کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال : ہمارے معاشرے میں تقسیم ِ وراثت کے سلسلے میں بہت ظلم اور طرح طرح کی سنگین غلطیاں پائی جاتی ہیں۔کبھی کبھی ایک بھائی پوری وراثت پر قابض ہوتا ہے اور دوسروںکو محروم کردیتا ہے ۔کبھی اولاد ساری وراثت لے کر ماں کو محروم کرتے ہیں ،کبھی بھائی اپنی بہنوں کو کوئی حصہ دینے کو تیار نہیں ہوتے،کبھی بڑابھائی چھوٹے بھائی پر ظلم کرتا تو کبھی بہنوں سے کہا جاتا ہے کہ اگر تم نے حصہ لیا تو پھر میکے سے تمہارا تعلق ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا ،کبھی غلط کاغذات اور وصیت نامے بناکر مستحق وارثوں کو محروم کرنے کا اقدام کیا جاتا ہے ۔اس لئے اس سلسلے میں شریعت اسلامیہ کی رہنمائی کی ضرورت ہے ۔
محمد یوسف ۔لیکچرر گورنمنٹ کالج ،رفیع آباد
تقسیم ِوراثت حُکم ِقرآن
خلاف ورزی کرنے والے کیلئے جہنم کی وعید
جواب :اسلام نے جیسے زندگی کے تمام مسائل کے احکام تفصیل سے بیان کئے ہیں ،اُسی طرح کسی مسلمان کے مرنے پر اُس کی متروکہ املاک اور تمام جائیداد کی تقسیم کے متعلق بھی احکام بیان کئے ہیں،اس کو تقسیم ِوراثت کہتے ہیں۔قرآن کریم میں سخت تاکید کے ساتھ وراثت تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے اور جو لوگ قرآن مجید کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق وراثت تقسیم نہ کریں اور ہر مستحق کو اُس کا حق نہ دیں ،اُن کے لئے دنیا و آخرت میں سخت خطرناک وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔تقسیم وراثت میں والدین،اولاد اور پھر اولاد میں بیٹوں اور بیٹیوں اور میاں بیوی کو ہر حال میں مستحق قرا دیا گیاہے ۔اس لئے والدین کی وفات ہو تو اولاد میں ہر ہر بیٹے اور ہر ہر بیٹی کو حق ِ وراثت حاصل ہے۔اسی طرح اولاد میں سے کسی کی وفات ہو اور والدین زندہ ہوں تو اولاد کے ترکہ میں سے والدین کو وراثت لینے کا حق ہے۔اسی طرح جو بھی مسلمان فوت ہوجائے ،اُس کے ورثا ء،وراثت کے مستحق قرار پاتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کس صورت میں کس وراثت کا کتنا حق ہے ؟یہ بھی قرآن کریم میں بیا ن ہوا ہے۔لہٰذا ہر مسلمان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ کر بھی رکھنا ہے اور عمل بھی لازم ہےکہ جوں ہی کسی کی وفات ہوجائے تو سب سے اہم مسئلہ اُس فوت ہونے والے شخص کے ترکہ کو صحیح طور پر ورثاء میں تقسیم کرنا ہے۔
کسی شخص کا اپنی بیٹی یا بہن کو یہ کہنا کہ اگر تم نے وراثت لی تو میکے سے رشتہ ختم ہوجائے گا ،یہ سراسر غیر اسلامی بلکہ کافرانہ سوچ ہے ۔بیٹی کا رشتہ اپنے والدین اور بہن کا رشتہ اپنے بھائیوں کے ساتھ ہر حال میں قائم رہتا ہے ،یہی اسلام ہے اور یہی اخلاق ہے۔والد کی وفات ہوجائے تو اُس کی چھوڑی ہوئی املاک جس کومال ِوراثت کہتے ہیں ،ہر بیٹے کو مساوی حصہ ہے جبکہ بیٹی کو بیٹے کے حصے سے نصف لینے کا حق ہے۔نہ کسی بھائی کو حق ہے کہ وہ اپنے بہن بھائی کو محروم کرے اور نہ اولاد کو حق ہے کہ وہ والدین میں سے کسی کو اُس حق سے محروم کرے،جو قرآن نے اُن کو حصہ دیا ہے۔
اگر کسی بھی ایک وارث نے پورے ترکہ پر قبضہ کرلیا اور دوسرے ورثا ء،چاہے وہ والدین ہوں ،اولاد ہو یا بہن بھائی ہوں ،کو محروم کردیا تو اُس کے پاس جو سارا مال ِ وراثت ہے ،وہ حرام ہے اور یہ ایسا ہی حرام ہے جیسے چوری یا رشوت کا مال حرام ہوتا ہےیا جیسے غصب اور سود کا مال حرام ہوتا ہے۔اُسے صرف اتنا استعمال کرنا اوراپنے قبضے میں رکھنا جائز ہے جو تقسیم شرعی کے بعد اُس کا حق بنتا ہو ۔بقعہ سارا اُس کے پاس حرام ہے۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا بلکہ اعلان فرمایا کہ اللہ نے ہر وارث کا حق اور حصہ مقرر فرما دیا ہے،اب کسی وارث کے حق میں کوئی وصیت نہیں۔اگر کسی شخص کی وفات ہوگئی اور سارے ترکہ پر کوئی قابض ہوا ،اور دوسرے ورثاء کو محروم کردیا تو قابض اور اُس کی نسل در نسل کے ذمے یہ حق وراثت باقی رہتا ہےاور اس کے معاف ہونے کی کوئی صورت نہیں۔ وراثت کا قانون بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ترجمہ۔یہ اللہ کی مقرر کردہ حد یعنی حکم ہے جو اس حکم میں اللہ کی اطاعت کرے گا ،اُس کو جنت میں داخل کرے گا اور جو اس حد میں تعدی کرے یعنی حکم پر عمل نہ کرے ،اُس کو جہنم میں داخل کرے گا ۔(سورہ النسا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : آج کل یہاں ایک اہم مسئلہ بے شمار علاقوں میں موضوع بحث ہےاور وہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں بہت ساری مساجد کاہچرائی ،جنگلات و شاملات وغیرہ کی اراضی پر بنی ہوئی ہیں۔عرصۂ طویل سے اُن میں نمازیں ادا ہورہی ہیں۔اب سوال ہر جگہ اُٹھتا ہے کہ کیا ان مساجد میں نمازیں درست ہیں،جبکہ اُن مساجد کے نیچے جو زمین ہے ،وہ باقاعدہ مسجد کے نام پر الاٹ نہیں ہے۔امید ہے کہ اس اہم سوال کا جواب تحریر کریں گے ۔
محمد افضل لون ۔کنگن
کاہچرائی وشاملات کی اراضی پر قائم مساجد کا معاملہ
روئے زمین پر کسی بھی جگہ نماز پڑھنا درست
جواب : حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے تمام دیگر انبیا ئے کرام پر پانچ چیزوں میں فضیلت دی گئی ہے ۔اُن میں سے ایک یہ کہ تمام روئے زمین میرے لئے مسجد بنادی گئی ہے۔ایک حدیث میں فرمایا کہ مجھے چھ چیزوں میں تمام انبیائے کرام پر فضیلت اور برتری عطا کی گئی ہے ۔اُن میں سے ایک یہی ہے کہ تمام زمین آپ کے لئے مسجد بنادی گئی ۔یہ حدیث بخاری و مسلم میں ہے۔ترمذی شریف میں حدیث ہے کہ روئے زمین تمام کی تمام مسجد ہے۔ ان احادیث کی بنا پر اسلامی اصول یہ ہے کہ مسلمان جہاں بھی نماز پڑھے گا ،اُس کی نماز یقیناًادا ہوگی ۔ہاں !اگر کسی فرد کی زمین غصب کی گئی اور وہ شخص اُس مغصوبہ زمین میں نماز پڑھنے کی بھی اجازت نہ دیتا ہو تو اُس قطعہ میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے،باقی ہر جگہ نماز درست ہے۔ اسی لئے کھیتوں ،باغوں پارکوں ،پہاڑوں ،کھلے میدانوں ،ائر پورٹ ،ریلوے اسٹیشن ،بس اڈے ،گھروں ،سڑکوں کے کناروں ،دکانوں ،دفتروں ،سکولوں میں غرض ہر جگہ نماز درست ہے،جیسے یہ نمازیں درست ہیں اُسی طرح اُن تمام مساجد میں نماز یقیناً درست ہے جو مساجد کاہچرائی ،جنگلات ،آبادی دیہہ ،شاملات ،نزول وغیرہ کی زمینوں میں بنائی گئی ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرا مسئلہ بھی اِسی سے جُڑا ہوا ہے ،اور وہ یہ کہ کیا ان کو شرعی مساجد کہہ سکتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر اُس مسجد کے تمام متعلقہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ اُس مسجد کے متعلق ضروری تفصیلات کسی مستند اور ماہر مفتی کو پیش کرکے یہ فیصلہ کرائیں کہ نماز اگرچہ درست ہے مگر اس مسجد کو شرعی مسجد بنانے کے لئے ہم کو کیا اصول و ضوابط پورے کرنے ہیں اور یہ بات اہمیت سے ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ اس مسجد کو شہید کرنا بھی درست نہیں ہے جس کی زمین درج بالا اقسام میں سے کوئی قسم ہو ،اور اخیر میں اس مسجد کو شہید کئے بغیر اس کے نیچے کے قطعہ زمین کا اگر معاوضہ ادا کرنا پڑے ،چاہے بصورت زمین متبادل دیا جائے یا بصورت رقوم مناسب قیمت دی جائے تو مسجد کے منتظمین کو عام مسلمانوں کے تعاون سے یہ کرنا لازم ہوگا۔ مسجد شہید کرنا اس لئے درست نہیں کہ یہ سوال صرف زمین کے متعلق ہے ،اُس کے اوپر جو تعمیر ہے وہ عام مسلمانوں کے مالی تعاون سے ہے،اور اس کو ضائع کرنا ہرگز درست نہیں،یعنی شہید کرکے تعمیر پر خرچ شدہ لاکھوں کی رقوم کو ضائع کرنے کے بجائے زمین کا عوض یا متبادل دے کر اُس کو جواز کے دائرے میں لانے کا حکم ہے۔خلاصہ یہ کہ ان مساجد میں نماز درست ہے نیز ان کو شرعی مساجد بنانے کے لئے ضروری ضابطہ کی کاروائی لازم ہےاور شہید کرنے کے بجائے زمین کو مسجد کے نام اندراج کرانے کے اقدامات بھی ضروری ہے۔ یہ ذمہ داری مسجد کی انتظامیہ اور عام مسلمانوں کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عیب دار مال کاعیب بتائے بغیر
فروخت کرنا شرعی طور پر سخت منع
سوال:۱-اگرکوئی شخص تجارت میں فروخت ہونے والے سامان کی خرابی اور کسی عیب کوچھپائے اور خریدار کو یہ جتلا کر فروخت کرے کہ وہ سامان اچھا ہے تو اس کے لئے قرآن وحدیث میں کیا حکم ہے ؟
سوال:۲- کئی تاجر لوگ بہت قسمیں کھاکرمال کانرخ بتاتے ہیں ۔خریدار قیمت میں کمی کرنے کا اصرار کرتاہے تو دوکاندار مزید قسمیں کھاتاہے ۔یہ قسمیں کبھی سچی ہوتی ہیں اور کبھی جھوٹی ۔اس طرح قسمیں کھاکرمال فروخت کرنا بڑی تعداد میں بازاروں اور دوکانوں میںعام ہے ۔اس بارے میں قرآن وحدیث میں کیا حکم ہے ؟
عبدالرشید …ایک دوکاندار،سرینگر
جواب:۱-عیب دار اور خرابی والا سامان عیب بتائے بغیر فروخت کرنا شرعی طور پر سخت منع ہے ۔قرآ ن کریم میں ارشاد ہے ۔ ترجمہ :
اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقوں سے مت کھائو ۔عیب دار چیز فروخت کرنا اور ظاہر ہے اُس کی قیمت زیادہ لی جائے گی تو وہ چیز بیچ کر جو زائد قیمت لی گئی وہ باطل طرح سے کھاناہے اور وہ حرام ہے ۔نیز حدیث میں ہے کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ خرابی اور عیب بتائے بغیر کوئی چیز فروخت کرے او رکسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے سامان کا عیب جاننے کے باوجود اُس پر پردہ ڈالے ۔ بخاری ، مستدرک حاکم، ابن ماجہ ۔ایک حدیث میں ہے ۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا جوشخص عیب دار چیزیں فروخت کرے او ر عیب کو ظاہر نہ کرے وہ اللہ کی ناراضگی اور غضب میں رہتاہے ۔اور ایک حدیث میں ہے کہ ایسا شخص ہروقت فرشتوں کی لعنت میں رہتاہے ۔
قسمیں کھا کھا کر مال بیچنے کا معاملہ
جواب:۲-قسمیں کھانے کے متعلق قرآن میں ارشاد ہے ۔ ترجمہ: تم اللہ کو اپنی قسموں کا نشانہ مت بنائو۔یعنی ضرورت بے ضرورت قسمیں مت کھائو اور اس میں غلط قسمیں کھانا بھی شامل ہے۔
حدیث میں ہے حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تین شخصوں پر نظر رحم نہیں کرتاہے ۔ ان میں سے ایک وہ شخص جو قسمیں کھاکھاکر اپنا مال بیچتاہے ۔ یہ حدیث ترمذی ،ابودائود، نسائی میں ہے۔
دوسری حدیث میں ہے حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے تاجرو! تم مال بیچنے میں زیادہ قسمیں کھانے سے پرہیز کرو۔نسائی ۔ ایک حدیث میں ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے تاجرو! تجارت میں غیر ضروری اور لغو باتیں کرنی پڑتی ہیں اور قسمیں کھائی جاتی ہیں ۔ اس لئے تم کثرت سے صدقہ کرو ۔یہ حدیث ترمذی وغیرہ میں ہے ۔اللہ کی ذات کے علاوہ ہرچیز کی قسم کھانا منع ہے ۔ حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم کھائی اُس نے شرک کیا ۔ اس پر غیر اللہ کی قسم کھانے سے پرہیز کرناضروری ہے اور سخت مجبوری میں جب قسم کھانے کی ضرورت پڑے تو سچی بات پر قسم کھائی جائے اور صرف اللہ کی قسم کھائی جائے اور جھوٹی قسم کھانے سے پرہیز کیا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔