کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال:-آج کل قسم قسم کے مقابلے ہوتے ہیں۔مثلاً اسکولوں میں مختلف مقابلے ، جن میںسیرت کوئز بھی شامل ہے ،منعقد ہوتے ہیں ۔اس میں سیرت رسولؐ کے بارے میں کچھ اچھوتے سوالات پوچھے جاتے ہیں ۔ اسی طرح قرآن کے متعلق بھی مختلف سوالات کئے جاتے ہیں جن میں بعض سوالات انوکھے ہوتے ہیں۔ان مقابلوں کا بالعموم مقصد اسلام، قرآن اورسیرت پاک ؐکے بارے میں طلبہ میں دلچسپی کو جگانا ہوتاہے ۔ یہ سلسلہ کیساہے؟
سجاد احمد…سرینگر
دینی معلومات کیلئے علمی مقابلے منعقد کرانامفید
جواب:-دینی معلومات کے لئے اس طرح کے علمی مقابلے یقیناً دُرست ہیں ۔ خود حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی حضرات صحابہؓ سے سوالات فرماتے تھے کہ وہ اپنے علم وفہم سے جواب دیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے پوچھا : درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے جو مومن کے مشابہ ہے ،بتائو وہ کون سا درخت ہے ؟ صحابہ سوچتے رہے مگر جواب نہ دے سکے ۔اس کے بعد آپؐ نے ارشاد فرمایا وہ کھجورکادرخت ہے ۔ بعد میں حضرت عبداللہ نے اپنے والد گرامی حضرت عمرؓ سے عرض کیا کہ اس سوال پر میرے ذہن میں یہی جواب آیا تھاکہ وہ کھجورکادرخت ہے مگر میں اپنے چھوٹے پن کی وجہ سے ہمت نہ کرسکا اور شرما گیا اس لئے خاموش رہا کہ بڑوں کی موجودگی میں کسی چھوٹے کا بولنا بے ادبی ہے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے صاحبزادے کی یہ بات سن کر فرمایا ۔ کاش تم نے جواب دیا ہوتاتو مجھے زیادہ خوشی ہوتی ۔ یہ حدیث بخاری ومسلم میں ہے ۔ اب کھجورکے درخت کو مومن کے ساتھ تشبیہ دینے کی وجہ کیا ہے ؟ یہ ایک تفصیلی بحث ہے جو حدیث کی شروحات سے معلوم ہوسکتی ہیں ۔بہرحال علمی ترقی کے لئے اس طرح سوالات کرنا دُرست ہے ۔ کوئز چاہے قرآن وسیرت کی معلومات سے متعلق ہوں یا کسی دوسرے شعبۂ دین سے متعلق بہرحال مفید ہیں ۔ مگر اس میں چند باتیں اصلاح طلب ہیں۔ بے فائدہ معلوماتی سوالات کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔مثلاً بتائیے قرآن میں شیطان کا لفظ کتنی بار آیاہے ۔ یہ ایک بے فائیدہ سوال ہے ۔ اس کے مقابلے میں مثلاً روزہ کا حکم قرآن میں کتنی مرتبہ آیا ہے ۔ یہ ایک مفید سوال ہے یا کہ فرعون کا لفظ کہاں کہاں ہے ۔یہ بے فائدہ سوال ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بات ضروری ہے کہ سوال کا جواب دینے والے خود اپنی محنت اور مطالعہ سے جوابات پیش کریں ۔ دوسروں سے پوچھ کر جواب دینا اس مفید سلسلہ کی افادیت کو ختم کردیتاہے ۔
ظاہرہے کہ کوئز کا مقصد مطالعہ کا ذوق پیدا کرنا ، معلومات حاصل کرنے کا مزاج بنانا اور کتابوں کی ورق گردانی اور محنت وسعی کا خُوگر بنانا ہے ۔اب اگر سوالات کا پرچہ لے کر ایک دوسرے سے معلومات اکٹھی کی گئیں تاکہ متوقع انعام حاصل کریں تو یہ بے فائیدہ کام ہے ۔ اس میں ممکن ہے انعام مل جائے مگر جس ذوق کی آبیاری ہونی چاہئے تھی وہ تن آسانی اور دوسروں سے معلومات لے کر خود مطالعہ وتحقیق نہ کرنے کے سست مزاج کی وجہ سے مفقود ہوگیا ۔
لہٰذا کوئز تیار کرنے والے اس پہلو کو ضرورملحوظ رکھیں کہ جواب دینے والے دوسروں سے پوچھنے کے بجائے خود مطالعہ ومحنت پر مجبور ہوجائیں ۔ کبھی سوالات مرتب کرنے والے خود کوئی کتاب لے کر انوکھے قسم کے سوالات جمع کردیتے ہیں جب کہ خود اُن کو بھی اس قسم کے سوالات کے جوابات دینے کی اہلیت نہیں ہوتی مگر کتاب کے سہارے سوالات مرتب کردیئے گئے اور اب وہ دوسروں سے جوابات کے منتظر ہوتے ہیں ۔
سوالات مرتب کرنے میں انوکھے پن کے بجائے افادیت کے پہلوکو اور اس سے زیادہ فکری پہلو کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہئے ۔یہ فکری پہلو ایمانی ،عباداتی ، اخلاقی او راصلاحی ہو۔ مثلاً یہ سوال کہ بتائیے قرآن کی وہ کون سی سورت ہے جس میں نبی (علیہ السلام) سے کہا گیا کہ آپ کا فروں سے کہئے تمہارا دین الگ میرا دین الگ ہے ۔یا یہ سوال کہ بتائیے وہ کون سی سورت ہے جس میں اُن نمازیوں کے لئے ویل (بربادی)بیان کی گئی ہے جو نماز میں سستی وغفلت برتتے ہیں ۔ وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-زید نے کچھ زمین خرید لی اور دوسال میں زمین بیچ ڈالی او راس پر کچھ منافع بھی کمایا۔اب سوال یہ ہے کہ زید کی جواصل رقم ہے اُس پر اور جو کچھ منافع کمایا اُس پر کیا زکوٰۃ واجب ہے ۔ اگرزکوٰۃ واجب ہے تو اصل رقم اور منافع کی رقم کی زکوٰۃ کس طرح نکالی جائے گی ۔ جب کہ کہاجاتاہے زمین پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی ہے ۔
سوال :۲-مسلمانوں کا ایمان ہے کہ موت برحق ہے اور موت اپنے وقت پر آتی ہے اور چونکہ مسلمانوں کی زندگی کا مقصد آخرت میں سرخروئی ہے تو پھر ہم لوگ کسی کی موت پر کیوں روتے اور ماتم کرتے پھرتے ہیں۔کہیں یہ ہم شریعت کے خلاف تو نہیں کرتے ؟
شوکت حسین …بٹہ مالو ،سرینگر
برائے فروخت اراضی پر زکوٰۃ لازم
جواب:۱-زمین خریدنے کے وقت اگر نیت یہ تھی کہ اس زمین پر فصل اُگائی جائے گی یا باغ لگایا جائے گا یا اس زمین پر مکان یا دوکان تعمیر کی جائے گی تو اس صورت میں اس زمین پر زکوٰۃ لازم نہ ہوگی اور اگر زمین خریدتے وقت یہ نیت تھی کہ اس زمین کو فروخت کیا جائے گا تو اس صورت میں یہ زمین ایسے ہی ہے جیسے دوکان کا مالِ تجارت ہوتاہے ۔ اس صورت میں اس زمین کی قیمت پر بہرحال زکوٰۃ لازم ہوگی او رجس وقت زکوٰۃ اداکرنی ہواُس وقت اس زمین کی جو قیمت مناسب ہواُس پرزکوٰۃ لازم ہوگی۔ چاہے یہ قیمت کم ہویا زیادہ ۔اور چاہے سالہاسال تک یہ زمین فروخت نہ ہوسکے مگر چونکہ نیت فروخت کرنے کی ہے اس لئے ہرسال اُس کی قیمت پرزکوٰۃ اداکرنا ضروری ہے ۔ پھر جب زمین فروخت ہوجائے تو اس کی پوری قیمت فروخت پر اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ اداکرنا لازم ہے۔ یعنی ایک لاکھ میں اڑھائی ہزار روپے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کی وفات پر غمزدہ اور اشکبار ہونا
اسلام، عقل اورفطرت کے منافی نہیں
جواب:۲-ہرشخص کی موت طے ہے اور وہ وقت مقررہ پر آنابھی طے ہے ۔ اُس میں نہ تاخیر ہوسکتی ہے نہ تقدیم لیکن انسان فطرتاً جدائیگی پر غم زدہ ہوتاہے ۔ چنانچہ حضرت سید المرسلین علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صاحب زادۂ گرامی حضرت ابراہیم کی وفات ہوئی جب کہ وہ ابھی شیر خوارگی کی عمر میں تھے توحضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آنکھوں سے بے اختیار آنسو گرنے لگے ۔
ایک صحابی حضرت عبدالرحمٰنؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا آپ بھی رو پڑے۔ارشاد ہوا یہ وہ محبت ہے جو اللہ نے ہر دل میں رکھی ہے ۔ گویا غم زدہ ہونا ، اشکبار ہونا عمل رسولؐ سے ثابت ہے۔ لہٰذا کسی کی وفات پر غمزدہ ہونا ، بے اختیار آہیں بھرنا اور اشکبار ہونا نہ اسلام کے خلاف ہے نہ عقل انسانی کے خلاف ہے اور نہ فطرت انسانی کے منافی ہے ۔ ہاں بناوٹی انداز میں چیخ وپکار کرنا ، چہرہ پیٹنا ، کپڑے پھاڑنا ،بال نوچنا اور واویلا کرنا حدیث کی رُو سے منع ہے۔ چنانچہ ارشاد نبویؐ ہے کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو چہرا پیٹے ، کپڑے پھاڑے اور جاہلانہ انداز کی چیخ و پکار کرے ۔(بخاری ومسلم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-انسان بکثرت دعائیں کرتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتیں ۔اس پر تعجب بھی ہوتا، مایوسی بھی ہوتی ہے ، پریشانی بھی ہوتی اور بہت سارے لوگ تو اللہ سے نااُمید ہوکر دعا مانگنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ اب ہمارا سوال یہ ہے کہ دعا قبول نہ ہونے کی وجوہات اور اسباب کیا ہوسکتے ہیں۔تفصیل سے بتائیں۔
دعائوں کی عدم قبولیت…اہم اسباب
اویس احمد… جموں
جواب:-ایمان والا جب بھی دعا کرتاہے تو اس کو دعا کے عبادت ہونے کی وجہ سے اُسے اجر وثواب ضرورملتاہے ۔ چاہے وہ مقصد حاصل ہویا نہ ہو اور اُس کی طلب کردہ چیز ملے یا نہ ملے ۔ثواب بہرحال ملتا ہے ۔حدیث میں ہے دعا عبادت ہے اور ایک حدیث میں ہے دعا عبادت کا مغز ہے ۔پھر دعا کے قبول ہونے کے معنیٰ یہ ہیں یا تو وہ چیز بندے کو مل جائے جو اُس نے طلب کی ہے یا اس کے عوض میں اللہ تعالیٰ اس کی کسی پریشانی کوختم کردیتے ہیں یاکسی آنے والی مصیبت کوہٹا دیتے ہیں یا اُس دعا کا بہتر عوض آخرت میں عطا کریں گے ۔ دنیا میں قبول نہ ہونے والی دعائوں کا ذخیرہ جب آخرت میں بندہ دیکھے گا تو وہ تمنّا کرے گا کاش میری دنیا کی ساری دعائیں آخرت کے لئے ذخیرہ رکھی گئی ہوتیں تو زیادہ بہتر ہوتا کیونکہ وہ وہاں زیادہ محتاج ہوگا۔کھلونے خریدنے پر رقم خرچ کرنے والے کی کچھ رقم اگر اتفاقاً بچ گئی ہو او روہ اس کے علاج کے کام آئے تو وہ یہی تمنّا کرے گا کاش وہ رقم بھی محفوظ ہوتی تو آج کام آتی ۔دنیا میں فوراً دعا قبول نہ ہونے کے کچھ اسباب یہ ہیں ۔ بندہ کی کمائی حرام ہو ، کھانا پینا، بدن کا لباس اور گھر کی اشیاء حرام دولت سے حاصل کردہ ہوں تو پھر دعائیں قبول نہیں ہوںگی ۔
انسان معصیت کی زندگی گزارتا ہو یعنی اللہ کا فرض پورا نہ کرے اور اللہ کو ناراض کرنے والے کاموں سے نہ بچے ، پھر دعا کرے تو اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں ، وجہ بالکل ظاہرہے ۔کبھی اللہ اس لئے دعا قبول نہیں کرتے کہ بندہ کو اس کی مطلوب چیز مل جائے تو وہ اللہ کے سامنے گڑگڑانا بلکنا ،تڑپنا اور بے قرار ہوکر مانگناچھوڑ دے گا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ عرصہ طویل تک بندے کو بلکتے ، تڑپتے اورگڑگڑانے کے لئے قبولیت دعا کو روک کر رکھتے ہیں پھرقبول کرتے ہیں ۔کبھی اللہ تعالیٰ صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میرا بندہ مجھ سے اُکتا کر مایوس ہوکر مانگنا چھوڑ دے گا یا مسلسل مانگتا رہے گا ۔جب بندہ نہ تو اُکتاتا ہے ، نہ ہمت ہارتاہے ، نہ مایوس ہوتاہے نہ دل ملول ہوتاہے ۔ وہ اُمید قائم رکھتاہے بلکہ دل میں یقین بٹھا کر رکھتاہے تو پھر عرصہ کے بعد اُس کی دعا قبول ہوجاتی ہے ۔
کبھی بندہ ایسی چیز طلب کرتاہے جو اُس کے خیال میں اس کے لئے اچھی اور بہتر ہوتی ہے مگر اللہ کے منشاء میں وہ اس کے لئے بہتر نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ کبھی اس کی دعا قبول نہیں فرماتے ۔ مثلاً کوئی عہدہ ، کوئی رشتہ ، کوئی منصب ۔ کوئی چیز جو بندے کے تصور میں اُس کے لئے بہتر مگر اللہ کے علم میں اس کے لئے نابہتر ہوگی تو وہ قبول نہ ہوگی ۔ کبھی اللہ تعالیٰ بندہ کو کوئی اور چیز دینا طے کرچکے ہوتے ہیں مگر بندہ اُس کے علاوہ کوئی اور چیز مانگتا ہے تو اس بندہ کی دعا قبول نہیں ہوتی ۔
عمومی طور پر یہی اسباب ہیں ۔ اہل علم نے ان کے علاوہ بھی کچھ اسباب بیان فرمائے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-متعدد لوگ پیشاب پھیرتے وقت اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ جس طرف منہ کرکے وہ پیشاب کررہے ہیں کہیں اس طرف قبلہ تو نہیں ؟اس کے بارے میں کیا حکم ہے ۔
فاروق احمد خان …سرینگر
قبلہ رو ہوکرپیشاب پھیرنا حرام
جواب:- بخاری ، مسلم ، ترمذی، ابودائود ، نسانی ، ابن ماجہ اور دوسری تقریباً تمام حدیث کی کتابوں میں ہے ۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم غائط (پیشاب پاخانہ کی ضرورت پوری کرنے کی جگہ) میں جائو تو نہ تو قبلہ کی طرف منہ کرنا اور نہ اس کی طرف پیٹھ کرنا۔اس لئے جب گھروں میں یا دفتروں میں پیشاب خانے یا بیت الخلاء بنائے جائیں تو وہ شمالاً جنوباً بنائے جائیں تاکہ قبلہ کی طرف نہ تو منہ ہو جائے نہ پیٹھ ہو۔ اسی طرح جب کوئی کھلی جگہ پر پیشاب کرے تو قبلہ کی طرف نہ استقبال کرے نہ بیٹھ کر کرے۔حدیث کی ممانعت کی وجہ سے یہ حرام ہے اور شعائر اللہ کعبہ کی توہین کی وجہ سے یہ زیادہ خطرناک ہے ۔