کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال : انسان کا رزق تو پہلے سے لکھا ہوتا ہے ،اب کس کام سے انسان کمائے گا ،وہ بھی لکھا ہوتا ہے اور رزق میں کمی یا زیادتی کن وجوہات سے ہوتی ہیں؟
شیخ عامر ۔لال بازار سرینگر
عطائے رزق:اللہ سبب ساز مگر
بندے پر مطلوبہ محنت کی انجام دہی لازمی

جواب : یہ بات بالکل برحق ہے کہ رزا ق اللہ جل شانہٗ ہےاور ہر مخلوق کا رزق لکھا ہوا ہے مگر لکھا ہوا ہونے کے یہ معنیٰ ہرگز نہیں کہ انسان چپ چاپ بیٹھ جائے اور لکھا ہوا رزق اُسے خود بخود ملتا رہے گا ،بلکہ اُس لکھے ہوئے رزق کو پانے کے لئے جو محنت مطلوب ہے وہ انجام دینا ضروری ہے ۔اُس کے بعد ہی لکھا ہوا رزق ملے گا ۔اس کے لئے چند مثالیں پیش ہیں۔
بیماری میں شفا بھی ملتی ہے اور موت بھی آسکتی ہے۔اگر شفا لکھی ہوئی ہے تو وہ شفا بغیر علاج و معالجہ کے اللہ عطا کرسکتے ہیں مگر اللہ کی مشیت اور سُنت یہ ہے کہ علاج و معالجہ بھی ہو اور ضروری پرہیز بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اُس کے بعد لکھی ہوئی شفا عطا فرمادیتے ہیں۔لہٰذا علاج بھی ضروری ہے اور پرہیز بھی ۔دودھ پیتے بچے کے لئے ماں کی چھاتی اور پستان میں دودھ اللہ پیدا کرتے ہیں مگر دودھ پلانے کا عمل ماں کی ذمہ داری ہے اور پینے کا عمل بچہ خود فطری اور وجدانی طور پر سر انجام دیتا ہے ۔زمین سے ہر قسم کا اناج ،سبزیاں اور قسم قسم کے نباتات اللہ سبحانی تعالیٰ اُگاتے ہیں مگر کاشت کارکو محنت کرنا بھی لازم ہے۔انسان کو زندگی میں طرح طرح کی کامیابیاں ملتی ہیں ،وہ سب کامیابیاں انسان کے لئے لکھی ہوتی ہیں مگر وہ لکھی ہوئی کامیابی انسان کو مطلوبہ محنت کے بعد ہی ملتی ہےاور یہ بھی لکھی ہوئی بات ہے ۔لہٰذا ہر کام کے لئے مطلوب محنت کرنا لازم ہے۔
رزق کے لکھے ہوئے ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان نہ تو یہ سمجھے کہ مجھے کچھ بھی نہیں کرنا ہے ،جو لکھا ہوا ہے وہ خود ملے گااور نہ ہی انسان یہ سمجھے کہ میں جو کچھ بھی کروں گا ،اُس کے نتیجے میں وہ چیز مجھ کو لازماً ملے گی ،جس کے لئے میں نے محنت کی ہے ،چاہے اللہ نے لکھا ہو یا نہ لکھا ہو ۔انسان کو ہر کام کے لئے ضروری اور مطلوبہ محنت ،جدوجہد اور کوشش کرنی ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھنا ہے کہ اللہ کی مشیت اور مرضی ہوگی تو یہ کام حسنِ انجام کو پہنچے گا اور اللہ کی منشاء و رضا نہ ہو تو پھر نتیجہ ہماری ہماری چاہت و کوشش کے خلاف نکلے گا اور یہ بھی لکھا ہوا ہوگا ۔رزق کے لئے بھی یہی ضابطہ ہے۔اس کی مزید تفصیلات بڑی کتابوں میں مل سکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :السلام و علیکم ! عاجز مسلسل 2010سےسیرت کے پروگرام کرارہا اور جس میں اب تک تقریباًایک لاکھ طلبا شریک ہوچکے ہیں۔اس کی نوعیت یہ ہے کہ ہم بچوں سے کتاب کی قیمت لیتے ہیں ،مثلاً اس وقت کتاب سیرت رہبر انسانیت ؐ (حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی )کی بازار میں 300روپے قیمت ہے،ہم بچوں کو وہ صرف 200روپے میں دے رہے ہیں۔ہم کو وہ 150روپے میں ملتی ہے ،نفع کا 50روپیہ ہم اپنی ذات پر خرچ کرنے کی بجائےبچوں کے انعامات پر خرچ کرتے ہیں۔بعض مرتبہ کچھ ساتھی انعامات کے لئے تعاون بھی کرتے ہیں تو وہ رقم بھی ہم انعامات پر خرچ کرتے ہیں،اگر شرعاً اس میں کوئی قباحت ہو تو ہم اس سلسلے کو روکنا پسند کریں گے۔اس لئے حضرت والا سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ براہِ مہربانی اس مسئلے کی مکمل وضاحت فرماکر شکریہ کا موقع عنائت فرمائیں ۔عین نوازش ہوگی۔
طالب نشیر ندوی ،ٹنگمرگ
کتاب کی قیمت سے رقم بچا کر
بچوں میں تقسیمِ انعامات شرعاً جائز

جواب :سابقہ کی یہ صورت جس میں شرکاء کو پہلے ایک مقرر ہ قیمت پر دی جاتی ہے جس کتاب کومسابقہ میں رکھا گیا ہو ،پھر اُس قیمت میں سے کچھ رقم شرکاء کو بطورِ انعام دی جاتی ہے،شرعی طور پر اس میں ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔نہ اس میں قمار ہے،نہ رِبا ہے، نہ غر رہے ،نہ رشوت ہے اور نہ ہی اور کوئی دوسری وجۂ حُرمت۔البتہ اگر شرکت کرنے کے لئے کوئی رقم بطورِ فیس طلب کی جائے اور فیس دینے والوں کو یہ لالچ ہو کہ یا تو ان کو انعام ملے گا اور وہ زیادہ بڑی رقم ہوگی اور یا پھر یہ فیس والی رقم ضائع ہوگی ،یہ شکل قمار کی ہے اور ناجائز ہے۔فیس لئے بغیر کتاب فروخت کرکےمسابقہ میں شریک کرنا اور پھر کتاب کی قیمت میں سے بچی ہوئی رقم اور کچھ رقم کسی شخص کے ذاتی تعاون سے مہیا کرنا جیساکہ سوال نامہ میں درج ہے ،تو یہ جائز ہے۔اس میں ہرگز کوئی شرعی نقص نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-میں نے ایک حدیث پڑھی ۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک ایسا وقت آنے والاہے کہ کوئی بھی مسلمان سود سے نہیں بچ سکے گا ۔ اگر کوئی خود سودکھانے سے بچ بھی جائے تب بھی سود کا بخار اُس تک ضرور پہنچے گا ۔ اب میراسوال یہ ہے کہ یہ صحیح حدیث ہے اور سود کا بخار کیسا ہوتاہے۔اس کی تشریح کیاہے اور کیا وہ وقت آچکاہے یا ابھی نہیں ۔ ان تینوں سوال کا جواب ضرور لکھیں ۔
محمد اختر…سرینگر
سودکے بخار کی تشریح
جواب:۔ یہ حدیث ابودائود ، نسائی ،ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے کہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ لوگوں پر ایسا وقت ضرور آنے والاہے کہ سود کھانے سے کوئی ایک بھی پرہیز کرنے والا نہ ہوگا اور اگر کوئی سود سے بچنے میں کامیاب ہوبھی جائے تو سودکابخار اُسے ضرور پہنچے گا۔ ایک حدیث میں بخار کے بجائے غبار کا لفظ ہے ۔
یہ حدیث صحیح ہے ۔اور یہ حوالہ اوپر آچکاہے کہ کن کن کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے ۔ اس کے راوی حضرت ابوہریرہؓ ہیں۔ حدیث کے مشہورشرح کرنے والے ملاعلی حنفی القاری نے لکھا ہے کہ سود کے تحائف قبول کرنا ،سود کی رقموں کی دعوت کھانا سود کا بخارہے یا سود کاغبارہے ۔ یعنی کسی شخص کو کوئی چیز بطور تحفہ دی جائے حالانکہ وہ سود کی رقم سے مہیا کی گئی ہے ۔ چنانچہ بنکوں کی ڈائریاں ،قلم ، کیلنڈر اور اس قبیل کی دوسری چیزیں کبھی وہ حضرات بھی بڑے شوق،اصرار اور خوشدلی سے قبول کرتے ہیں ، جو اپنی زندگی میں سود سے بچنے کی سعی کرتے رہتے ہیں مگر وہ یہ تحائف جوسودی رقوم سے حاصل کئے گئے ہیں ،قبول کرکے سودی بخار یا غبار سے اپنے آ پ کو آلودہ کرتے ہیں۔پچھلے کئی برسوں سے ساری دنیا ،خصوصاً برصغیر اور خود یہاں کشمیر کے حاجی صاحبان کو بنکوں کی طرف سے تھیلے دیئے جاتے ہیں۔ حجاج شوق سے خوش ہوکرقبول کرتے ہیں اور پورے حج میں کندھوں میں وہی بیگ لٹکائے پھرتے ہیں اور خیال بھی نہیں کہ ہم سود ی تحفہ لئے کعبہ میں پہنچ گئے ۔یا رمضان میں روزے داروں کو سودی رقوم سے خود بنک کی طرف سے افطار کرانا ،جس کا مشاہدہ باربار کیا گیا یا افطار پوائنٹ بناکر اُن میں فیرنی ،شربت کا اہتمام کسی بنک کی طرف سے ہو تو یہ وہی سودی بخاری ہے ۔
یا کسی شخص نے سودی رقوم سے اپنے گھر میں کسی دعوت کا اہتمام کیا ، چاہے یہ کسی بھی عنوان سے ہو ، بہرحال اس دعوت میں شرکت کرنے والے اکثر اس سے واقف ہی نہیں ہوتے کہ ہم کو سودی رقوم سے پُرتکلف دعوتیں کھلائی جارہی ہیں ۔ یہ وہی سود کا بخاریا سود کا غبار ہے ،جس کے متعلق رسول رحمت حضرت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی ارشاد فرمایاہے۔
اسی طرح ملازمین کو جب تنخواہیں بنکوں سے لینے کا مکلف بنایا گیا تو بے شمار دیندار اورسود سے مکمل نفرت کرنے والے حضرات مجبوراً بنکوں سے تنخواہ لے کر گویا اُسی بخار کا شکارہورہے ہیں او روہ اس سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں پاتے ۔ اس طرح یہ پیشینگوئی اس وقت بڑے پیمانے پر پوری ہورہی ہے ۔ اب ہر صاحب ایمان خودفیصلہ کرے کہ اُس کیلئے سود سے بچنے کے لئے کتنا محتاط وچوکنارہناضروری ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال۔)نکاح اور ولیمہ کا شرعی حکم کیا ہے جبکہ ولیمہ سنت اور پردہ فرض ہے ۔ہمارے یہاں ولیمے کی تقاریب میں کوئی تمیز نہیںکی جاتی ۔اس کا حکم تفصیل سے بیان فرمائیں۔
(مشتاق احمد وانی ۔کشتواڑ)
ولیمہ میں فضول خرچی سے بچنا لازم

جواب۔)ولیمہ سنت ہے مگر اس میں تمام غیر شرعی امور سے بچنا لازم ہے ۔مثلاً فضول خرچی ،ریا ،نام و نوا ،بے پردگی ،اختلاط مردو زن وغیرہ ہے ،اگر کسی ولیمہ میں یہ سب کچھ ہوا تو سنت کی ادائیگی ہوگی مگر غیر شرعی امور کا ارتکاب ہوا جو یقیناً گناہ ہے۔