ڈاکٹر شکیل شفائی کی فکری کائنات۔’’رشحات خامہ‘‘ تبصرہ

سہیل سالمؔ۔سرینگر

اچھی تحریر یا اچھی کتاب زندگی کے گہرے فہم ادراک ،انسانی اعمال و افعال کے شدید احساس اور وسع مطالعے سے وجود میں آتی ہے۔ایسی کتابیں قاری کے وجود پر ایک عجیب سی کیفیت طاری کر دیتی ہیں اور جب مصنف اس میں مفکرانہ اور مدبرانہ آہنگ پیدا کردیتا ہے۔موجوہ دور کی تصانیف میں یہ خصوصیات بہت ہی کم پائی جاتی ہے۔ کئی مصنف ایسے بھی ہے جو عام روش سے ہٹ کر لکھنا پسند کرتے ہیں۔ لکھنا جن کے لئے طاق جاں میں چراغاں کرنے کا دوسرا نام ہے۔ڈاکٹر شکیل شفائی ؔ کا شمار بھی ایسے مصنفین میں ہوتا ہے۔
’’رشحات خامہ ‘‘ڈاکٹر شکیل شفائی ؔ کی تازہ تصنیف ہے جو کہ 2022 میں منصہ شہود پر آگئی۔ زیر نظر کتاب ’’رشحات خامہ ‘‘ چھے ابواب پر مبنی ہے۔اس سے قبل ان کی سات کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ جن کے عنوانات کچھ اس طرح سے ہیں:جواہر رسالت،اکیسویں صدی میں فکر اقبال کی معنویت،قرآن فہمی کے اصول،کنج حرا، ہمیں کہنا ہے کچھ اپنی زبان سے اور کیا جمعہ کے دن زوال نہیں ہوتا ۔ڈاکٹر شکیل شفائی تحریرو تقریر میں ید طولی رکھتے ہیں۔

 

 

کتاب کا پہلا باب ’’شخصیات‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں مصنف نے ہمہ جہت شخصیات کو معتارف کرانے کی کامیاب سعی کی ہے،جن کے افکار سے مصنف نے بالواسطہ یا باواسطہ فیض حاصل کیا ہے۔جن میں ڈاکٹر صاحب نے علامہ اقبال ،مولانا سید سلیمان ندوی ،مولانا سید قاسم شاہ بخاری ،مولانا ابن الحسن عباسی اور شمس الرحمن فارقی کے مختلف پہلوئوں سے فیص حاصل کرنے کامیاب نظر آتے ہیں۔مولانا سید قاسم شاہ بخاری کی علمی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں:’’حضرت نے مجھ سے کچھ سولات کئے جو غالب گمان ہے کہ میری تعلیمی سر گرمیوں کے بارے میں تھے۔اس دوران میں قہوہ پیش کیا گیا۔تھوڑی دیر کے بعد وہ نوجوان کتابوں کا ایک بنڈل جس کو رسی سے باندھ دیا گیا تھا،لے کر حاضر ہوئے ۔لیجئے یہ فاروق صاحب کی کتابیں ہیں،وہ بولے ،میں نے بنڈل اٹھاتے ہوئے کہا :میں مضمون لکھنے کے بعد یہ کتابیں واپس کروں گا۔اس بات کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے اجازت لی اور نکلتے وقت ان سے مصافحہ کیا۔پھر میں نے مضمون لکھا۔اس کو ریڈیو کے کسی پروگرام میں پیش کیا ۔فر صت دیکھ کر دوبارہ حضرت بحاری صاخب کے گھر گیا۔لیکن اب وہ زیادہ کمزور لگ رہے تھے۔بمشکل ایک آدھ بات کی۔میں نے کتابیں لوٹائیںتو کہا’رکھ لو کام آئیں گی‘‘میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا‘‘(ص۔۲۰)

 

 

کتاب کا دوسراباب ’’ادبیات‘‘ پر مبنی ہے۔جس میں مصنف نے ادیب اور تعمیری ادب کی تعریف کے ساتھ ساتھ اردو کے کنہہ مشق اور کلاسیکی شعراء کے کلام کی شرح بڑی فنکارنہ مہات کے ساتھ کیا ہے چناچہ شعر کے اسرار ورموز تک رسائی حاصل کرنا ہر ایک قاری کے بس کی بات نہیں۔ میر،غالب ،اقبال اور کلیم کی شرح پڑھ کر یہ عیاں ہوتا کہ شارح نے بین المتونیت کے ڈس کورس میںاپنے افہام و تفہم اور شعر شناسی کاایک اعلیٰ ثبوت پیش کیا ہے۔ علاوہ ازیں سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم ،مخدوم محی الدین ،سحر عشق آبادی ،عطا اللہ پالوی اور ساحر لدھیانوی کی ادبی خدمات کو بھی سراہا گیا ہے۔ اسی باب میں ادیب کی تعریف کرتے ہوئے ڈاکٹر شکیل شفائی لکھتے ہیں:’’ادیب صرف وہ شخص نہیں ہوتا جو فکشن تحلیق کرتا ہے،شعر کہتا ہے یا اپنی نگارشات کو افسانہ،ڈرامہ ،انشائیہ ،خاکہ،طنزومزاح یا کچھ محدود قسم کے تنقیدی مضامین و مقالات کے دائرے میں مقید رکھتا ہے بلکہ ادیب کا افق سنجیدہ عملی نثر تک وسیع ہوتا ہے۔اسی لئے ارسطو اور افلاطرن کی تحریریں ادب کا حصہ متصور ہوتی ہیں،برنارڈ شا کی وہ تحریریں جن میں معاشی ،تمدنی اور فلسفیانہ مباحث ملتے ہیں ادب کا دقیع سرمایہ تصور کی جاتی ہیں‘‘۔(ص۔۔۴۳)
رشحات خامہ کے تیسرے باب میں ’’دینیات ‘‘سے وابستہ مختلف موضوعات پر خامہ فر سائی کی گئی ہے ۔اسلا م دین فطرت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لئے ایک آئینہ بھی ہے لیکن موجودہ دور کے نام نہادملا اس آئینے پر کس طرح پتھر مارتے رہتے ہیں جس کا اثر براہ راست دین فطرت پر بھی پڑتا ہے۔جس کی نشاندہی ڈاکٹر شکیل شفائی اس طرح کرتے ہیں:’’آج بھی جب کوئی شخص دین اسلام کو عملی سطح پر اپنانے کے بجائے علمی عیاشی کے بطور اپنانا چاہتا ہے چنانچہ کوئی داڑھی صاف کرکے،ارکان اسلام سے پیچھا چھڑاکے،اسلامی طرز زندگی سے انحراف کر کے ،حلال و حرام کی تمیز کر کے،عورتوں کو بے پردہ کر کے،سنتوں پے ہاتھ صاف کر کے اسلام کا مفکر،داعی ،عالم،صحافی ،پروفیسر،سپاہی،مبلغ بنے رہنا چاہتا ہے لیکن مسلم عوام اس کو قبول نہیں کرتے تویہ اپنا غصہ ،جھنجلاہت،ناکامی اور خفگی بھڑاس ان غریب ملائوں پر نکلتے ہیں۔’’ملا کا دین ‘‘کی آڑ میں پورے دین ہی سے دامن جھاڑ لیتے ہیں‘‘۔(ص۔۱۰۷)عقیدہ طحاویہ،علمائے دیوبند کی حدیثی خدمات،رجال اللہ،رسول الھدیؐ،علمی لطائف ،جہان حمد ونعت ،بدعت،رمضان المبارک میں قرآن کی تلاوت اور فہم قرآن جیسے مضامین سے اس باب کی زینت میں اور اضافہ ہوا ہے۔

 

 

زیرنظرکتاب کے چوتھے باب میں ڈاکٹرشکیبل شفائی نے اپنی ذاتی ڈائری کے چند صفحوں کو شامل کیا ہیں۔ ڈائری نویسی غیر افسانوی نثر کا اہم حصہ تصور کیا جاتا ہے۔یہ صفحات ڈاکٹر شکیل شفائی کی علمی کاوشوں کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کے نشیب وفراز کی عکاسی کرتے ہیں۔اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کو مختلف نعمتوں سے نوازا لیکن ان نعمتوں میں سب سے بڑی اور عظیم نعمت ماں تصور کی جاتی ہے ۔بقول ڈاکٹر شکیل شفائی:’’ماں فرشتہ نہ تھی،خیرالقرون کی کوئی عابد زاہد خاتون نہ تھی،وہ ایک عام سی عورت تھی جس کی دنیا اس کے بچوں میںمحصور تھی ۔اس نے ہمیشہ چاہا کہ اس کے بچے خوش رہیں،تاہم وہ مسلمان تھی،میں نے اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ۔میں گوہی دیتا ہوں کہ وہ ایک عفت مآب خاتون تھی۔آج ماں نے ملک عدم کا راستہ اختیار کیا۔وہ اس دنیا میں چلی گئی، جہاں سے کوئی واپس نہیں آیا ،اس نے اپنے پیچھے یادوں کی ایک دینا چھوڑی ۔اس نے خوشیوں کی نسبت غم زیادہ دیکھے ۔لیکن غموں کی نسبت خوشیوں زیادہ بانٹیں،یہ اگر میعار عظمت ہے تو وہ یقینا عظیم تھیں‘‘۔(ص۔۱۹۳)
کتاب کا پانچواںباب عصریات پر مشتمل ہے ۔اس باب میں ڈاکٹر شکیل شفائی نے بین الاقوی مسائل کے ساتھ ساتھ مقامی مسائل کے منفی اثرات کو اجاگر کرنے کی ایک کامیاب سعی کی ہے۔اسی باب کے ایک مضمون میں ڈاکٹر شکیل شفائی رقمطراز ہیں:’’آج چند احباب سے ملاقت کے بعد مجھے محسوس ہو کہ ہم بعض چیزوں کو اہم قرار دینے کے باوجود اغفال و اہمال کی ندر کردیتے ہیں لیکن وہی چیریں جادو کا روپ دھار کر سر پر چڑھ کر بولنا شروع کر دیتی ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم سے غفلت نے بڑی فاش غلطی کروائی‘‘۔(ص۔۲۴۱)

 

 

رشحات خامہ کا آخری باب’’رحلات ‘‘کے نام سے ہے۔جس میں مصنف نے مختلف اسفار کو موضوع سخن بنایا ہے۔اپنے گردونواح کی خوبصورتی یا لوگوں کے مزاج کو اگر ایک نئے زوایے اور منفرد طریقے سے دیکھنا ہو تو ،ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کرنا لازمی ہے۔اسے ایک انسان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ دوران سفر موصول ہوئے تجربات ،مشاہدات اورمعلومات سے وہ دوسروں کے کام آسکتا ہے۔بقول ڈاکٹر شکیل شفائی:’’آسی وہ دریا ہے جو جب پہاڑوں سے پھوتٹا ہے تو راہ میں حائل گراں چٹانوں کو ریت کے ذروں میں بدل دیتا ہے اور جب میدانوں سے گزرتا ہے تو کھیتوں کھلیانوں اور باغوں بستانوں کی تشنگی بجھاتا ہے‘‘۔(ص۔۲۴۶)

 

 

الغرض ان کے مضامین کی زبان اوراسلوب دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا اپنا ہے۔ڈاکٹر شکیل شفائی کی فکری کائنات اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ انھوں نے ’’رشحات خامہ‘ میں دینی ، علمی ،ادبی اور سماجی موضوعات کو صالح فکر میں پیش کر کے یہاں کے علمی حلقوں میں ایک اہم مقام حاصل کیا ہے۔
رابطہ۔9103654553