کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

جمعہ نماز اور سنتوں کی ادائیگی 
سوال:-نماز جمعہ سے پہلے کتنی رکعت سنت ہیں ؟اور نمازِ جمعہ کے بعد کتنی رکعت سنت پڑھنی چاہئے۔ جواب حدیث سے نقل کرتے ہوئے باحوالہ درج فرمائیے ۔
عاشق احمد وانی… سرینگر
جواب:-جمعہ کی نماز سے پہلے چاررکعت سنت مؤکدہ ہے ۔ اس سلسلے میں صحاح ستہ کی کتابوں میں سے ابن ماجہ میں یہ حدیث ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓسے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم جمعہ سے پہلے چار رکعت سنت پڑھتے تھے ۔اور ترمذی میں حدیث ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓجمعہ سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے ۔ ظاہرہے صحابی کوئی بھی عمل اگر انجام دیتاہو تو وہ خود اپنی طرف سے وضع کردہ نہیں ہوسکتا۔اس لئے حنفیہ نے جمعہ سے پہلے چاررکعت کوسنت قرار دیاہے ۔نماز جمعہ کے بعد چاررکعت سنت مؤکدہ اور دورکعت سنت غیر مؤکدہ ہیں ۔حدیث یہ ہے :حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم جمعہ کی نماز پڑھ لو تو پھر اُس کے بعد چار رکعت ادا کرو اور ایک روایت میں ہے جب تم نمازِ جمعہ کے بعد نمازپڑھو تو چاررکعت پڑھو۔ یہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے ۔ ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ حضرت عبداللہ ؓبن عمرؓ کا معمول یہ تھاکہ وہ جب جمعہ کی نماز سے فارغ ہوکر گھر آتے تھے تو دورکعت پڑھتے تھے او رپھر فرماتے تھے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔یہ حدیث بھی مسلم میں ہے۔مصنف ابن ابی شیبہؓ میں ہے ابوعبدالرحمان ؓکہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ؓبن مسعود ہم کو حکم دیتے تھے کہ جمعہ کے بعد چاررکعت پڑھا کریں ۔پھر حضرت علیؓ کاارشاد ہم نے یہ سنا کہ وہ چھ رکعت پڑھنے کا حکم دیتے تھے ۔ حضرت علی کاارشاد سن کر ہم نے چھ رکعت پڑھنے کا معمول بنایا۔ترمذی میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود جمعہ سے پہلے چاررکعت اور جمعہ کے بعد چاررکعت پڑھتے تھے اور حضرت علی ؓسے منقول ہے کہ وہ یہ حکم دیتے تھے کہ نمازِ جمعہ کے بعد پہلے دورکعت پھر چار رکعت پڑھا کرو۔مسلم ترمذی او رمصنف ابن ابی شیبہ کی ان احادیث کی بناء پر حضرت علامہ کشمیری نے فرمایا کہ ان احادیث کی بناء پر امام شافعی ؒ نے فرمایا نماز جمعہ کے بعد دو رکعت ،امام ابوحنیفہ ؒ نے فرمایا چار رکعت ، اور قاضی ابویوسف اورامام محمد نے فرمایا چھ رکعت سنتیں پڑھی جائیں۔حنفیہ کی تمام کتابوں میں چھ رکعت کاقول لکھا گیا کیونکہ کثرت عبادت ہرحال میں مطلوب ہے اور حضرت علی ؓخلیفہ راشدہ ہیں وہ جب تاکید سے اس کا حکم فرماتے تھے تو ظاہرہے کہ وہ کسی ایسی چیز کا حکم نہیں دے سکتے ۔ جو خود اُن کی خودساختہ ہو۔یقیناً اُن کے سامنے عمل نبیؐ کاہوگا۔
بہرحال چاررکعت سنت مؤکدہ اور دوسنت غیر مؤکدہ میںہیں۔کفایت المفتی میں یہی خلاصتہً لکھا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-یہاں بزرگوں کے ساتھ ساتھ اب نوجوان بھی اپنے ہاتھ تسبیح لئے پھرتے ہیں ۔بظاہر وہ ذکر واذکار کا شمار کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔سعودی عرب اس کی سب سے بڑی منڈی ہے ۔ یہاں کے بازاروں میں قدم قدم پر مختلف اقسام کی تسبیحاں ملتی ہیں ۔دُنیا بھر سے حاجی حضرات یہاں سے کافی تعداد میں ہر سال تسبیحاں لاکر اپنے عزیز واقارب او راحباب میں تبرکاً  پیش کرتے ہیں ۔ اس طرح سال بہ سال اس میں اضافہ ہوتارہتاہے ۔ کچھ لوگوں کا کہناہے کہ تسبیح کا استعمال قرآن وسنت سے ثابت نہیں ہے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر سعودی عرب میں اس کا کاروبار کیوں کیا جاتاہے ؟ اصل کیا ہے ،رہنمائی کرکے شکرگزارفرمائیں۔
احمد اللہ نثار،پلوامہ (کشمیر)
تسبیح ہاتھ میں لینا عملِ تعامل
جواب:۱- ہاتھ میں تسبیح لے کر تسبیح پڑھنا بالکل دُرست ہے ۔ اس میں شرعاً کوئی اعتراض نہیں ہے ۔یہ تعداد پورا کرنے کا ایک آلہ ہے جیسے گھڑی اوقاتِ نماز جاننے کا ایک آلہ ہے اور مائک آوازِ اذان دور تک پہنچانے کا ایک آلہ ہےیا نقشہ سحری وافطار صرف وقت سحر وافطار جاننے کا آلہ ہے ۔تسبیح مذکرہ بھی ہے ۔یعنی جب یہ ہاتھ میں ہوتی ہے توخود بخود زبان کلمات تسبیح پڑھنے کے لئے متحرک ہوجاتی ہے ۔ جس کاتجربہ بارہا ہو تاہے ۔اس لئے ہر دور میں تمام اُمت اس پر عمل پیرا رہی ہے ۔ مختلف صحابہؓسے شمار کرنے کے لئے دانے اور دوسرے ذرائع استعمال کرنا ثابت ہے ۔
حضرت مولانا عبدالحئی لکھنؤی نے تسبیح کے ثبوت وجواز کے لئے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس میں احادیث سے ثبوت کے ساتھ تعامل امت بھی نقل فرمایا ہے ۔یعنی ساری امت جس عمل کو اپنا رہی ہے خصوصاً اہل علم اور صالح ومتقی حضرات اُن کا عمل تعامل کہلاتاہے ۔ہرحال تسبیح ہاتھ میں لینا دُرست ہے ۔جو شخص اس کو ناجائز سمجھتاہے وہ انگلیوں پر اُسی ترتیب کے مطابق شمار کرسکتاہے جو عمل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ اگرچہ اُس طریقہ کو سیکھنا اور اُس پر عمل پیرا ہونا قدرے مشکل ہے ۔ آج کل انگلیوں پر شمار کرنے کا جو طریقہ رائج ہے وہ بھی احادیث سے ثابت نہیں ۔ہاں جو طریقہ احادیث سے ثابت ہے وہ سیکھے بغیر عملانا مشکل ہے اور ہرشخص انگلی کے شمار کرنے کا مسنون طریقہ جانتا بھی نہیں ہے ۔ بلکہ اکثر اہل علم بھی اس سے ناواقف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :(۱) اکثر ہمارے یہاںیہ تصور کیا جاتاہے بلکہ یقین کیا جاتا ہے کہ جس ایمان والے کی وفات جمعہ کے دن یا ماہِ رمضان میں ہوجائے ،وہ جنتی ہے ،چاہے اعمال کیسے بھی ہوں،کیا یہ صحیح ہے؟
سوال :(۲) کچھ حضرات اولاد نہ ہونے کی وجہ سے کسی اور کا بچہ گودلیتے ہیں مگر کاغذوں میں ولدیت اپنی لکھواتے ہیں ۔شرعاً یہ کیسا ہے؟
(مشتاق احمد وانی ،کشتواڑ)
جمعۃالمبارک اور ماہ رمضان میں فوتیدہ عذاب قبر سے فارغ
جواب:(۱) اس میں کوئی شک نہیں کہ جمعہ کے دن یا رمضان المبارک کے مہینے میں وفات پانا بڑے شرف کی بات ہے اور حدیث میں اس کی فضیلت بھی آئی ،مگر صرف اس بات پر جنتی ہونے کی کوئی بشارت نہیں ہے۔ہاںصرف اتنی بات حدیث سے ثابت ہے کہ جو شخص رمضان میں یا جمعہ کو فوت ہوا،اُس سے قبر کا عذاب ہٹادیا جاتا ہے،مگر اس کے جنتی ہونے کا ،صرف اس بنا پر کہ وہ رمضان میں یا جمعہ کے دن فوت ہوا ہے ،کوئی ثبوت نہیں ہے۔
گود لئے بچے کی ولدیت کا مسئلہ
جواب:(۲) کسی اور شخص کا بچہ گود لے کر متبنیٰ بنانا کثرت سے ایسے لوگوں میں پایا جاتا ہے جو بے اولاد ہوتے ہیں ،اس  کے لئے شرعی طور پر حکم ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس بچے کا باپ ہرگز قرار نہ دیں۔قرآن کریم میں صاف حکم ہے کہ ایسے بچے کو اپنے اصل باپ کی طرف منسوب کرکے اُس کے حقیقی باپ کی ولدیت لکھیں ۔حدیث مبارک میں ہے کہ جس نے اپنے آپ کو کسی اور شخص کی طرف منسوب کرکے اُس کو اپنا باپ بنایا ،اُس پر جنت حرام ہے اور اُس پر اللہ کی لعنت ہے۔لہٰذا اس سے بچنا نہایت ضروری ہے۔اپنی حقیقی ولدیت بدلنا حرام ہے اور بچہ چونکہ بے خبر ہوتا ہے ،لہٰذا جو شخص اپنے آپ کو باپ بنائے اور وہ اصلی باپ نہ ہو تو یہ حرام کام اُس کے سَر ہوگا۔پھر جب بچے کو یہ معلوم ہوجائے تو اُسکو اپنے باپ کی طرف منسوب کرنا اور حقیقی باپ کی ولدیت رکھنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-آج کل بیشتر مسلمان مستورات میں یہ عادت عام ہوگئی ہے کہ خوب بنائو سنگھار کرکے گھرسے باہر نکلتی ہیں۔ دعوتوں وشادیوں پر اس کا زیادہ ہی اہتمام ہوتاہے ۔ دانستہ یا غیر دانستہ طور یہ بنائو سنگھار غیر مردوں کو اپنی طرف مائل کرکے دعوتِ نظارۂ حسن کا موقعہ فراہم کرتاہے ۔ جب کہ گھروں میں اپنے شوہر کے لئے اس چیز کا زیادہ خیال نہیں رکھاجاتا ۔ براہ کرم شریعت کی رو سے مسئلے کی  وضاحت فرمائیں۔
شبیر احمد …بتہ مالو ، سرینگر
خواتین کی زیب وزینت اہم وضاحتیں
جواب:۱-اللہ نے خواتین کا مزاج اور ذہنیت ایسی بنائی ہے کہ وہ ہرحال میںبنائو سنگھارکاشوق رکھتی ہیںاور یہ مزاج اور شوق دراصل ایک اہم مقصد کے لئے ہے ۔ اور وہ یہ کہ وہ اپنے شوہر کے لئے محبوب اور پسندیدہ بنی رہے ۔ اس کا فائدہ زندگی کے ہر مرحلے میں دونوں کو ہوگا۔ میاں بیوی میں جتنی قربت ، ایک دوسرے کی چاہت اور محبت ہوگی اتنا ہی وہ ایک دوسرے کے حقوق  ادا کرنے ،ایک دوسرے کو راحت پہنچانے بلکہ ایک دوسرے کو خوش رکھنے کااہتمام کریں گے ۔ اس لئے عورت کے لئے لازم ہے کہ وہ یہ شوق ضرور پوراکرے مگر ا س طرح کہ وہ اچھے سے اچھا بنائو سنگھار(مگر شریعت کے دائرے میں)کرکے شوہرکوخوش رکھے۔ اُس کی پسند کو ہروقت ملحوظ رکھے اور اگر وہ یہ کرے اور نیت یہ ہو کہ میرا شوہر مجھ سے خوش رہے ۔ اُس کا میلان میری طرف برقرار رہے ۔اس کو مجھ سے کوئی تکدر نہ ہو اور اس غرض کے لئے وہ صاف ستھری رہے ۔ اچھے کپڑے استعمال کرے ، میلی کچیلی ہونے کے بجائے اپنے شوہر کے لئے معطر و پُرکشش رہے تو اس نیک اور عمدہ مقصد کے لئے یہ سب باعث اجر وثواب ہوگا ۔
لیکن اگر دوسروں کو دکھانے کے لئے بنائو سنگھار کرے اور اچھے کپڑے پہنے تو اگرغیر مردوں کو دکھانے کی نیت ہو تو یہ خطرناک گناہ ہے اور اگر غیر عو رتوں میں اپنی عزت وبرتری دکھانی ہو تو بھی یہ فخر وبرتری کی نمائش کی وجہ سے غیر شرعی ہے ۔ عورت دوسری کسی بھی جگہ چاہے تعزیت کرنے جائے یا کسی تقریب میں جائے ،اقارب یا پڑوسیوں سے ملاقات کے لئے جائے یا شادی بیاہ کی تقریبات میں اگر وہ ایسا بنائو سنگھار کرتی ہے کہ جس میں دوسرے اُس کی طرف بُری نظروں سے دیکھنے پر آمادہ ہوجائیں تو اس کا گناہ جہاں دیکھنے والوں کو ہے وہیں اس خاتون کو بھی ہے۔کیونکہ یہی دعوت نظارہ کا سامان لئے سامنے آتی ہے ۔ اس لئے قرآن کریم میں ارشاد ہے (عورتوں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا اور تم جاہلانہ طرزِ پر بنائو سنگھار مت کرو)۔ اس میںایک تو غیر اقوام کی طرز اور وضع قطع اپنانے کوجاہلانہ کہاہے اور دوسرے اجنبی مردوں کے لئے اپنے آپ کو پُرکشش بنانے کوجاہلانہ روش قرار دیاہے ۔لہٰذا عورتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے شوہروں کے لئے اچھا لباس ،اچھی وضع قطع ، عطر اور دوسرے لوازماتِ آرائش ضرور اختیار کریں ۔ ہاں بالوں کا کٹ کرنا ، بھنوئیں باریک کرنا ،بیوٹی پارلر جانا ہرگز درست نہیں ہے ۔  اور ساتھ ہی تقریبات میں جہاں غیرمردوں کا سامنا ہو ایسا بنائو سنگھار نہ کریں کہ اُن پر غیر وں کو دعوت نظارہ دینے کا جرم لازم ہوجائے ۔