چھوٹ افسانہ

پروفیسرمحمد اسداللہ وانی

ایک دن میںصبح سویرے حسبِ معمول اپنے موبائل فون پر ڈائون لوڈ کی ہوئی ایک کتاب کے مطالعے میں مصروف تھا کہ مجھے ثنا نام کی ایک لڑکی کی جانب سے فرینڈ رِکویسٹ موصول ہوئی ہے۔ ابتدائی ہیلو ہائے کے بعد جب میں نے اسے اپنے فیس بک کے حلقۂ احباب میں شامل کیا تو میں نے اُس سے اُس کی مشغولیت کے بارے میںپوچھا،جس کے جواب میں اُس نے لکھاکہ وہ کالج میںتیرھویں جماعت کی طالبہ ہے۔ اُس کی اس بات سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ ایک سادہ لوح لڑکی ہے ورنہ موجودہ تعلیمی ڈھانچے کے مطابق اُسے تیرھویں کے بجائے بی اے سال اول لکھناچاہیے تھا ۔
میں نے اس سے ایک سوال یہ بھی پوچھاکہ تم نے مجھے فرینڈ رکویسٹ کیوں بھیجی؟تھوڑے سے توقف کے بعد اُس نے مجھے میرے ُُProfile Photoکا سکرین شارٹ بھیجا جس کے نیچے لکھا تھا
’’مجھے آپ بہت ہی پیارے لگے ،اسی لیے‘‘۔
میںپیارا لگا ! مطلب؟۔
مطلب یہ کہ آپ بہت خوبصورت ہیں۔آپ کی تصویرمجھے بہت پیاری لگی ۔
کتنی پیاری لگی؟میں نے از راہِ تمسخر ایک اور سوال پوچھا ۔
اس نے جواباً لکھا’جتنی میری ا مّاں مجھے پیاری ہے‘ ۔
تمہیں تمہاری ماں کتنی پیاری ہے ؟میں نے اُسے ا گلا سوال پوسٹ کیا۔
مجھے اپنی اماںبہت پیاری ہے ،اپنی جان سے بھی پیاری ،اس دنیا میں اماّں کے سوا میرا کوئی نہیں ہے
باپ؟ میں نے لکھا۔
وہ انتقال کر چکے ہیں،اس نے جواب پوسٹ کیا۔
گھر کا کوئی اورفرد ؟میں نے اگلا سوال پوچھا
فیس بک وال پر جواب نمودار ہوا ،ایک چھوٹی بہن ہے
وہ کیا کرتی ہے ؟ میں نے دریافت کیا۔
وہ مدرسے میں پڑھتی ہے ۔
میں نے ایک اور سوال لکھا ،تم لوگوں کی گزر بسر کیسے ہوتی ہے ؟
مجھے کالج سے کچھ وظیفہ ملتا ہے اور امی محلّے کی بچیوں کو قرآن پڑھاتی ہیں ،بس!
ا س سے گزارہ ہوجاتا ہے؟میں نے پوچھا ۔
جی ہاں! اللہ کا شکر ہے ہماراگزارہ ہو جاتا ہے ۔جواب آیا۔
کالج جانے کے علاوہ تم گھر یا باہر کوئی اور کام بھی کرتی ہو،میں نے اس سے پوچھا ۔
کچھ نہیں ،ہاں صبح کا ناشتہ میں تیار کرتی ہوں ۔ہم تینوں ایک ساتھ ناشتہ کرتے ہیں اور پھر میں کالج جاتی ہوں۔
ثنا اپنی پروفائل سے ایک حسین وجمیل مودّب لڑکی معلوم ہوتی تھی۔ وٹس ایپ اورفیس بک کی ڈی پی پروہ عام طور پر اپنی ماں کے ساتھ ہی دکھائی دیتی تھی ۔فیس بک فرینڈ بننے کے بعد صبح سات آٹھ بجے کے درمیان اس لڑکی کا چند لمحوں کے لیے مجھ سے بات چیت کرنے کا معمول بن گیا ۔اگر مجھے کسی وجہ سے اُس سے بات کرنے میں دیر ہوجاتی تو وہ پوچھ بیٹھتی ،کیا کسی اور کے ساتھ chatting میں مصروف تھے ۔اس کے پوچھنے کا اندازایسا ہوتا کہ جیسے بس ہم ہی دو ایک دوسرے کے فیس بک فرینڈ ہیں ۔
ایک روز میں نے اُس سے پوچھا، کیاتم پٹھان ہو؟
اس نے اثبات میں جواب دیا،ہاں ‘‘۔
’’پٹھان بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔‘‘میں نے لکھا۔
میری اس رائے کا ثنا نے کوئی جواب نہ لکھا اور پھر چند روز ہمارے مابین کوئی بات چیت نہیں ہوئی، یعنی وہ فیس بک وال پر نہیں آئی۔جب کچھ دن گزر گئے تو ایک روز میں نے ہی پہل کرکے اُس سے اُ س کی خیروعافیت دریافت کی تو اس نے بھی اثبات میں میری باتوں کا جواب دیا۔جب میں نے کئی دن بات چیت نہ کرنے کی وجہ پوچھی تواُس نے لکھا
’ ’میں آپ سے ناراض ہوں ‘‘۔
میں نے پوچھا کیوں ؟
’’آپ نے پٹھانوںکی بے عزتی کی ہے‘‘ اُس کا جواب آیا ۔
کیا میں نے پٹھانوں کی بے عزتی کی ہے؟ میں نے لکھا ۔
’’ہاں آپ نے ہماری قوم کی بے عزتی کی ہے ،آپ نے لکھا تھاکہ پٹھان خطرناک ہوتے ہیں‘‘
ارے و ہ تو ہیں،میں نے لکھا۔
’’پھر وہی بات ،میں آپ سے chat نہیں کرتی‘‘۔
ارے تم خفا کیوں ہوگئی ، خطرناک سے میرامطلب اُن کی برائی کرنا نہیں ہے بلکہ یہ اُن کی تعریف ہے کہ پٹھان بڑے بہادر ، نڈر،جیالے اور اچھے لوگ ہیں ۔ میں نے جواب لکھا
’’اچھا،اچھا! میں تو کچھ اور ہی سمجھی تھی، پھر توآپ ہمارے خیر خواہ اور بہادری کے معترف ہو ‘‘اُس نے لکھا۔
ہاں اور کیا ،بلکہ تمہاری طرح کی سادگی اور معصوم خوبصورتی کے معترف بھی
ایک دن ثنا نے مجھے ایک فحش ویڈیو بھیجی ،شاید وہ مجھے پرکھناچاہتی تھی۔
میں نے اسے لکھا ’’کیایہ تمہاری اپنی ویڈیو ہے ‘‘۔
اگر یہ ویڈیو میری اپنی ہوتی تو میں ایسی ویڈیو بنوانے سے پہلے ہی مرنہ گئی ہوتی۔ثنا کا جواب آیا ۔
توپھرتم نے یہ ویڈیومجھے کیوں بھیجی؟
یہ ویڈیومجھے کسی سہیلی نے بھیجی تھی ،میں نے آپ کو بھیج دی ‘میں نے سوچا شایدآپ پسند کرتے ہوں۔
تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ میں اسے پسند کروں گا ۔
’’مجھے کیا معلوم ؟آپ کیا پسند کرتے ہیں؟
ثنا ! اب تم میرے حلقۂ احباب میں شامل ہو ، اس لیے یاد رکھومیں ایسی حرکتیںپسند نہیں کرتا۔تم ایسی باتوں سے دور رہا کرو۔۔میں نے تنبیہ کے انداز میں لکھا۔
ثنانے میری اس تنبیہ کے رد عمل کا کوئی جواب نہ دیا اورہمارے درمیان ایک بارپھر کئی روز تک فیس بک پربات چیت کا تبادلہ معطل رہا،شاید اُسے فحش ویڈیوبھیجنے پرندامت کا احساس ہوا تھا۔
ایک دن صبح کے وقت میںمعمول کے مطابق مطالعے میں مصروف تھاکہ میرے سامنے میز پرپڑے موبائل کے سکرین پرثنا کی پوسٹ نمودار ہوئی’ ہیلو‘ ! آپ کیسے ہیں ؟
مطالعہ سے فارغ ہوکر میں نے بھی اُسے ’ ہیلو ‘ لکھااورتھوڑی دیر Chatting کے بعدفون کیااور پھرروزمرہ کی پسند ناپسنداور زندگی سے متعلق مختلف موضوعات پرکافی دیر تک میری اور ثنا کی بات ہوتی رہی ۔بات چیت کے دوران میں نے کئی بار محسوس کیا کہ وہ جذبات کی رو میں مسلسل کبھی ڈوبتی اور کبھی اُبھرتی رہی اورپھر اُس نے اپنے اورمیرے مابین آسما ن وزمین کے خلاکی مانند حائل تمام رکاوٹوں کی پرواہ کیے بنا میرے لیے اپنی بے حد پسندیدگی اور چاہت کا اظہار کیا۔
میں نے انجان بنتے ہوئے کہا تم کیا چاہتی ہو ۔؟
میںتو بس آپ کو چاہتی ہوں ،صرف آپ کو۔اُس نے جذباتی انداز میںکہا
میں نے کہا اچھا ، اس کے علاوہ اورکچھ ؟
میںاور کچھ نہیں چاہتی اور نہ کچھ جانتی ہوں ،مجھے آپ بے حد پسند ہیں ،میں آپ کے بنا نہیں ر ہ سکتی۔
ثنا!یہ فیس بک کی دنیا ہے یہ جتنی خوبصورت اورپرکشش لگتی ہے حقیقت میں ایسی نہیں ہے ۔ ویسے بھی تمہیں زندگی اور اس کی حقیقتوں کا قطعی ادراک نہیں ہے۔تم میرے بارے میں کیا جانتی ہو کہ میں کون ہوں،کہا ں رہتا ہوں،کیا کرتا ہوں اورمیرے درپیش کیا کیامسائل ہیں ؟ مجھے یقین ہے کہ تم کو تو ابھی اپنی بھی کچھ خبر نہیں ہے کہ تمہاری منزل کیا ہے ؟ اورسفر کس راہ پر جاری ہے ۔
اُس نے میری بات کاٹتے ہوئے بہت ہی جذباتی انداز میں کہا ۔
ہاں ،ہاں مجھے سب خبر ہے،میں سب کچھ جانتی ہوں ۔میں یہ بھی جانتی ہوںکہ ہم سب اسی روئے زمین پر رہتے ہیں اور ہم نے اپنے تمام مسائل یہیں پر حل کرنے ہیں۔میرے درپیش اس وقت صرف محبت کا مسئلہ ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ محبت صرف محبت ہوتی ہے ،مذہب،رنگ اور نسل سے اس کا کوئی سروکار نہیں ہوتا۔اس کا نہ کوئی ملک ہوتا ہے ، نہ کوئی سرحداور نہ ہی زبان ہوتی ہے۔ یہ کی نہیں جاتی ہو جاتی ہے اوریہ کہ مجھے آپ سے محبت ہے۔وہ مسلسل بول رہی تھی ۔
ارے ثنا !تم میری مجبوریاں سمجھنے کی کوشش کرو ۔میرے پائوں میں سماجی ،خانگی اور دوسری کئی ذمہ داریوں کی بیڑیاںپڑی ہوئی ہیں ، میں اُنھیں توڑ کر بھاگ نہیں سکتا ۔ میںسفر تمام کئے ہوئے اُس سورج کی مانند ہوں جو پل دو پل میںشفق آلود ہوکر اندھیرے کی نذر ہوجائے گا اور تم افق سے اُبھرتی ہوئی جادۂ شب پہ آمادہ ٔسفر وہ چاند ہو جس نے نہ جانے شبِ دیجور کی کن کن راہوں کو اپنی روپہیلی کرنوں سے پُر نور کرنا ہے۔ میں نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔
میری بات ختم ہوتے ہی ثناگویا ہوئی۔
’’میں آپ کو بیڑیاں کاٹنے کے لیے کب کہہ رہی ہوں،میں توآپ کو صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ مجھے آپ بہت ہی زیادہ پسند ہیں۔مجھے آپ سے محبت ہوگئی ہے اور آپ مجھے بھی اپنی زندگی کے سفر میں اپنا شریکِ سفر بنالیں ،میں ساری عمرآپ کا بھر پورساتھ دوں گی اور ہاں میری طرف سے آپ پر کوئی پابندی بھی نہیں ہوگی بلکہ میری طرف سے آپ کو مکمل آزادی رہے گی ،چھوٹ ہرقسم کی چھوٹ ۔ میںآپ کی ہاں کی منتظر رہوں گی۔
مجھے اُس لڑ کی کے اس طرح کے اظہارِ پسندیدگی ،محبانہ دیوانگی، معصومانہ بھولپن ، ٹھوس حقائق سے لاعلمی اور غیر مشروط پیش کش پرانتہائی حیرت ہوئی ۔اس پر طرّہ یہ کہ اُس کی طفلانہ جذباتیت کے غمازچھوٹ ہی چھوٹ جیسے ا لفاظ بھی قابلِ توجہ تھے جن پر میںکئی دن تک غور کرتا رہا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ موجودہ عہدکی سب سے بڑی دین نیٹ اور فیس بک کی سماج پرایسی گہری گرفت ہے کہ ا س نے ہماری نئی نسل کا wash brainکر کے اُن کا مکمل نظریٔہ حیات بدل دیا ہے۔میں کئی روز تک اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہا جب کہ ایک دن صبح سویرے ثنا کی یہ پوسٹ نظر سے گزری ۔
کیا کر رہے ہیںآپ؟
ابھی ابھی مطالعہ سے فارغ ہوا ہوں،میں نے جواب لکھا۔
’’ناشتہ کیا یانہیں ‘‘ اُس نے دریافت کیا ۔
بس کرنے والا ہوں ، گھر والوں کے بلاوے کا منتظر ہوں۔ میں نے جواب دیا اور ساتھ ہی میں نے بھی اُس سے دریافت کیا کہ تمہارا ناشتہ ہوگیا ۔
آج ناشتہ نہیں بنے گا ،اس نے جوا ب دیا،میں کالج جانے کی تیاری کر رہی ہوں ۔
’’آج ناشتہ نہیں بنے گا ‘‘ کیا مطلب ،کیوں ،ناشتہ کیوں نہیں بنے گا۔
’’آج گھر میں سوائے پانی کے کچھ بھی نہیں ہے ‘‘اس نے لکھا ۔
توپھرتم کیا کرو گی؟اللہ بہتر جانتے ہیں ،اس کا جواب آیا۔
اُس دن میں نے اس سے کئی بارفون کرکے کھانے پینے کے بارے میں دریافت کیا مگراس نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا، البتہ شام کو میری پوسٹ کے جواب میں ثنا نے صرف یہ لکھا
’’ آج کے شام کا کھانا کل سے بہتر رہا‘‘
میں نے اس بہترکھانے کے بارے میںمزید کچھ تفصیلات جاننے کی کوشش کی مگر اس نے کچھ نہیں بتایا۔میں نے سوچا شاید محلے والوں میں سے کسی نے اپنے بچوں کی اُستانی اور اُس کی بیٹیوں کے لیے اُن کے گھرشام کا کھانا بھیجا ہو گا۔
میری آنکھوں کے سامنے ثنا کاحسین وجمیل چہرہ گھو م گیاجس نے کچھ دن پہلے فون پر مجھ سے بات چیت کرتے ہوئے نہ صرف میرا ہم سفربننے اورساری عمربھر پورساتھ دینے کی خواہش کا اظہارکرتے ہوئے مجھ پر کوئی پابندی بھی نہیں رکھی تھی بلکہ مکمل چھوٹ دینے کی بات کی تھی ہرقسم کی چھوٹ ، چھوٹ ہی چھوٹ۔
۔۔۔۔۔۔۔اورساتھ ہی میرے ذہن میںیہ خیال بجلی کی طرح کوند گیا کہ گھرمیں ناشتے کے لیے بھلے ہی کچھ بھی نہ ہو لیکن آج کے دور کی نئی نسل فیس بک کی دنیا سے وابستہ رہنے کی خاطرآئی فون خریدنے کے لیے ہزاروں روپے کا انتظام کہاں سے، کیونکر اور کیسے کرتی ہے ۔۔۔اور۔۔۔اوراس کے ڈانڈے کہاں سے کہاں جاکر ملتے ہوں گے؟ ؟؟
���
سنجواں جموں،موبائل نمبر؛9419194261