کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

 

حجراسود کو بوسہ دینا

  ضعیف لوگ کیا کریں؟

سوال:- حجراسود کو بوسہ دینے میں بوڑھے اور ضعیف لوگوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ بوسہ دینا ضروری ہے ۔ اگر بھیڑ کے خطرے کی وجہ سے کوئی بوسہ نہ دے سکے تو اس کے لئے شریعت کا حکم کیاہے ، کیا عورت کو مردوں کے بیچ میں جاکر بوسہ دینے کی اجازت ہے ؟

ایک مسلمان خاتون…سرینگر

جواب:-حجراسود کو بوسہ دینااستیلام کہلاتاہے ۔ یہ سنت ہے ۔ بلا کسی عذرکے اس کو چھوڑنا ترکِ سنت قرار پائے گا۔ اگر کسی نے یہ استیلام نہ کیا تو بھی اس کا حج اور عمرہ دونوں درست ہیں ، ایسی بھیڑ میں کہ جس میں عورت کا جسم اجنبی مردوں سے ٹکراجائے ، استیلام کے لئے جانا ہی جائزنہیں ہے اور اگر کوئی معمر ہو اور حجر اسود کے قرب بھی جانے کی ہمت نہ کرے یا وہاں لگنے والے دھکے سے گرنے یا چوٹ لگنے کا خطرہ ہو ۔اس لئے اس نے حجر اسود کا استیلام نہ کیا تو بھی حج درست ہے اور کوئی گناہ نہ ہوگا۔

یاد رہے کہ حجر اسود کے مقابل ہوکر دور سے اگر دونوں ہتھیلیاں حجر اسودکی طرف کرنے کے بعد ان ہتھیلیوں کو ہی چوم لیا جائے تو حجر اسود کا استیلام قرار پائے گا ۔ اسلئے مایوس ہونے کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غیر شادی شدہ بیٹیوں کی موجودگی میں حج

سوال:-اگر کسی کے گھر میں جوان بیٹیاں ہوں ۔ اُن کی شادیوں کا مسئلہ ہو اور آپ جانتے ہیں کہ آج کل شادیوں پر کتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے۔

اب اگر کوئی شخص اپنے موجود سرمایہ کو حج پر لگائے تو اِن بیٹیوں کی شادیاں کرنامشکل ہو جائے گا اور اگر شادیوں کے لئے سرمایہ بچائے توحج نہیں کرپاتا۔ بہت سے لوگوں کا مسئلہ یہی ہے ، ایسی حالت میں شریعت کا کیا حکم ہے ۔

سیف الدین گنائی ……سرینگر

جواب:-شادیوں پر آنے والے طویل اور کمر توڑ خرچے صرف غیر شرعی اور جاہلانہ رسمیں ہیں ۔ جب یہ رسمیں شرعی طور پر قابل ترک ہیں تو ان رسموں کو پورا کرنے کے لئے شریعت کا مال خرچ کرنے کا جواز کیسے ہوسکتاہے ۔ اسلئے وہ مسلمان جس کے اتنا سرمایہ ہے کہ وہ حج کرسکتاہے ، اس پر شرعاً لازم ہے کہ وہ حج کرے اور اگر وہ یہ سرمایہ بچائے اور حج کے بجائے ان غیر شرعی رسوم پر خرچ کرے تو یہ ترک فرض کا جرم ہوگا ، غیر شرعی رسوم کی پاسداری کا جرم بھی ہوگا اور مال کو ادائیگی فریضہ کے بجائے رواج کو فروغ دینے پر صرف کرنے کا جرم بھی ہوگا ۔

درحقیقت رسموں کا مقابلہ کرنے کے لئے مضبوط ارادے ، ذہنی آمادگی اور بیجا تنقیدوں کے مقابلے میں مضبوط چٹان بننے کا عزم ہو اور جب ان غیر شرعی رسموں کی فضول خرچیوں کے بھیانک نقصانات کا ادراک ہو تو پھر اس سے اجتناب مشکل نہیں ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال:۱-اکثر لوگ حج پر جانے سے پہلے گھر پر پُرتکلف دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں ۔ کیا یہ جائز ہے ۔

سوال:۲چھ لوگ مسجدمیں دویا تین سال کے چھوٹے بچوں کو بھی نماز پڑھنے کے لئے ساتھ لاتے ہیں ۔ کیا یہ عمل دُرست ہے ؟

عبدالرشید بٹ …… اسلام آباد

 

حج سے واپسی پر دعوت شکرانہ

جواب:۱-حج پر روانہ ہونے سے پہلے دعوت صرف ایک رواج ہے، یہ کوئی شرعی چیز ہرگز نہیں ۔اس لئے بہتر یہ ہے کہ حج سے واپس آکر اگر بطور شکرانہ کے دعوت کھلائی جائے اور وہ بھی اسراف سے بچ کر اور نیت میں دکھلاوےاور  نمائش کے بجائے فریضہ حج کی ادائیگی پر بطور شکر کے دعوت کھلائی جائے ۔ اس نیت سے یہ دعوت رسم نہ رہے گی ۔

شعورسے عاری بچوں کو مسجد میں نہ لائیں 

جواب:۲- ایسے چھوٹے بچے جو ابھی باشعور نہ ہو ں اُن کو مسجد میں لانا منع ہے ۔چنانچہ حدیث میں ہے اپنی مسجدوں کو بچوں اور مجنونوں سے محفوظ رکھو۔

جوبچہ باشعور ہو یعنی نماز میں کھڑا ہو تو ادب واحترام سے کھڑا رہے ۔ نہ نماز میں کھیل تماشہ کرے ، نہ ہنسی یا چھیڑخوانی کرے ، نہ نمازیوں کے درمیان خلل اندازی کرے ۔ایسا بچہ باشعورہے ۔لیکن جو اس طرح مسجد میں نہ رہ سکے وہ ابھی کم سن اور بے شعور ہے ۔ایسے بچے مسجد میں نہ لائے جائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال :- کتنے سال کے عمر کے بچوں کو ہم صفوں میں شامل کرسکتے ہیں ؟

ایک سائل

نابالغ بچوں کو پچھلی صف میں کھڑا کیا جائے 

جواب:-بچہ اگر بالغ ہوگیا ہو تو اُس کو مردوں کی صف میں کھڑا کرنا دُرست ہے ۔ اگرنابالغ ہو تو پچھلی صف میں کھڑا کیا جائے جس وقت بچے پر غسل فرض ہو جائے اُس وقت وہ بالغ ہوجاتاہے ۔ اگر احتلام نہ ہو اور اسی حال میں عمرپندرہ سال ہوگئی ہو تو پھر پندرہ سال کی عمر ہونے پر بالغ قرار پائے گا اور جب بالغ قرارپائے تو پھر بالغ مردوں میں صف میں کھڑا ہونا درست ہے ۔ دراصل شریعت نماز میں صفوں کی ترتیب اس طرح قائم کرنے کا حکم دیاہے کہ پہلے بالغ مرد صف کھڑی کریں ۔ پھر بچوں کی صف بنائی جائے تاہم اگر کبھی کوئی نابالغ بچہ صف میں کھڑا ہوگیا تو اس سے بالغ مردوں کی نماز میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال:- اکثر دیکھنے میں آیاہے کہ کشمیر کے دریائوں اور ندی نالوں کے آس پاس رہنے والے لوگ صبح یا شام کے وقت روزانہ اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ دریا کے کنارے یا پلوں کے اوپر سے دریا میں بلاکسی جھجک کے پھینک دیتے ہیں جس سے پانی آلودہ ہوتاہے ۔قرآن وسنت کی روشنی میں یہ بتائیں کہ یہ عمل کہاں تک درست ہے ؟

فاروق احمد …نواب بازار سری نگر

پانی کو آلودہ کرنے سے 

پرہیز کرنے کی ضرورت 

جواب:-پانی اللہ کی عظیم نعمت ہے اور اس کی قدر اُس وقت ہوتی ہے جب اس کی قلّت کا سامنا کرنا پڑے ۔آج کے عہد میں ماحول کی آلودگی ایک عالمی بحران کی صورت اختیار کرچکاہے ۔اس آلودگی کا ایک بڑا سبب پانی کو اس طرح سے خراب کرنے کا وہ وطیرہ ہے جو اس طرح پایا جاتاہے کہ جو کسی طرح بھی دُرست نہیں۔ حدیث میں ہے : –

تین ،اُن غلطیوں سے پرہیز کرو جن کی بناء پر لعنت اُترتی ہے ۔

راستے پر پیشاب پاخانہ کرنا۔ پانی میں پاخانہ کرنا اور پھل دار درخت کے نیچے غلاظت ڈالنا ۔

گھر کا کوڑا کرکٹ پانی کو خراب کرنے والا وہ مواد ہے کہ جس کے بعد یہ پانی نہ انسانوں کے لئے قابل استعمال رہتاہے ،نہ جانوروںکے لئے اور نہ ہی زمینوں اور باغوں کی آب پاشی میں اس کا استعمال مفید ہے ۔

اس لئے اس سے پرہیز کرنا ضروری ہے اور اس کا تعلق پوری قوم سے ہے کہ قومی شعور پیدا ہو جائے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال:-دورانِ نماز اگر نمازی کا وضو ٹوف جائے تو نمازی اُس صورت میں کیا کرے ؟

مشتاق احمد…سرینگر

وضو ٹوٹ جائے تو نماز سے فوراً ہٹ جائیں

جواب:-نماز میں وضو ٹوٹ جائے تو فوراً وہاں سے ہٹ جائے۔ اپنی ناک اپنے ہاتھ سے پکڑ کر باہرنکلیں تاکہ دوسروں کو یہ محسوس ہوکہ شاید نکسیر پھوٹ رہی ہے ۔پھر وضو کرکے آئیں اور نئی نیت کرکے نماز میں شامل ہوجائیں پھر جو رکعتیں چھوٹ گئی ہوں وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔