کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال:۱-قربانی کس پر لازم ہے اور جس پر قربانی لازم نہ ہو اگر وہ قربانی کرے گا تو کتنا ثواب ہوگا او رجس پرقربانی لازم ہو وہ نہ کرے تو اس کے لئے شریعت کا کیا حکم ہے ؟
سوال :۲-آج کل بہت سے دینی ادارے بھی اور فلاحی امدادی یتیم خانے قربانی کے اجتماعی نظام کے لئے اپیلیں کرتے ہیں ۔کیا اس طرح قربانی ادا ہوجاتی ہے ؟ اگر کسی کو اس طرح کے ادارے سے قربانی کرنے کی ضرورت ہوتو اس بارے میں کیا حکم ہے اور اگرکوئی بلاضرورت صرف رقم کم خرچ کرنے کے لئے ایسا کرے تو کیا حکم ہے ؟
عبدالعزیز ……کپوارہ،کشمیر
قربانی کِن پر واجب ؟
جواب:۱جس شخص کے پاس مقدارِ نصاب مال موجود ہو اُس پر قربانی واجب ہے ۔ نصاب 612گرام چاندی یا اُس کی قیمت ہے۔ اس کی قیمت آج کل کشمیر میں بیالیس ہزار (42,000 )روپے ہے ۔اب جس شخص کے پاس عیدالاضحی کے دن صبح کو اتنی رقم موجود ہو تو اُس شخص کو شریعت اسلامیہ میں صاحبِ نصاب قرار دیا گیا ہے ۔ ایسے شخص پر ،وہ مرد ہو یا عورت، قربانی کرنا لازم ہے ۔ اگرایام قربانی میں اُس نے قربانی نہ کی تو اُس کے بعد اُس کو اتنی رقم صدقہ کرنا لازم ہے ۔ اگر قربانی بھی نہ کی اور بعد میں صدقہ بھی نہ کیا تو وہ گنہگار ہوگا۔اب جس پر قربانی لاز م ہے جب وہ قربانی کا عظیم عمل کرتاہے تو اُسے بے انتہا فضیلت حاصل ہوتی ہے ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قربانی کے جانور کاخون زمین پر گرنے سے پہلے پہلے قربانی کرنے والے کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ا یک حدیث میں ہے قربانی کے جانور کے جسم پر جتنے بال ہوتے ہیں اُتنی نیکیاں اُس کے نامۂ اعمال میں لکھی جاتی ہیں ۔ ایک حدیث میں عیدالاضحی کے دن قربانی سے زیادہ اور کوئی عمل اللہ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے ۔
قربانی وکالتاً دُرست
جواب:۲-اجتماعی قربانی کا یہ سلسلہ جویہاں بہت سے دینی مدرسے اور کچھ ادارے انجام دیتے ہیں ، یہ دُرست ہے ۔ یہ دراصل وکالتاً قربانی ہے ۔ جیسے کہ وکالتاً صدقہ وزکوٰۃ اداہوتی ہے ،اسی طرح قربانی بھی ادا ہوتی ہے ۔جب زکوٰۃ دینے والا کسی معتمدادارے کو زکوٰۃ دیتاہے او روہ ادارہ اُس زکوٰۃ دینے والے شخص کی طرف سے وکیل بن کر مستحقین پر زکوٰۃ صرف کرتاہے۔ اس طرح کوئی ادارہ قربانی کرنے والوں کی طرف سے وکیل بن کر قربانی کرتاہے ۔
حضرت نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی قربانی (جو حج کی قربانی تھی)کے 100اونٹوں میں سے 63اونٹ خود ذبح فرمائے اوربقیعہ اونٹ حضرت علی ؓ نے قربان کئے ۔ یہ حضرت علی ؓ کا حضور صلی اللہ علیہ سولم کی طرف سے وکالتاً قربانی کرنا تھا۔اسی طرح خواتین کی طرف سے اُن کے مردذبح کرتے ہیں یا اکثر مسلمان خود اپنے ہاتھ سے ذبح نہیں کرتے بلکہ قصائی سے ذبح کراتے ہیں ۔ یہ سب وکالتاً قربانی ہوتی ہے ۔ اس طرح وکالتاً قربانی کرنے کا یہ سلسلہ پورے عالم میں حتیٰ کہ حرمین الشریفین میں بھی ہمیشہ جاری ہے اور آج بھی لاکھوں قربانیاں وکالتاً ہوتی ہیں۔ اس لئے یہ مکمل طور پر دُرست ہے ۔اس میں رقم کم نہیں برابر خرچ ہوتی ہے۔بڑے جانورمیں سات حصے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوست ہائے قربانی کے معاوضہ سے تنخواہ کی ادائیگی ناجائز
سوال:-کچھ پرائیوٹ سکول ہیں ، جہاں مروّجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ عربی کتاب منہاج العربیہ بھی پڑھائی جاتی ہے ۔ یہ سکول چونکہ پرائیوٹ ہیں ۔ اس لئے یہ بچوں سے فیس وصول کرتے ہیں ۔ کیا ان سکولوں میں قربانی کی کھالیں دینا درست ہے ۔یہ سکول قربانی کی کھالیں جمع کرتے ہیں پھر ان کو فروخت کرتے ہیں اور یہ رقم تنخواہوں پر خرچ کرتے ہیں۔اب آپ سے سوال ہے کہ کیا ایسا کرنا درست ہے ۔ یہ کھال لینا دینا اور تنخواہوں پر خرچ کرنا کیسا ہے ؟
غلام محمد خان … سونا واری
جواب:-قربانی کی کھال اپنے ذاتی استعمال میں لانا اسی طرح درست ہے جیسے قربانی کا گوشت اپنے ذاتی کھانے پینے میں استعمال کرنا درست ہے لیکن قربانی کی کھال کو اگر فروخت کیا گیا تو اب یہ قیمت ٹھیک اسی طرح کا حکم اختیارکرلیتی ہے جیسے زکوٰۃ اور صدقۂ فطر کی رقم کا حکم ہے اور اگر کسی نے جانور قربان کرکے اس کا گوشت فروخت کردیا تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے کہ اب قربانی کے گوشت کی قیمت زکوٰۃ کا حکم رکھتی ہے ۔ لہٰذا چرم قربانی کی قیمت صرف غریبوں ،مسکینوں اور محتاجوں کا حق ہے ۔ یہ نہ کسی تعمیر پر خرچ کرنا درست ہے نہ کسی معاوضہ میں خرچ کرنا جائز ہے ،نہ تنخواہوںمیں یہ رقم خرچ کرنا درست ہے ۔
کوئی بھی دینی مدرسہ یا سکول چاہے وہ کچھ عربی زبان بھی پڑھائے یا دینیات کا نصاب بھی رکھتے ہوں ان سب میں سے کسی کے لئے شرعاً یہ ہرگز جائز نہیں ہے کہ چرم قربانی کی قیمت تعمیرات پر یا تنخواہوں پر خرچ کریں ۔ جو مدرسہ یاسکول ایسا کرتاہے،ان کو چرم قربانی دینا بھی ناجائز ہے اور ان کو جمع کرنا اور پھر تنخواہوں پر خرچ کرنا بھی ناجائز ہے۔سکول میں جو سٹاف کام کرتا ہے یا کسی مدرسہ میں جو عملہ کام کرتاہے ان پر بھی لازم ہے کہ وہ سکول انتظامیہ سے مطالبہ کریں کہ وہ ناجائز طور پر تنخوا ہ دے کر ہمارے لئے غیر شرعی رقم استعمال کرانے کا اقدام ہرگز نہ کریں ۔ وہ دینی مدرسہ جہاں بچوں کے کھانے پینے ، کپڑوں ،علاج معالجے اور کتابیں دینے کا نظام ہے اور وہ زکوٰۃ ، صدقۂ فطر اور چرم قربانی کی رقم ان ہی ضروریات میں خرچ کرتے ہیں اور اس کا پورا اہتمام کرتے ہیں کہ زکوٰۃ،چرم قربانی تعمیرات پر، تنخواہوں پر غیر شرعی طور پر خرچ نہیں کرے ۔بس ایسے ہی دینی اداروں میں چرم قربانی دینا درست ہے ۔ بلکہ اس میں کئی فائدے ہیں۔ اشاعت دین میں تعاون ، تعلیم دین پڑھنے والے غریب طلبہ کی اعانت وغیرہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صاحبِ نصاب میاں بیوی پر الگ الگ قربانی لازم
سوال:۱- کیا قربانی کرتے وقت ان تمام افراد کا نا م لینا ضرروری ہے یا نہیں؟
سوال:۲- کیا ایک قربانی پورے گھر کی طرف سے کافی ہوجاتی ہے یا گھر کے ہر فردکو الگ الگ قربانی کرنا ضرور ی ہے ۔کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ صرف ایک قربانی کرنے سے پورے گھر والوں کی قربانی ادا ہوجاتی ہے ، کیا یہ صحیح ہے ۔
منظور احمد… گاندربل
جواب:۱-قربانی کرتے وقت ان افراد کا نام لینا ہرگز لازم نہیں ۔ بس صرف نیت یعنی دل میں ارادہ ہو کہ یہ جانور فلاں فلاں شخص کی طرف سے قربان کیا جارہاہے اور ذبح کرنے کی نیت لفظوں میں پڑھ کر پھر ذبح کیا جائے۔ جن افراد کی طرف سے جانور ذبح ہورہاہے ان کا ارادہ کرنااور پھر جانور کی قیمت ادا کرنا اور گوشت لے کر خود کھانا یا تقسیم کرنا کافی ہے ۔ بوقت ذبح نام بنام لے کر ذبح کرنے کا شریعت سے حکم نہیں ہے ۔
جواب:۲-جس فرد پر قربانی لازم ہوگئی جب اس نے قربانی کی تو وہ صرف اس ایک فرد کی طرف سے ادا ہوگی۔ سارے گھروالوں کا فریضہ اس سے ہرگز ادا نہ ہوگا۔اور یہ ایسا ہی ہے کہ اگرگھر کے کئی افراد پر زکوٰۃ لازم ہو تو صرف ایک فرد کے زکوٰۃ ادا کرنے سے سب کی طرف سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی ۔ یا صدقۂ فطر شوہر پر لازم ہے اور بیوی پر بھی ۔اب شوہر صرف اپنا صدقہ فطر ادا کرے تو اس سے بیوی کا صدقۂ فطر ادا کئے بغیر کیسے ادا ہوجائے گا یا مثلاً گھر کے دو افراد پر کسی کا قرض ہوتو صرف ایک فرد اپنا قرضہ ادا کر ے تو دوسرے کا اداکئے بغیر کیسے اداہوگا۔اسی طرح مثلاً مرد پر اس کے اپنے صاحب مال ہونے کی بناء پر قربانی لازم ہواور اس کی زوجہ پر خود اس کے صاحب مال(مہر ، زیورات وغیرہ) ہو نے کی وجہ سے قربانی لازم ہو تو اب صرف شوہر کے قربانی کرنے سے بیوی کا فریضہ ہرگز ساقط نہ ہوگا اور اگر بیوی قربانی کرے تو شوہر کی طرف سے ہرگز وہ قربانی ادا نہ ہوگی بلکہ دونوں کو الگ الگ قربانی کرنا لازم ہے۔دراصل ایک گھر میں اگر صرف ایک فرد پر قربانی لازم تھی اور اس نے وہ کی تو اس ایک قربانی کی برکات ، اثرات اور اس کے گوشت سے فائدہ اٹھانے میں سبھی گھروالے شریک ہو جائیں ، اس کے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں کہ ایک فرد کا ادائیگی فریضہ سبھی گھروالوںپر لازم ہونے والا حکم اورقربانی کیسے ادا ہوجائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قربانی کی کھال کے مصارف
سوال:-قربانی کی کھال کن کن مصارف پر خرچ کرسکتے ہیں ۔ہماری ایک درسگاہ ہے جس میں صبح شام بچے پڑھتے ہیں ۔پڑھانے والے اُستاد کو تنخواہ بھی دینی ہوتی ہے اور درس گا ہ کی بلڈنگ میں بھی کچھ تجدید کی ضرورت ہے ۔ درسگاہ کے لئے فرش کی بھی ضرورت ہے۔ اب گذارش ہے کہ کیا ہم قربانی کی کھالیں جمع کر کے ان کاموں پر خرچ کرسکتے ؟
محمد حسنین …ہندوارہ
جواب:- قربانی کی کھال کا استعمال دو طرح ہوا کر تاہے ۔ ایک تو یہ کھال جو ں کی توں استعمال کی جائے مثلاً جائے نمازبنائی جائے یا بچھانے کے لئے استعمال کی جائے یا اس کا مشکیزہ یعنی آٹا وغیرہ رکھنے کے لئے تھیلا بنایا جائے ۔ اس طرح کا استعمال خود قربانی کرنے والے کے لئے بھی جائز ہے اور اگر کسی دوسرے شخص کو وہ کھال دے اور اسی طرح کا استعمال کرے تو یہ بھی جائزہے۔ چاہے لینے والا امیر ہو یا غریب اور اگر وہ کسی دوسرے شخص کو وہ کھال دے اور وہ اسی طرح کا استعمال کرے تو یہ بھی جائزہے۔ چاہے لینے والا امیر ہو یا غریب۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے قربانی کا گوشت، قربانی کرنے والا خود بھی استعمال کرسکتا ہے اور دوسروں کو بھی دے سکتاہے ۔ چاہے گوشت لینے والا امیر ہو یا قریبی رشتہ دار۔ دوسرا طریقہ استعمال کا یہ ہے کہ کھال فروخت کردی جائے اور اس کی قیمت سے فائدہ اٹھایا جائے ۔ اگر قربانی کی کھال فروخت کردی گئی تو یہ قیمت ، قربانی کرنے والا خود بھی استعمال نہیں کرسکتا ہے اور نہ ان افراد کو یہ قیمت دے سکتے ہیں جہاں زکوٰۃ صرف کرنا ناجائز ہے مثلاً مسجد ، درسگاہ کی تعمیر ، معلم کی تنخواہ ، لائبریری یا شفاخانہ وغیرہ ۔دراصل اس کے لئے اصول یہ ہے کہ قربانی کی کھال جوں کی توں ہر شخص اور ہر جگہ استعمال کرنا جائز ہے حتیٰ کہ مسجدوں میں بطور جائے نماز بھی استعمال کرنے کی اجازت ہے لیکن اگر قربانی کی کھال فروخت کردی گئی تو اب یہ قیمت صدقات واجبہ میں شامل ہو جائے گی جیسے زکوٰۃ اور صدقۂ فطر وغیرہ ۔ اس صورت میں اس کا مصرف وہی ہوگا جو زکوٰۃ وغیرہ کا ہے ۔اور یہ نہ مساجد اور نہ مدارس کی تنخواہ نہ تعمیرات اور نہ دوسرے سماجی یا رفاہی ادارے اس کا مصرف ہیں ۔یہ تفصیل جواہرالفقہ (از مفتی محمد شفیع صاحب سابق مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند و مفتی اعظم پاکستان)میں بھی موجود ہے ۔اور فتویٰ کی مستند کتابوں مثلاً فتاویٰ محمودیہ ، فتاویٰ رحیمیہ وغیرہ میں بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ مسائل قربانی از مولانا محمد رفعت قاسمی میں بھی یہ مسائل مختلف کتابوں کے حوالوں سے موجود ہیں ۔