کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال : جموں وکشمیر گورنمنٹ کی طرف سے ایک حکم نامہ جاری ہوا ہے، جس کے تحت سرکاری ملازموں کو (JKHRMS)پورٹل پر اپنے آپ کو رجسٹر کرانا ہے اور اپنی کچھ تفصیلات بھرنی پڑتی ہیںجس میں ایک کالم کے اندر Nominee کی تفصیلات اور ان کی حصہ داری کی تفاصیل درج کرنی پڑتی ہیں۔ اس NOMINEEکے بارے میںشرعی حکم کیا ہے؟ اس کے بارے میں آگاہ فرمائیں۔
ظہور احمد گجری،ٹیچر۔حاجن
سرکاری ملازمین کیلئے JKHRMS پورٹل پر رجسٹریشن کا حکم

جواب : ملازمین کو اپنی باقی ماندہ رقم ،مثلا ً جی پی فنڈ وغیرہ ،کو حاصل کرنے کے لئے کسی ایک شخص کو نامزد کرنا ہوتا ہے۔اس کو NOMINEEکہتے ہیں ۔جس شخص کو نامزد کیا گیا،اُس کی حیثیت شرعی طور پر صرف وکیل کی ہوتی ہے ۔گویا ملازم اُس کو اس نامزدگی کے ذریعہ اس بات کا ذمہ دار بناتا ہے کہ اس کی پس انداز شدہ رقم حاصل کرنے کا اُسے اختیار ہے۔اب جس شخص کو NOMINEEمقرر کیا گیا ،اُس شخص کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ متعلقہ محکمہ سے فوت شدہ شخص کی وہ باقی رقم حاصل کرے۔یہ نامزدگی چاہے باپ،ماں،زوجہ یا بیٹے کے حق میں ہو ،بہر حال اُن کی حیثیت وکیل کی ہے۔اب اُس کی ذمہ داری بھی ہے اور اختیار بھی کہ وہ یہ رقم حاصل کرے اور پھر شرعی ضوابط کے مطابق مستحقِ وراثت ورثاء میں اس طرح تقسیم کرے جو شرعی اصول کا تقاضا ہے۔
درحقیقت کسی ملازم کی وہ تمام کمائی جو اُس کے دوران ملازمت عرصہ میں اُس کے نام پر جمع ہوتی ہے ،وہ اُس کے فوت ہونے کے بعد اُس کے تمام ورثا ءکا حق ہےاور یہ نامزدگی NOMINEEنہ تو شرعی طور پر ہبہ ہے اور نہ ہی یہ وصیت ہے۔ہبہ اس لئے نہیں کہ یہ موہوبلہ ،جس کو نامزد کیا گیا اُس کے قبضہ میں مرنے کے بعد آئے گی ،تو یہ شرعی ہبہ نہ بن سکا ۔اور وصیت اس لئے نہیں کہ کسی اپنے وارث کے حق میں وصیت شرعاً نافذ نہیں ہوتی،اِلا یہ کہ دیگر تمام ورثا ءرضا مند ہوں۔لہٰذا نامزد شدہ شخص چاہے وہ والدین ہوں یا زوجہ ہو ،اس رقم کا پورا مالک نہیں ،اس کو صرف حصہ وراثت کے بقدر لینے کا حق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : میں نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ کچھ لوگ اپنے مقررہ وقت پر نماز ادا نہیں کرپاتے ہیں،کسی مصروفیت کی وجہ سے۔پھر وہ شام کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ نمازیں ادا کرتے ہیں ۔کیا یہ صحیح ہے؟اور میں نے یہ سُنا ہے کہ اگر کبھی کسی وجہ سے کوئی نماز اپنے وقت پہ ادا نہیں کرپائیں تو کیا وہ نماز اگلے دن اُسی وقت پہ ادا کرسکتے ہیں؟
شوکت احمد ریشی ،بانڈی پورہ

قضاء نماز کی ادائیگی اولین فرصت میں کرنا لازم

جواب : نماز کی ادائیگی وقت ِ مقررہ پر لازم ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ نماز وقت مقرر ہ پرفرض ہے۔دنیا کا کوئی بھی کام نماز کے وقت نماز سے زیادہ اہم اور لازم نہیں۔حدیث میں ہے کہ جس شخص نے عمداً نماز ترک کردی ،وہ کفر کے قریب پہنچ گیا ۔وقت ہوجانے کے بعد اب نماز نہ پڑھیں اور بعد میں نماز قضا پڑھیں تو قرآن کریم نے ایسے نمازیوں کے لئے بربادی اور تباہی کی وعید سُنائی ہے۔چنانچہ ارشاد ہے :(ترجمہ) ویَل یعنی بُربادی ہے اُن نمازیوں کے لئے جو نمازوں میں سُستی اور تساہل برتتے ہیں ۔(الماعون ۔۴) اگر سوئے رہ گئے یا بھول گئے یا ایسے سخت مشکل حالات تھے کہ نماز نہ پڑھ سکےاور تمام کوشش کے باوجود نماز قضا ہوگئی تو پھر اس نماز کی قضا اولین فرصت میں کرنا لازم ہے۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غزوہ خندق کے موقعہ پر نماز عصر قضا ہوگئی،آپؐ نے مغرب کے وقت پہلے یہ عصر کی قضا پڑھی،پھر مغرب پڑھی،اور ایک حدیث میں ہے کہ خندق کے موقعہ پر ظہر ،عصر ،مغرب قضا ہوگئیں،آپ ؐ نے عشا سے پہلے یہ تین نمازیں قضا پڑھیں۔اس لئے جو نماز وقت پر نہ پڑھی گئی اُس کو جتنا جلد ہوسکے پڑھیں،جلد سے جلد پڑھیں اُتنا بہتر اور جتنا دیر کریں اُتنا بُرا ہے۔
بخار ی شریف تیمم کے باب میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز فجر قضا ہونے اور دوپہر سے پہلے پہلے ادا کرنے کابیان موجود ہے۔لہٰذااولاً تو صاحب ایمان اس کی پوری کوشش کرے گا کہ نماز اپنے وقت مقررہ پر ادا کرے،اگر کوشش کے باوجود اس میں کامیاب نہ ہوسکا تو نماز قضا ہونے کا غم اور شدید احساس ہوا ،پھررکاوٹ دور ہونے کے بعد سب سے پہلے فوت شدہ نماز کی ادائیگی کرے گا اور ساتھ ہی نماز کے قضا پڑھنے پر استغفار بھی کرے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :سردیوں کے موسم میں لوگ گرم ٹوپیاں پہننے پر مجبور ہوجاتے ہیں ،ان گرم ٹوپیوں کو پہن کر نماز یںپڑھی جاتی ہیں۔یہ گرم ٹوپیاں کبھی پیشانی پر بھی ہوتی ہیں اور اُسی طرح سجدہ بھی کیا جاتا ہے ۔کبھی انسان کی پیشانی زمین پر نہیں ہوتی۔سجدہ ٹوپیوں پر ہوتا ہے ۔ہمارا مطلب یہ ہے کہ کہ جب نمازی اپنا سَر زمین پر رکھتا ہے توپیشانی کے بجائے زمین پر ٹوپی ٹک جاتی ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ اس سے نماز میں کوئی کراہت تو نہیں آتی ۔آج کل اس مسئلہ کی شدت سے ضرورت ہے اور بعض جگہ اس پر بحث و گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے۔
عبدالعزیز لون۔گریز

موسم سرما میں سردی سے بچنے کا اہتمام
سجدے میں ماتھے کے بجائے ٹوپی زمین سے لگے تو کوئی کراہت نہیں

جواب: سَر پر اس طرح ٹوپی ہو کہ نمازی کی پیشانی بھی اس میں ڈھک چکی ہو اور اسی طرح نماز پڑھی جائے اور زمین پر پیشانی نہیں بلکہ ٹوپی چھونے لگے تو اس سے نماز میں کوئی کراہت نہیں ہوتی۔ایسی ضرورت عموماً تین صورتوں میں پیش آتی ہے۔سجدہ کرنے کی جگہ سخت سرد ہو اور پیشانی کو اُس پر ٹیکنا سخت مشکل ہو ،جیسے یہاں پہاڑی مقامات پر لوگ زمینوں ،ندی نالوں ،پہاڑی چٹانوں پر نمازیں پڑھتے ہیں تو وہ چٹانیں سخت ٹھنڈی ہوتی ہیں ۔دوسرے سخت گرم علاقوں میں سجدہ گاہ سخت گرم ہوتی ہے،خصوصاً جب مسجد کے نیچے ماربل یا دوسرے پتھر ہوں ،جیسے مغل دور کی بے شمار بڑی مساجد مثلاً جامع مسجد دہلی ،تاج المساجد بھوپال ،شاہی مسجد لاہور ،کہ اُن میں فرش سنگِ سرخ کا ہے۔یہ گرمیوں میں سخت گرم ہوتا ،اس پر سجدہ کرنا بہت دشوار ہوتا ہے ۔اسی طرح ریگستانوں میں گرم ریت پر نماز پڑھتے ہوئے گرم ریت پر سجدہ کرنا ایسا ہوتا ہے جیسے چنگاری پر سر رکھ دیا ہو۔تیسرے جب موسم سخت سرد بلکہ منفی درجہ حرارت ہو اور پیشانی کھُلا رکھنے پر سر درد یا زکام کا خدشہ ہو ۔ایسی حالت میں پیشانی پر ٹوپی رکھ کر نماز پڑھنی پڑتی ہے ،اس سے نماز میں کوئی کراہت نہیں آتی۔حضرات صحابہ ؓ تو گرم زمین پر سجدہ کرتے ہوئے اپنی آستیں پیشانی کے نیچے رکھ لیتے تھے تاکہ پیشانی کو گرمی کی شدت سے بچائیں۔اسی طرح یہاں کشمیر میں سردی کی شدت سے پیشانی ڈھکنے کی جس کو ضرورت ہو وہ اگر ٹوپی پیشانی پر رکھے تو کوئی کراہت نہ ہوگی۔فقہ حنفی کی معروف کتاب مراقی الفلاح میں یہ مسئلہ اسی طرح ہے تاہم مساجد میں عموماً فرش گرم ہوتا ہے ،کارپٹ کی صفیں ہوتی ہیں نہ کہ ٹھنڈی چٹائیاں یا خالص ماربل ،اس لئے پیشانی ڈھکنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : موسم سرما میں سردی سے بچنے اور گرم پانی کی فراہمی کے لئے کشمیر کی اکثر مساجد میں حمام ہوتے ہیں اور بعض گھروں میں بھی۔اب کبھی اُن حماموں میں نماز پڑھنے کی ضرورت پڑتی ہے لیکن کچھ حضرات حمام میں نماز پڑھنے پر خدشات کا اظہار کرتے ہیں ۔اُن کا کہنا ہوتا ہے کہ حدیث میں حمام میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہوتی ہے ۔اس لئے اس میں نماز نہیں پڑھنی چاہئے ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا حمام میں نماز پڑھنے کی ممانعت احادیث سے ثابت ہے اور کیا نیچے آگ ہونے کی وجہ سے حمام میں نماز ادا کرنے میں کوئی کراہت یا ممانعت ہے ،ان دونوں سوالوں کے جواب میں صریح اور صاف تحریر فرمائیں کہ حمام میں نماز پڑھی جائے یا نہیں؟
محمد امین ۔باغِ مہتاب سرینگر

مسجد کے صُفہ پر نماز پڑھنے میں کوئی ممانعت نہیں

جواب :کشمیر میں مساجد یا گھروں میں جو حمام ہوتے ہیں ،اُن کے متعلق یہ بات طے ہے کہ یہ وہ حمام ہرگز نہیں ہیں جن کے متعلق احادیث میں نماز کی ممانعت وارد ہوئی ہیں۔حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پوری روئے زمین مسجد ہے مگر سات جگہیں ایسی ہیں کہ اُن جگہوں میں نماز نہ پڑھی جائے ۔اُن سات جگہوں میں سے ایک جگہ حمام بھی ہے۔یہ حدیث ترمذی میں ہے ۔اس حدیث میں جس حمام کا تذکرہ ہے وہ گرم پانی سے غسل کرنے کا ایک ایسا کمرہ ہوتا ہے جس میں کئی کئی آدمی بیک وقت غسل کیا کرتے تھے ۔یہاں کشمیر میں بھی پہلے زمانے میں اس طرح کے حمام ہوا کرتے تھے ،جن کو نائید حمام کہتے تھے۔
آج کل مسجدوں میں جو حمام ہوا کرتے ہیں وہ در حقیقت صوفہ ہوتے ہیں جو صفہ کی تبدیل شدہ لفظی شکل ہے ،اس صوفہ پر نماز نہ پڑھنے کے متعلق وہ حدیث ہرگز نہیں ۔اس لئے کہ یہ صوفہ اُس کا مصداق ہے ہی نہیں۔اس صوفہ پر نہانے والے افراد برہنہ ہوکر نہیں بیٹھتے ،جبکہ اُس نہانے والے حمام میں لوگ کبھی گرم پانی کے ٹب میں اور کبھی گرم پتھروں پر کافی دیر بیٹھا کرتے ہیں،جو در حقیقت ایک قسم کا علاج تھا ۔چنانچہ اطباء بھی مریضوں کو حمام کرنے کی ہدایت دیا کرتے تھے تاکہ جوڑوں اور اعصابی بیماریوں کا علاج ہوسکے۔جبکہ آج کے حمام میں یہ سب نہیں ہوتا ۔
رہا یہ کہنا کہ آج کل کے حمام میں نیچے آگ اور اوپر پتھر ہوتے ہیں ،اس لئے ان پر نماز پڑھنا نادرست یا مکرہ ہے تو یہ بھی کوئی ایسی وجہ نہیں جو شریعت کی بیان کردہ ہو۔یہ صرف عوام میں پھیلی ہوئی ایک غلط رائے ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ سخت سردیوں میں خواتین اور معمر حضرات گھروں میں بنے ہوئے ان حماموں میں بڑی بشاشت اور آرام سے نمازیں پڑھتے ہیں اور یہ بلا شبہ درست ہے۔اسی طرح جمعہ کی نمازوں میںجب مسجد بھر جاتی ہے تو بہت سارے لوگ حمام میں کھڑے ہوجاتے ہیں ۔اُن کی نماز ِ جمعہ کو غلط یا مکروہ قرار نہیں دیا جاسکتا ،نہ ہی کوئی شرعی وجہ ممانعت ہے۔