کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

اِتحادِ اُمت اہم ترین ضرورت
سوال:- امت میں اتحاد واجتماعیت پیدا کرنے کے لئے کیا تدبیر اختیار کی جائے ؟
عبدالقیوم خان۔(ایک سائیل) مقیم جموں
جواب:-اتحاد امت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔یہ اسلام کی تعلیم بھی ہے اور بقاء دین کی ضمانت بھی ہے جب کفر اور باطل آپس کے تمام سنگین اختلافات کے باوجود حق کے مقابلے میں اس طرح متحدہوجاتاہے کہ آگ اور پانی ایک ہوجاتے ہیں تو اہل حق کے لئے اس وحدت کی کتنی ضرورت ہے یہ عیاں ہے ۔اس اتحاد کے لئے یہ چند امور اپناناضروری ہے اسی صورت میں یہ خواب حقیقت بن سکے گا ۔
ہم سب مسلمان اس حقیقت کو اپنے قلب ودماغ میں ہروقت تازہ رکھیں کہ ہم سب ایک اللہ کو معبود برحق ماننے والے بندے ہیں۔ ہم سب حضرات سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا آخری رسول ماننے والے اُن کے امّتی ہیں ۔ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کریم اللہ کی آخری کتاب ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارا سب کا دین دین اسلام ہے اور یہی دین برحق ہے ۔ اس دین برحق کی بناء پر ہم سب آپس میں دینی بھائی ہیں ، ہمارا قبلہ بھی ایک ،ہماری نماز بھی ایک ہی طرح ، ہم اسلام کے تما م فرائض کو فرض اور تمام حرام کاموں کو حرام یقین کرتے ہیں ۔ ہم سب دنیا وآخرت کی کامیابی کے لئے صرف دین اسلام کو واحد راستہ یقین کرتے ہیں ۔ اس لئے ہم مسلمان سب اپنے اوپریہ لازم کرلیں کہ ہم تمام مسلمان چاہے کسی بھی مسلک ومشرب سے وابستہ ہوں ،کسی بھی رنگ نسل اور کسی بھی زبان وعلاقہ سے تعلق رکھتے ہوں ، علمی طور پر ہرایک کے ساتھ اسلامی اخوت اور محبت وحسن اخلاق کا مظاہرہ کریں گے ۔
ہم اپنے مسلک ومشرب کے اختلاف کو صرف علمی دائرے تک محدود رکھیں گے اور صرف مسلکی امورکی بناء پر امت کی اجماعیت کومتاثر نہ ہونے دیں گے ۔یعنی اپنا اپنا مسلک اپنا کربھی وحدت قائم رکھیں گے۔ ہم ایک دوسرے کے امام ، مقتدی اور پیشوا کو نہ تو مطعون کریں گے اور ان کی شان میں ایسی باتوں کے اظہار سے پوری طرح سے اور مکمل طور پر پرہزیرکریں گے جن سے ان کے ماننے والوں کی دل آزاری ہو اور جو آپس کے توڑ اور مخالفتوں کامحرک بنے ۔
ہم آپس میں بھی ایک دوسرے کا احترام اس بناء پر کریں گے کہ ہم سب مسلمان اور ایک ہی نبیؐ کے امتی ہیں ۔
ہم اپنے مسلک ومشرب پر پختگی سے کاربند رہنے کے ساتھ دوسرے کے مسلک پر نہ حملہ آور ہوں گے اور نہ ان کی تغلیط وتوہین کا وہ روّیہ اختیار کریں گے جو ردعمل میں اختلاف ونزاع پر منتج ہو۔ جیساکہ عموماً ہوتا رہتاہے ۔
ہم اپنے تمام فروعی اختلافات کو دین وعقیدہ کا اختلاف نہیں بننے دیں گے اور جہاں نزاع کی صورتحال ہووہاں یہ روش اپنائیں گے کہ ہرشخص اپنے مسلک پر قائم رہے مگر دوسرے کے مسلک کے متعلق زبان وقلم کو محتاط کرلیں۔
ہم اپنے بیانات ،خطابات اور دینی سرگرمیوں میں صرف دین وایمان ، اسلام کے اصول واساسی تعلیمات ، اسلامی کی حرام کردہ تمام باتوں ، آخرت کی فکر ، اسلامی تہذیب کے ارکان وخصائص ، اسلام کی معاشرتی اخلاقی اورروحانی تعلیمات کو اپنا موضوع بنائیں گے اور ہراُس بات کوموضوع بنانے سے احتراز کریں گے جس سے کسی دوسرے مسلک کی تغلیط ہوتی ہو اور جو نزاع واختلاف کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ ہاں اپنے مسلک کومثبت طور پر مدلل انداز میں بیان کرنے کا ہر ایک کو حق ہے لیکن انداز ایسا حکیمانہ ودعوتی ہوکہ دوسرے مسلک والا اگرسُنے تو وہ دل آزاری محسوس نہ کرے بلکہ دلائل سن کر ٹھنڈے دل سے سوچنے لگے کہ اس میں بھی حق ہوسکتاہے۔ ہم خاندان ،رنگ ،نسل اور علاقہ کی بنیاد پر اُٹھنے والے کسی اختلاف کا نہ حصہ بنیں گے نہ اُس کا محرک بنیں گے نہ اُس کا ساتھ دیں گے۔ ہاں! جتنا ہوسکے اُسے مٹانے کی سعی کریں گے ۔ کسی بھی دوسرے مشرب سے وابستہ افراد کو مطعون کرنے اور اُس کے مسلک کو چھیڑنے کے بجائے صرف اپنا مسلک بیان کرنے اور اگر دلائل معلوم ہوں تو ان کے بیان تک اپنے آپ کو محدود کریں گے ۔
وہ تمام امور جن کا تعلق اسلام کی بقاء سے ہے یا ایمان وکفر سے ہو ، یا سبھی مکاتیب ِ فکر کی مشترکہ مسلمات سے ہواُن میں ایک دوسرے کا تعاون کرنے کا مزاج اپنائیں گے اور ایک دوسرے کی اچھی اور تسلیم شدہ خدمات کا اعتراف وحوصلہ کریں گے ۔ دوسرے علاقوں اورملکوں کے اختلاف کو اپنے یہاں لا کر اپنا شیرازہ منتشر کرنے سے پرہیز کریں گے ۔
جب امت کا ایمان ، دین ، اسلام کی اساسات خود قرآن ،سنت نبویؐ اور تہذیب اسلامی کے وجود کے بقا کا مسئلہ ہو تو ایسی صورت حال میں جہراً یا سرّا پڑھنے یا نہ پڑھنے کو موضوع دین بنانا ہرگز مطلوب دین نہیں ہے ۔ جب ارتداد کی ہوا چل رہی ہو ، جب نئی نسل طرح طرح کے محرکات فواحش منکرات کے دلدل میں ڈوب رہی ہواُس وقت کسی بہت محدود اور فروعی مسئلہ کو نہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند ہے اور نہ ہی اس سے دین کو یا دینداری کو کوئی فائدہ ملنے والا ہے ۔ جب ارتداد کی مہم چلانے والے طبقے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور سرگرم ہیں تو اہل حق کو کیا کرنا چاہئے یہ خود آشکارا ہے ۔ اگر کسی مکان کو سیلاب نے گھیر لیا ہو اُس وقت یہ بحث کرنا کہ کمرہ میں سبز رنگ کریں یا سفید ، یہ سراسر نادانی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیورات:عورت کا حق
سوال: – میری شریک حیات کچھ ماہ پہلے مجھ سے لڑ جھگڑ کر میری مرضی کے بغیر اپنے ماں باپ کے گھر گئی اور اپنے ساتھ تمام زیورات وغیرہ، جو کہ ہم دونوں کے ہیں، اپنے ساتھ لے گئی۔ وہ بہت تیز مزاج یعنی گستاخ ہے۔ساتھ ہی اس کے ماں باپ اور بھائی وغیر ہ بھی ناسمجھ ہیں اور اس کو میرے خلاف بھڑکا رہے ہیں۔ ہماری شادی کو دو تین سال ہوگئے ہیں اور اللہ کے فضل و کرم سے ایک بچہ بھی ہوا ہے۔ اُس نے ہمارے پورے خاندان کو سب کے سامنے خواہ مخواہ ذلیل کیا اور اُس کی باتیں بالکل ناقابل برداشت اور ناقابل معافی ہیں۔ اس کی حرکتوں کے باوجود بھی میں اس کو گھر واپس لانے کیلئے تیار ہوں لیکن دو شرطوں پر(۱)وہ معافی نامہ لکھ کر دے (۲)وہ تمام زیورات لیکر واپس آئے۔
اب آپ سے گذارش ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں مجھے آگاہ کریں کہ آیا میں یہ دو شرطیں رکھنے کا جواز رکھتا ہوں یا نہیں؟ باقی میں نے مہر کی رقم نکاح کے وقت ہی نقد ادا کی ہے یہ زیورات دونوں کے گفٹ میں آئے ہیں۔
فاروق احمد… سرینگر
جواب:-نکاح کے ذریعہ دو اجنبی نامحرم آپس میں محرم سے زیادہ قریبی رشتہ کی ڈور میں بندھ جاتے ہیں اور یہ دو پہلے پوری طرح اجنبی تھے اب اتنے قریب آجاتے ہیں کہ اُن سے زیادہ محبت دوسرے کسی جوڑے میں نہیں ہوتی۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آپس میں دو محبت کرنے والے جیسے میاں بیوی ہوتے ہیں ویسی محبت کرنے والے اور کوئی میری نظروں میں نہیں ہے لیکن یہی میاں بیوی اپنے مزاج کی خرابی اور حق تلفی کی بناء پر ایک دوسرے کی زندگی کو اجیرن بنا دیتے ہیں۔ اس لئے دونوں ایک اصول اپنائیں کہ شوہر یہ طے کرے کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ ایسا رویہ اپنائوں گا کہ اُس کی زبان سے یہ جملہ ادا ہو جانا چاہئے جیسا شوہر اللہ نے مجھے عطا کیا ہے ویسا ہی سب کو نصیب ہو اور زوجہ یہ طے کرے کہ میری خدمت اور اطاعت کا رویہ اپنے شوہر کے ساتھ ایسا ہوگا کہ وہ کہہ اُٹھنا چاہئے جیسی بیوی اللہ نے مجھے عطا کی ہے ویسی اللہ ہر ایک کو عطا کرے۔بس دونوں اس سرٹیفکیٹ لینے کیلئے پوری کوشش کریں اس سے دونوں کو راحت ملے گی اور وہ ایک دوسرے کے رفیق بنیں گے اور دوسرا اصول یہ اپنائیں کہ اپنے فرائض ادا کرنا طے کریں۔اگر دوسرا شریک حیات اپنے فرائض ادا نہ کرے تو اُس سے آنکھیں بند رکھیں اورتیسرا اصول یہ اپنائیں کہ رخصتی سے پہلے جیسے دونوں بہت محتاط رہتے ہیں اور پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں ہر ایسی حرکت، جس سے دوسرے کے دل میں بال آنے کا خدشہ ہو اُس سے لازماًمکمل اجتناب کرتے ہیں اور قدم قدم پر یہ فکر رہتی ہے کہ کہیں کوئی ناراضگی نہ ہونے پائے۔بس وہی محتاط اور ہوشیاری کا رویہ شادی کے بعد بھی اپنائیں۔ اس طرح امید ہے کہ زندگی دونوں کی اچھی گذرے گی۔ اسلام نے دونوں کیلئے کچھ اخلاق و اصول مقرر کئے ہیں۔ عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکل جانا جرم ہے اورشدید گناہ ہے اورشوہر کا بیوی کو تنگ کرنا اور اُس کو ذہنی یا جسمانی تکلیف میں مبتلا کرنا بھی گناہ بھی ہے اور ظلم بھی ۔
عورت کا مالی حق مہر ہے جو بہرحال اسی کا حق ہے۔نیز وہ زیورات جو کسی عورت کو اُس کے میکے والوں نے دیئے ہوں وہ اُسی کی ذاتی و مملوکہ چیزیں ہیں۔ اسی طرح شوہر کے دیئے ہوئے زیورات بھی اُس کی ذاتی جائیداد ہے۔ ان تمام زیورات کے متعلق عورت کو حق ہے کہ وہ اُن کو اپنے پاس رکھے، میکے میں رکھے،یا کسی اور جگہ رکھے۔ اس معاملے شوہر نہ کوئی مداخلت کرے نہ کوئی اصرار کرے، نہ کچھ تقاضا کرے، نہ کوئی شکایت ،نہ کوئی گلہ کرے بلکہ عورت کو کلی اختیار دے کر کہے کہ اپنے زیورات جہاں چاہے رکھو یہ خالص تمہارے ہیں۔
جب عورت کو یہ اطمینان مل جائے کہ میرے زیورات کے متعلق میرے سسرال والوں کے دل میں اور میرے شوہر کے دماغ میں کوئی لالچی جذبہ نہیںہے تو پھر وہ میکے لے جانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرے۔ اس طرز عمل کے بعد عورت کے لئے لازم ہے کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر کہیں بھی حتیٰ کہ میکے بھی جانے سے احتراز کرے اور اس غرض کے لئے وہ شوہر کو پوری طرح اطمینان دلائے کہ وہ اس کی مکمل وفادار رہے گی۔ اُس کی خدمت اور جائز امور میں اُس کی فرمانبرداری کرے گی، اس کی اجازت کے بغیر وہ میکے بھی نہ جائے گی۔ اس اطمینان د لانے پر شوہر کا رویہ بدل جائے گا۔ اگر شوہر اس پر مصر رہے کہ وہ پہلے معافی مانگے پھر میں واپس لے جائوں گا اور اس پرخلافِ انا ہونے کی وجہ سے عورت کی طرف سے انکار پایاگیاتو یہ دوری اورکشیدگی برقرار رہے گی۔اس لئے صرف افہام و تفہیم پر اکتفا کرناقرین مصلحت ہے نہ کہ اس چیز کا مطالبہ کرنا جوعزت نفس کے خلاف ہو۔بس شوہر اپنی زبان سے یہ اطمینان دلادے کہ وہ اس کی ہر طرح خدمت کرے گا، اس کے حقوق ادا کرے گا اور اس پر کوئی ظلم نہ کرے گا اور ساتھ ہی یہ کہے کہ زوجہ بھی درست رویہ اپنانے کا عزم کرے اور دونوں ایک دوسرے کو تنگ کرنے سے اجتناب کرنے کا عہد کر کے پھر دوبارہ اپنی زندگی محبت اور ایک دوسرے کو راحت پہنچانے کے جذبے سے شروع کریں۔ اسی طرح حدود اللہ قائم ہو جائیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال-موجودہ دور میں پائی جارہی مرد وخواتین میںجہالت اور بے راہ روی کو دور کرنے کے لئے کیا مسجدوں میں ’’طبقہ خواتین‘‘ کا ہونا ضروری نہیں ہے تاکہ مسلمان مردوں کے ساتھ ساتھ مسلمان خواتین بھی تقاضائے اسلام سے واقف ہوں۔
حفیظ اللہ …راولپورہ، سرینگر
خواتین کے لئے مجالس علم واصلاح ضروری
جواب:-طبقہ خواتین کی اصلاح کے لئے گھروں میں دینی تعلیم ، نمازوں کی پابندی ، اچھی خواتین کی صحبت ، بہتر مفید اور اصلاحی کتابوں کا مطالعہ ، ایسے ادارے جہاں لڑکوں کے ساتھ اُٹھانا بیٹھنا ہو وہاں سے دور رکھنا ،ٹی وی اور اس طرح کے دوسرے وہ تمام ذرائع ابلاغ جو خرابیاں پھیلانے کا کام ہی زیادہ کرتے ہیں ان سے دور رکھنا ۔یہ وہ اقدامات ہیں جو اصل طریقہ اصلاح ہے ۔ مساجد میں خواتین کا آنا باعث اصلاح ہوگایا نہیں ۔اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ مردوں کے لئے مسجد میں نمازوں کے لئے حاضر ہونا لازم ہے مگر مساجد کی نمازوں اور وعظ وغیرہ میں کتنے نوجوان شرکت کرتے ہیںاور کتنوں کی اصلاح ہوتی ہے ۔ اصل طریقۂ اصطلاح وہی ہے جو حضرت نبی کریم علیہ السلام نے اختیار فرمایا تھا۔ امام بخاریؒ کی جامع صحیح میں کتاب العلم کے ذیل میں ہے کہ عورتوں کے لئے مستقل الگ سے مجلس علم واصلاح منعقد ہوتی تھی ۔ یہ طریقۂ اصلاح آج بھی اپنانا مفید ہے جیسے کہ امت مسلمہ ہر دور میں اپناتی آرہی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔