نہ پوچھ سکیں ۔ وہ اپنے شوہر کے ذریعہ پوچھنے چاہئیںیا بلانام کے تحریر بھیج کر کسی قابل اعتماد مستند عالم سے پوچھ سکتی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-جس گھر میں موت واقع ہو ان کے لئے کھانے کا انتظام کرنا کیساہے ، جب کہ اب کمیٹیوں کا رواج چل پڑاہے ۔
ایک سائل
سوگواروں کوکھانا کھلانا جائز
جواب:-جب کسی شخص کی موت ہوجائے تو اس کے پڑوسیوں کے لئے مستحب ہے کہ میت کے پسماندگان کو میت کے غم کی وجہ سے بھوکا نہ رہنے دیں اور اُن کو اپنے کھانے میں شریک کریں ۔ یہ کھانا کھلانا کوئی دعوت نہیں ہے ۔ اس لئے اس کے لئے پُرتکلف اور اہتمام سے مرغن کھانوں کے بجائے معمول کا کھانا کھلاناہی مستحب ہے ۔ چنانچہ حضرت جعفرؓبن ابی طالب کے شہید ہونے پر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جعفرؓ کی بیوی بچوں کے لئے کھانے کا انتظام کرو۔ اس لئے کہ ان کو حادثۂ شدید کا سامناہے ۔کھانا کھلانے کے اس حکم کے لئے کمیٹیاں بنانا، چندہ کرنایا لوگوں پر کوئی مخصوص رقم ماہانہ لازم کرنا یہ نہ شریعت کا حکم ہے اور نہ ہی کہیں بھی مسلمان معاشروں میں اس طرح کی کمیٹیاں بنانے کا کوئی ثبوت ملتاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غسل کی فرضیت اور مسائل
سوال:-غسل میں نیت کیا کرنی چاہئے؟غسل کن کن چیزوں سے فرض ہوتاہے ؟غسل میں کتنے فرض ، سنت اور مکروہ ہیں ؟کیا فرض چھوٹ جانے سے غسل ہوتاہے ؟غسل کا صحیح (مسنون)طریقہ کیاہے ؟کیا عورت کے بال بھی غسل میں دھونے ہیں؟ روزے میں کس طرح غسل کریں ؟جمعہ کےدن غسل کرنا کیساہے ؟اس کاثواب بتائیں ۔
شبیر احمد …اننت ناگ ،کشمیر
جواب:-کسی مسلمان کو جب ناپاکی لاحق ہوجائے جس کی بناء پر وہ نماز پڑھنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کے لائق نہیں رہتا۔ اُس ناپاکی سے پاک ہوکر نماز کے قابل بننے کے لئے بھی غسل لازم ہوتاہے اور کبھی وضو لازم ہوتاہے ۔ اب چاہے وضو کرنا ہو یا غسل دونوں میں ایک ہی نیت کرنی ہوتی ہے ۔
غسل کرنے میں دل سے یہ ارادہ کریں کہ میں اپنے جسم کو شریعت اسلامیہ کے بتائے ہوئے حکم کے مطابق پاک کرتاہوں تاکہ میں نماز کے قابل ہوجائوں ۔یہی غسل کی نیت ہے ۔
غسل لازم ہونے کی وجوہات یہ ہیں : احتلام ہونا ۔ یہ مرد کوہو یا عورت کو ۔ اگلی شرمگاہ سے شہوت کے ساتھ منی خارج ہونے کواحتلام کہتے ہیں ۔ اس سے غسل کرنا فرض ہوجاتاہے ۔ دوسرے مرد وعورت کا ہمبسترہونا۔اس میں صرف دخول کرنے سے دونوں پر غسل لازم ہوتاہے چاہے انزال ہوا یا نہ ہوا ہو۔
ان دوامور کے علاوہ عورتوں پر غسل لازم ہونے کی دو وجوہات اور بھی ہیں ۔ ایک حیض آنا ، دوسرے نفاس آنا۔
حیض ہرماہ آنے والے نسوانی عذر کو کہاجاتاہے اور نفاس اُس خون کو کہتے ہیں جو بچہ پیدا ہونے کے بعد آتاہے ۔اس حیض ونفاس میں حکم یہ ہے کہ اس خون کے ختم ہونے کے بعد غسل کرنا لازم ہوتاہے ۔ حیض زیادہ سے زیادہ دس دن اور یا پھرعادت کے ایام کے بقدر ہوتاہے اور نفاس زیادہ سے زیادہ چالیس دن ایامِ عادت کے بقدر ہوتاہے ۔
غسل میں تین فرض ہیں ۔ اچھی طرح غرغرہ کے ساتھ کلی کرنا ، ناک میں نرم ہڈی تک پانی پہنچانا،سارے جسم کے ہر ہر حصے کو پانی سے تر کرنا ۔
غسل میں یہ چیزیں سنتیں ہیں ۔ بسم اللہ پڑھنا ، دونوں ہاتھوں کو دھونا پھر استنجاء کرنا ۔جسم پر اگر ناپاکی لگی ہو تو اُس کو دھونا پھر پورا وضو کرنا ۔پھر سر پر پانی بہانا ۔ اُس کے بعد پہلے دایاں کندھاں پھر بایاں کندھا دھونا۔ پھر پورے جسم پرپانی بہانا ۔ تسلسل کے ساتھ غسل کرنا۔ جسم کو رگڑنا اور مَل مَل کردھونا۔ پورے جسم پر تین بار پانی بہانا ۔ کم سے کم پانی خرچ کرنا یعنی پانی کے اسراف سے بچنا ۔
غسل کرنے کا مسنون طریقہ یہی ہے جیسے غسل کی سنتیں بیان ہوئیں ۔ اسی ترتیب کے مطابق غسل کرنا سنت ہے ۔
غسل کے اخیر میں پھر دوبارہ وضو کرنا ہرگز لازم نہیں ہے ۔ ہاں اگر غسل کے فارغ ہونے پر پیشاب کا قطرے نکل آئیں تو پھر غسل کرنے کے بعد وضو بھی لازم ہوگا ۔
عورت کو اپنے غسل میں سارے جسم کے ساتھ سراور سر کے سارے بال دھونا بھی لازم ہے ۔ ایک بار بھی یا اُس کی جڑ بھی اگر خشک رہ جائے تو غسل نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہربال کے نیچے جنابت کا اثر ہوتاہے ۔البتہ اگر عورت نے بالوں میں بہت ساری مینڈیاں گندھی ہوں جن کو کھولنا دقت طلب بھی ہو اوردقت طلب بھی جیسے کہ عام طور ہمارے کشمیر میں بکروالوں کی خواتین کرتی ہیں تو اس صورت میں وہ مینڈیاں(لٹیں) کھولنا ضروری نہیں ۔البتہ بالوں کی جڑوں کو ترکرنا ضروری ہے اور یہ ہرحال میں ضروری ہے ورنہ غسل نہ ہوگا ۔
روزے میں غسل اُسی طرح کرناہے جس طرح باقی ایام میں ۔ البتہ کلی میں غرارہ ضروری نہیں ہے ۔ اس لئے جب روزے کی حالت میں غسل کیا جائے تو غرارہ نہ کیا جائے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پانی حلق سے نیچے چلا جائے اور روزہ فاسد ہوجائے ۔
جمعہ کے دن غسل کی بہت فضیلت ہے اور تاکید کے ساتھ غسل کرنے کا حکم احادیث میں موجود ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کا غسل ہرمسلمان بالغ پر لازم ہے ۔ (بخاری ومسلم)
اس لئے حدیث پر عمل کرنے اور سنت انجام دینے کی نیت سے جمعہ کے دن ضرور غسل کرنا چاہئے ۔ ہاں بیماری ، سفر یاپانی سرد ہونے کے باعث غسل نہ کرپائیں تو کم ازکم اس کا احساس اور افسوس ہونا چاہئے کہ ایک سنت پر عمل نہ ہوپایا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خضاب کا استعمال اور ادائیگیٔ سنت
سوال:- داڑھی او رسر کے بال سفید ہونے کی صورت میں اگر کوئی شخص سفید بال چھپانے اور زینت کی غرض سے بازار میں ملنے والے لال رنگ کا استعمال کرے ۔ کیا یہ جائز ہے اورکیا اس پر مہندی کے خضاب کی سنت کا ثواب ملے گا ؟
حافظ رفیق احمد وانی …قاضی پورہ
جواب:-مردوں کے لئے سر اور داڑھی کے سفید بالوں میں مہندی کا خضاب لگانا بلاشبہ سنت ہے ۔ اگر کسی شخص نے مہندی کے بجائے لال رنگ یا مہندی جیسا رنگ بطورخضاب استعمال کیا تو یہ بھی جائز ہے لیکن کیا اس سے سنت کی ادائیگی ہوجائے گی ، یہ یقینی نہیں ہے ۔ایک حدیث میں زعفران کا رنگ لگانے سے منع کیا گیا ہے۔
ملاحظہ ہو داڑھی اور انبیاء کی سنتیں ۔