کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

کفن کی سلائی کرنا غیر مسنون
سوال:-کفن کے متعلق یہ بتایا جاتاہے کہ مردوں کے لئے تین اور عورتوں کیلئے پانچ کپڑے ہونے چاہئیں۔ ان تین میں ایک قمیص اور ایک ازار ہوتا ہے۔ اب ہمارا سوال یہ ہے کہ قمیص اور ازار سلائی کرکے استعمال کرنا ہے یا اس کے بغیر ہی استعمال کرنا ہے۔ حضرت نبی علیہ السلام کا کفن مبارک سلا ہوا تھا یا بغیر سلا تھا ؟ یہاں کشمیر کے کچھ علاقوں میں کٹائی او رسلائی کرکے ازار بنایا جاتاہے ۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کرنا صحیح ہے یا نہیں ؟
غلام نبی … کنگن
جواب:-کفن درحقیقت کوئی لباس نہیں جس کو سلائی کرکے مردے کو پہنایا جائے ۔ یہ دراصل تین چادریں ہیں جن کے نام لفافہ ، قمیص اور ازار ہیں ۔اس قمیص اور ازار کے لفظ سے یہ دھوکہ نہیں لگنا چاہئے کہ یہ کوئی سلے ہوئے کرتے یا پاجامہ کا نام ہے ۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین چادروں میں کفن دیا گیا تھا اور وہ تینوں سلے ہوئے نہ تھے۔
ان تین چادروں کی تفصیل یہ ہے :
لفافہ یعنی بڑی چادر …
پونے تین گزلمبی ،ڈیڑھ گز چوڑی
چھوٹی چادر قمیص …
ڈھائی گزلمبی سواگز یا ڈیڑھ گز چوڑی
تیسری چادر ازار…
دویا ڈھائی گز لمبی سوا گزیا ڈیڑھ گز چوڑی
دراصل لفظ قمیص اور لفظ ازار سے کچھ لوگوں کو یہ دھوکہ ہوتاہے کہ یہ سلے ہوئے ہوں گے تب ہی قمیص وازار کہلائیں گے ۔حالانکہ ان کپڑوں کے سلے ہوئے یا غیر سلے ہوئے ہونے کا فیصلہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ عمل سے کیا جائے اورپھر آپؐ کے بعد حضرات صحابہؓ اور اس کے بعد پوری اُمت کے اجتماعی طریقہ کار سے کیا جائے ۔بہرحال کفن بے سلا ہوا ہونا ہی سنت ہے ۔اس لئے کہ سیرت اور احادیث کی کتابوں سے یہی ثابت ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کفن مبارک یمن کے شہر بحون کی تین چادریں تھیں۔ جوسفیددھاری دار تھیں اور بغیر سلی ہوئی تھیں۔ملاحظہ ہو بخاری (کفن کا بیان)۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کفن تین لمبی چادریں تھیں۔ نیزمختصر سیرت رسول، الرحیق المختوم اور سیرت مصطفی از مولانا ادریس کاندھلویؒ۔ نیززادالمعاد از علامہ ابن قیم ؒ وغیرہ میں یہی مرقوم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طلاق عورت کے قبول کرنے پر موقوف نہیں
عورت رشتہ برقراررکھنے پر آمادہ نہ ہو تو خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے
سوال:۱- خاوند نے بیوی کو بیک وقت سہ طلاق بذریعہ ڈاک روانہ کی ہو لیکن بیوی بے خبر ہو ۔ تو کیا اس صورت میں طلاق جائز ہوگی اور یہ کہ مرد پر بیوی کے کیا حقوق لازم ہیں اور بچہ چار سال کا ہو تو وہ کس کے پاس رہے گا ۔والدہ کے پاس یا والد کے پاس ؟
سوال :۲-اگرشادی کے کچھ عرصہ کے اندر اندر نوبیاہتا دُلہن کو سسرال والوں کی طرف سے جہیز وغیرہ کم لانے کی وجہ سے تنگ طلبی اور طعنہ زنی کا سامنا ہو اور جس سے دلہن کی صحت اور دماغی حالت انتہائی خراب ہوجائے اوروہ سسرال خود کو غیر محفوظ سمجھ کر اپنے میکے میں پناہ لینے کے لئے مجبور ہوجائے اور قریباً ایک دوسال سے دلہا یا سسرال والے اپنی بہو کو اپنے گھر لانے میں ناکام ہوئے ہوں اور یہ کہ معززین اور برادری والے اس فیصلہ پر متفق ہوگئے کہ واقعات کی روشنی میں اس شادی کو برقرار رکھنا نہ صرف دلہن پر صریح ظلم ہے بلکہ جانبین کی طرف سے جانی اور مالی خطرہ ہو اور یہ کہ دلہن اپنے سسرال یاشوہر کے پاس جانے کے لئے بالکل تیار نہ ہو اور اس شادی کو برقرار رکھنا اپنے لئے نہ صرف صریحاً ظلم قرار دیتی ہو اور اپنی زندگی کو شوہر یا سسرال والوں کی طرف سے خطرے میں جانتی ہو تو عرض ہے کہ اس صورت میں کیا عورت شوہر سے خُلع لے سکتی ہے۔یہ کہ شریعت کی رو سے اس بارے میں کیا حکم ہے ۔
سوال:۳-دلہن کی جو اپنی جائیداد یعنی زیورات ، کپڑے ودیگر سامان کس کی ملکیت ہوگی اور دلہا کس چیز کا حقدار ہے ۔
سوال:۴- جب تک بیوی اپنے میکے میں ہے اور اس کو طلاق نہیں ہوئی ہے تو کیا بیوی تب تک نانِ نفقہ اپنے شوہر سے مانگ سکتی ہے ۔
عبدالاحد ……ہارون سرینگر
جواب:۱-شوہرنے جب اپنی زوجہ کو تین طلاق تحریراً دے دیں تو وہ چاہے اس کو قبول کرے یا نہ کرے اور اُس کوطلاق کی اطلاع ہویا نہ ہو بہرصورت طلاق واقع ہوگئی ۔ ان کارشتہ آپس میںمنقطع ہوگیا ۔ اس لئے کہ شریعت اسلامیہ نے وقوع طلاق کو عورت کے باخبر ہونے یا قبول کرنے پر موقوف نہیں رکھاہے ۔اس لئے عورت اگر طلاق کو مسترد کردے مگر اُس کا رشتہ نکاح ختم ہوچکا ہوتاہے ۔ اس سلسلے میں قرآن کی آیات، احادیث کی صراحت او رفقہائے اسلام کی تفصیلی بیانات سے یہی ثابت ہے۔
جواب:۲-زوجین میں اگر شقاق ہواورعورت کو اپنے شوہر سے ایسی شکایات ہوں کہ اب وہ رشتہ برقرار رکھنے پر کسی طرح بھی آمادہ نہیں ہے تو ظاہرہے کہ جبراً اس رشتہ کو باقی نہیں رکھا جاسکتا ۔ ایسی صورت حال میں زوجہ تو شوہر کو طلاق نہیں دے سکتی ۔ ہاں وہ خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے ۔چنانچہ احادیث میں اس سلسلے میںہے کہ حضرت ثابتؓ بن قیس کی زوجہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے شوہر کی شکایات کی اور رشتہ منقطع کرنے کی خواہش ظاہر کی تو حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم اُس کا دیا ہوا باغ (جومہر میں دیا تھا)واپس کرنے کو آمادہ ہو۔ اس خاتون نے عرض کیا کہ ہاں ۔ تو حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت ؓ سے فرمایا کہ تم باغ واپس قبول کرو اور اس کو اُس کے عوض میں طلاق دے دو ۔ یہ واقعہ بخاری ،مسلم ، ترمذی ،ابودائود وغیرہ میں موجود ہے ۔
اس حدیث کی بناء پر فقہائے اسلام نے یہ اصول مستنبط کیا کہ ظلم وزیادتی اور شقاق کی وجہ اگر شوہر کی طرف سے ہو تو اُسے طلاق کے عوض میں کوئی چیز لینا ہی جائز نہیں ہے ۔ اگر کوئی بھی چیز شوہر سے لی گئی تو یہ حکم قرآن کے خلاف ہوگاجب کہ سورہ النساء رکوع ۳ میں موجود ہے ۔
اور اگر نشوز ونافرمانی عورت کی طرف سے ہو تو پھر اس کے خلع کے مطالبہ کرنے کی صورت شوہر کے لئے جائز ہے کہ وہ مہر اور دیگر زیورات کے عوض طلاق دینے پر آمادہ ہو جائے جیساکہ اوپر کے واقعہ میں ہے ۔ چنانچہ بدائع الصنائع ، فتاویٰ عالمگیری، درمختار وغیرہ تمام کتابوں میں خلع کے بیان میں یہ اصول صراحتہً موجود ہے ۔
مہر اور زیورات سے زائد شوہر کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے ۔ خصوصاً کھانے پینے پر آنے والے خرچے کی قیمت طلب کرنا۔ اسی طرح بے جار سوم پر جو رقم خرچ ہوئی ہو اُس کا مطالبہ کرنا یا رشتہ ختم کرنے پر جُرمانہ کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے ۔ خلاصہ یہ کہ عورت کا مطالبۂ خلع اگر مبنی برحق نہ ہو اور اس کے باوجود شوہر بادلِ ناخواستہ خلع پر تیار ہوتواُسے مہر وزیورات طلب کرنے کا حق و اختیار ہے ۔
زیورات مہر اور دیگر اشیاء
جواب:۳-رشتہ برقرار ہوتو جوزیورات مہر اور دوسری اشیاء زوجہ کو دی گئی ہو اُن کا حق زوجہ کا ہی ہے ۔ چاہے زوجہ کو اس کے والدین اور اقارب نے دیئے ہوں یا شوہر اور اُس کے اعزاء نے دیئے ہوں اور جو تحائف شوہر کو دیئے گئے وہ اُسی کے ملکیت ہوں گے ۔
نفقہ کامعاملہ
جواب:۴- زوجہ اگر میکے میں رہے اور شوہر کے ساتھ یہ طے کرکے رہے کہ میرے میکے میں رہنے کا ایام نفقہ ادا کرنا ہوگا تو اس صورت میں میکے میں رہنے کے دوران نفقہ اُس کا حق ہے اور اگر لڑائی ونزاع کی بناء پر عورت کو نکال دیا گیا یا وہ فرار ہوکر گئی یا میکے میں پناہ لینے پر مجبور کی گئی تو اس صورت میں تحقیق حال کے بعد فیصلہ ہوگاکہ نفقہ لازم ہوسکتاہے یا نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال-اکثر مرغ فروش ، مرغ ذبح کرکے اندر سے صفائی کرنے سے پہلے ہی اُسے گرم پانی میں ڈال دیتے ہیں اور اس کے بعد مرغ کی باہر سے صفائی کرتے ہیں ، غالباً اس لئے کہ اس سے پنکھ وغیرہ نکالنے میں آسانی ہوجاتی ہے ۔ اس کے بعد اندر سے صفائی کرتے ہیں ۔ کیا ایسا کرنا حرام نہیں ؟
افتخار حسین … کشتواڑ
ذبح مرغ…ایک اہم مسئلہ
جواب:- مرغ کو ذبح کرنے کے بعد اندر کی آلائش ،یعنی انتڑیاں اور بیٹ کی تھیلی وغیرہ ،نکالے بغیر گرم پانی میں ڈالنا ہرگز دُرست نہیں ۔ اگر ایسا کیا گیا تو مرغ کا گوشت ناپاک ہوجاتاہے ۔ اگر اندر کی ساری آلائش نکال دینے کے بعد مرغ کو گرم پانی میں ڈالا جائے تاکہ اُس کے پَر آسانی سے الگ ہوجائیں تو اس صورت میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
جب کسی مسلما ن نے دعوت کی ہو تو صرف شک کی بناء پر یہ تحقیق کرنا لازم نہیں ہے ۔ اس لئے ایک مسلمان کے متعلق یہ بدگمانی نہیں کرسکتے کہ وہ حرام یا ناپاک چیز کھلائے گا ۔ لیکن اگر اس کا یقین ہوکہ کھانے میںحرام یا ناپاک اجزاء کی ملاوٹ ہے تو اُس دعوت میں شریک ہونا ہی دُرست نہیں ہے ۔ اگر قرابت داری یا حق ہمسائیگی کی بناء پر شرکت کرنا ضروری ہوتو اُس کھانے سے پرہیز کیا جائے جس میں حرام یا نجس کی آمیزش ہو۔