ڈاکٹر نذیر مشتاق ایک حساس قلمکار

طارق شبنم

ایک طبی معالج اگر طبی میدان میں نام اور شہرت کمائے تو کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن جب یہی معالج اد بی میدان میں بھی عزت و شہرت کمائے تو اس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے ۔پیشے سے ڈاکٹر نذیر مشتاق ایک ایسے نامور معالج ہیں جنہوں نے طبی میدان میں نام کمانے کے ساتھ ساتھ اپنے قلم کی جولانیوں سے علم و ادب کے گلشن کو مہکا کرادبی میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے ۔راقم نے بچپن سے جن اہل قلم کی تحریروں کو پڑھا اور پسند کیا ہے ان میں نذیر مشتاق بھی شامل ہیں ۔ ان کی تحریریں نہ صرف سبق آموز ہوتی ہیںبلکہ ان میںایک کشش موجود ہوتی ہے جو قاری کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہے ۔

 

 

ڈاکٹر نذیر مشتاق کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں آپ ایک بہترین ادیب ،کالم نگار،افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس ہیں اور آپ کی کئی کتابیں منظر عام پر آکر قارئین سے دار و تحسین حاصل کر چکی ہیں ۔عوامی حلقوں میں انہیںعزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ،خاص طور پر بحیثیت ایک نرم دل طبی معالج ،کالم نگار اور افسانہ نگار ان کی ایک خاص پہچان ہے۔ان کا اصل نام نزیر احمد لون ہے لیکن ادبی حلقوں میں ڈاکٹر نذیر مشتاق کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔آپ کی پیدائیش تاریخی قصبہ سوپور کے زالورہ علاقے میں 11وسمبر1951؁ء میں ہوئی۔گورمنٹ ہائی سکول بٹہ مالو سرینگر سے میٹرک پاس کرکے ایس ۔پی کالج سرینگر میںمزید تعلیم پانے کے بعد آپ نے میڈیکل کالج سرینگر سے ایم ۔بی ۔بی ایس اور ایم ۔ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں اور اسی کالج میں مدرس کے عہدے پر فائیز ہو گئے۔ آپ بچپن سے ہی انتہائی ذہین تھے اور ادب کی طرف بھی مائیل تھے ،سو چھوٹی عمر میں ہی لکھنا شروع کیا ۔ آٹھویں جماعت میں ہی ان کا پہلا مضمون ’’جنہیں دن میں پانچ بار پکارا جاتا ہے ‘‘رسالہ ’’نور‘‘رام پور (یوپی) میںکل ہند انعامی مقابلہ کے سلسلے میں شایع ہوا اور پہلا انعام حاصل کیا ۔آپ کا پہلا افسانہ ’’ بد نصیب 1970؁ء میں روز نامہ آفتاب کے ادبی ایڈیشن میں شایع ہوا جس کے بعد آپ نے مڑ کر نہیں دیکھا اور آپ کے افسانے اور مضامین آ فتاب میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہے۔آپ کا تحریر کردہ طبعی کالم ’’ٖٖفکر صحت‘‘روز نامہ کشمیر عظمیٰ میں سالہا سال تک تواتر کے ساتھ شائع ہوتا رہا جو عوامی حلقوں میں نے حد مقبول ہوا جس میں آپ صحت کے مسائل کے متعلق بے حد اہم اور فائیدہ مند جانکاری فراہم کرتے رہے،بعد ازاں ان کالموں پر مزید محنت کرنے کے بعد اُس کتابی صورت دے کر ’’صحت کامل ‘‘نامی ضخیم کتاب کی صورت میں شائع کیا گیا۔ اس کتاب کو بھی علمی ،ادبی اور طبی حلقوں میں کافی مْقبولیت حاصل ہوئی ۔ اس کتا ب کے بارے میں بزرگ فکشن نگار نور شاہ لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔

 

 

’’مادی طور پر انسان لمحہ لمحہ بے چینی ،بے قراری اور بے اطمینانی کا شکار بنتا جا رہا ہے ۔اپنی اسی بے اطمینانی کو دور کرنے یا یوں کہیےکہ سکون قلب حاصل کرنے کے لئے وہ نت نئے راستے اپنانے کی کوشش کر رہا ہے مگر یہ سارے سہارے غیر فطری ہیںاور اس لئے انسان کی بے اطمینانیوں میں روز بروز اضافہ ہوتاجا رہا ہے۔ حالت یہ ہیں کہ ان گنت لوگ رات میں سونے کی دوائی کی گولی کا سہارا لیتے ہیں کیوںکہ ان کے اندر کی بے اطمینانی انہیں سونے نہیں دیتی ۔اسی طرح خود کشی کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے ،خود کشی دراصل مایوسی ،بے سکونی ،بے یقینی اور بے اطمینانی کی آخری منزل ہے ۔اعصابی تنائو بڑھتا جا رہا ہے یہاں تک کہ دور وحشت میں سانس لینا مشکل بنتا جا رہا ہے ،صحت مند جنس کی خوشبو پامال ہوتی جا رہی ہے۔جسمانی اور ذہنی اذیت کا انجانا خوف انسانی رگوں سے خون نچوڑ رہا ہے ۔ایسی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ انسانی جسم کو مختلف بیماریوں نے قید کر رکھا ہے ۔یہ ٹھیک ہے کہ ان بیماریوں کے روک تھام کے لئے نئی نئی ادویات معرض وجود میں آئی ہیں اور تواتر کے ساتھ آ بھی رہی ہیں ۔نئے نئے تجربات اور مشاہدات سے کام لیا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی نئی نئی انجانی ،ان دیکھی اور بے نام بیماریاں منظر عام پر آرہی ہیں ۔نئے نئے روگ انسانی صحت کو گھر لیتے ہیں۔ان دونوں تصویروں کو دیکھتے ہوئے ’’فکر صحت کی افادیت اور اہمیت سے انکار کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی‘‘۔

 

 

بعد ازاں ان کاافسانچوں کا مجموعہ ’’تنکے ‘‘شایع ہوا جس میں مختلف موضوعات پر کل سو افسانچے شامل ہیں جن میں آپ نے انتہائی مہارت سے انسانی نٖفسیا ت اور سما ج میں پنپ رہے مختلف ناسوروں کی بہترین عکاسی کی ہے ۔ملاحظہ فرمائیں یہ افسانچہ۔۔۔۔۔۔
’’ڈاکٹر صاحبہ ،میرا آپریشن کردو ،میری بچہ دانی نکال دو ‘‘۔
فاطمہ نے لیڈی ڈاکٹر کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہا ۔
’’ کیا بکتی ہو ،ابھی تو تمہاری شادی بھی نہیں ہوئی ہے ۔
ڈاکٹر نے اونچی آواز میں کہا ۔

 

 

’’ میں شادی کے بعد ماں بننا نہیں چاہتی ہوں،مجھے ڈر لگ رہا ہے اگر بیٹی ہوئی تو ۔۔۔۔۔۔‘‘۔ افسانچہ ۔۔۔ ڈر(تنکے ۔۔۔۔ ص52 )۔
اس افسانچے کے مطالعے کے بعد قاری کے ذہن میں کئی سوالات کلبلانے لگتے ہیں اور گہرائی سے غور کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ افسانہ نگار نے مختصر الفاظ میں کتنی بڑی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے ۔یہ کسی ایک فاطمہ کی پریشانی نہیں ہے بلکہ پورا سماج خود ساختہ رسومات کے سبب اجتماعی طور اس پریشانی کا شکار ہے لیکن آواز اٹھانے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے ۔’’تنکے میں شابل دوسرے افسانے بھی انتہائی سبق آموز ہیں جن کے ذریعے افسانچہ نگار نے سماج میں ناسور کی شکل اختیار کئے ہوئے بد نما پھوڑے پھنسیوں کی بے باکانہ انداز میں نشتر زنی کی ہے۔ الغرض نذیر مشتاق بڑے موضوعات کو مختصر الفاظ اور دلچسپ انداز میں بیان کرنے کے فن سے واقف ہیں ۔بزرگ فکشن نگار نور شاہ ’’ تنکے پر بات کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں ۔۔۔۔۔
’’ تنکے میں شانل اکثر افسانچوں کی خوبی یہ ہے کہ ان میں ڈاکٹر نذیر مشتاق اپنے تجربات اور مشاہدات کی توسط سے انسانی نٖفسیات کی عکاسی کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔کثرت سے افسانچے لکھنے کے با وجود اپنے معیار اوراپنے انداز کو برقرار رکھنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ان کے افسانچوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے گھر کی بالکونی یا لان میں بیٹھ کر افسانچے نہیں لکھتے بلکہ بالکونی اور لان سے باہر آکراپنے کرداروں کو زندگی کی کڑی دھوپ میں تلاش کرتے ہیں ۔یہ کڑی دھوپ ان کو اپنے کلنک میں بھی نظر آتی ہے‘‘(تنکے ۔۔۔۔ ص12)۔
ڈاکٹر نذیر مشتاق کا ’’ پیغام‘‘ نامی ایک ناول بھی1973؁ء میں شائع ہوا ہے، یہ ناول راقم کی نظروں سے نہیں گزرا ہے جس وجہ سے اس پر میں کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔ آپ کی پہلی ریڈ یو کہانی ’’چاند سی دلہن ‘‘1971؁ء میں ریڈیو سے نشر ہوئی اور یہ سلسلہ بعد میں جاری رہا ۔آپ کے کئی سٹیج ڈرامے ٹائیگور ہال سرینگر میں سٹییج کئے گئے ہیں جب کہ آپ نے کئی ٹیلیویزن سیریل اور ڈرامے بھی لکھے ہیںجنہیں لوگوں بے بہت پسند کیا ہے ۔
ڈاکٹر نذیر مشتاق کو بہترین ادبی اور طبی خدمات کے لئے کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے جن میں کیس یونین میڈیکل کالج کی جانب سے بہترین اسکرپٹ اور ڈائیریکشن کے لئے سات بار انعام و اعزاز سے نوازا گیا ہے ۔اسی ادارے کی جانب سے لائف ٹائیم ایچیو منٹ ایوارڑ فار لٹریری ایکٹوٹیز سے بھی نوازا گیا جب کہ بہترین طبی اور سماجی خدمات کے لئے اسلامک اینڈریلیف اینڈ ریسرچ ٹرسٹ کی طرف سے ایوارڑ 2018؁ء،سہ ماہی رسالہ نگینہ انٹر نیشنل ادبی ایوارڈاورکشمیر یونیورسٹی کی جانب سے گولڈن جوبلی تقریب کے موقعے پر توصیفی سند برائے فروغ اردو ز بان سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

 

 

نذیر مشتاق نے کافی عرصہ ایران میں بھی گزارا ہے جس دوران ان کی ادبی سرگرمیاں دھیمی پڑھ گئیں۔
ڈاکٹر نذیر مشتاق اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی اور فارسی زبانوں پر بھی اچھی خاصی دسترس رکھتے ہیںاور اکثر و بیشتر پرنٹ اور الیکٹرا نک میڈیا کی وساطت سے صحت سے متعلق مسائل پر اہم جانکاری فراہم کر رہے ہیں جب کہ افسانوں اور افسانچوں کے ذریعے بھی سماج میں پنپ رہے مختلف جرائیم اور عوامی مسائل کی کی نشاندہی فنکارانہ انداز میں کرتے ہیں۔آپ اردو زبان وادب کی آبیاری کے لئے مختلف ادبی تنظیموں سے وابستہ رہ کر کام کر رہے ہیں اور فی الوقت فعال ادبی تنظیم ’’ جموں کشمیر فکشن رائیٹرس گلڈ ‘‘کے صدر کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے گلڈ کی کار کردگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے بے لوث کام کر رہے ہیں‘‘۔

 

ڈاکٹر نذیر مشتاق ایک عوام دوست معالج اوردبستان کشمیر کے ایک مایہ ناز فنکا ہونے کے ساتھ ساتھ ا علیٰ اخلاقی قدروں کے حامل ایک بے حد صاف گو،پرخلوص اور محبت کرنے والے نرم دل انسان ہیں۔ان کے قلم میں جادو ہے اور وہ ایک حساس قلم کار کی طرح بہترین انداز میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ ان کی بے لو ث طبی ،سماجی اور ادبی خدمات کی جتنی ستائیش کی جائے کم ہے ۔۔۔۔۔۔ اللہ انہیں اور زیادہ ترقی اور عزت عطا فرمائے ۔۔۔ آمین ۔
���
رابطہ؛اجس بانڈی پورہ ،کشمیر
موبائل نمبر؛[email protected]
موبائل نمبر؛9906526432