چاندنی کہانی

عاشق آکاش
ماسٹر جی نے عینک چڑھائی تو اس کی نظر سیدھے کونے میں بیٹھی ،سہمی سی، چاند جیسی شیلا پر پڑی جو ماسٹر پیارے لال کی طرف تر چھی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی کہ کہیں ماسٹر جی آواز نہ لگائے اور معصوم شیلا، جو اپنے گائوں کی سادگی میں پلی پہلی بار شہر پڑھائی کے لیے آئی تھی، کو اُس کے سوالوں کا جواب نہ دینا پڑے ۔
پیارے لال جس کی نگاہیں بڑی مدت کے بعد آلودگی سے پاک کسی صورت پر پڑی تھی نے دیوانوں کی طرح پوری کلاس کے بچوں کو شیلا سے ملانے کا کام شروع کیا ۔گویا کہ اس دن کی کلاس شیلا کی زندگی کے بارے میں ہی تھی ۔
شیلا جوپرتاپ گڑھ کے ایک کسان منشی کرپاداس کی بیٹی تھی بچپن سے ہی ذہین اور پڑھائی کا شوق رکھتی تھی ۔ قابل اور ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی تھی۔ گائوں میں ہرکوئی اسے ’’چاندنی ‘‘ نام سے پکارتا تھا ۔ جب وہ پیدا ہوئی تھی تو پورے گائوں میں خوشی کی لہر دوڑی تھی۔ کرپاداس کو گائوں میں ہر کوئی دیالو سمجھتا تھا ، وہ ہر کسی کی مجبوری کو اپنی سمجھ کر اُسکا ازالہ کرنے میں پہل کرتا تھا ۔
کرپاداس شیلا کو ماں سے بھی زیادہ پیار دیتا تھا ۔ شیلا کرپاداس کے اکیلے پن کا سہارا اور اس کی پتنی سرسوتی کی آخری نشانی تھی۔ کرپاداس سرسوتی سے وعدے کے مطابق اپنی ساری محنت شیلا کی دیکھ بال اور اس کی پڑھائی میں لگاتا ۔اسکو سنبھالنے سنوارنے ، اسکول کے لیے تیار کرنے اور ٹفن وغیرہ تیار کرنے کا سب کام وہ خود کر دیتا ۔ اور اس کے نوکر کریم کے ذمہ صرف شیلا کو اسکول چھوڑنا اور شام کو چٹھی کے بعد گھر واپس لے آنا تھا۔ ان دونوں میں اتنا لگائو تھا کہ کریم شیلا کو اپنی بیٹی سے بھی زیادہ چاہتا۔
شیلا گائو ں میں شہزادی کی طرح زندگی بسر کرتی رہی اور اس کے باپ کے لاڑ پیار نے تو شیلا کی ذہانت اور بڑھادی ۔اسکول میں وہ ہر جماعت میں اول آتی رہی۔ اپنی بیٹی کی ذہانت دیکھ کر کرپاداس خوابوں اور خیالوں میں مست ہوا ۔ وہ اپنی بیٹی کے مستقبل کے بارے میں بڑے بڑے خواب دیکھتا رہا۔ادھر گائوں کے ذی شعور افراد نے بھی یہ اسرار کیا کہ شیلا(چاندنی) کو اچھی طرح پڑھا لکھا کر کلکٹر بنایا جائے تاکہ ان کے گائوں کا نام بھی روشن ہو اور شیلا(چاندنی) کی بدولت گائو ں کی کچھ ترقی بھی ہوجائے ۔
آٹھویں جماعت کے امتحان سے قبل ایک دن شیلا اپنے کمرے میں پڑھائی کررہی تھی تو کریم نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے پکارا۔۔۔۔۔
’’ بیٹی چاندنی۔۔۔شیلا۔۔ تمہارے پتا جی تمہیں بلارہے ہیں ‘‘
کریم کی آواز سنتے ہی شیلا نے ایک معصوم سے لہجے میں جواب دیا ۔۔۔
’’ جی چاچا آئی ۔۔۔۔ بس آرہی ہوں ‘‘
شیلا نے اپنی کتابوں سے رُخصتی لیتے ہوئے ایک گُم سُم انداز میںاپنے ابو کے کمرے کی اور چلنا شروع کیا۔
کرپا داس شیلا کو اپنے بغل میں بٹھاتے ہوئے ۔
’’ بیٹا میں تمہیں پڑھا لکھا کر کلکٹر بنائو ںگا ۔
شیلا ۔۔۔۔ ’’ پتا جی یہ کلکٹر کیا ہوتا ہے ۔‘‘
کریم: ’’ بیٹا کلکٹر ایک بہت بڑا آفیسر ہوتا ہے۔۔۔۔ پھر سرکار تمہیں گاڑی دے گی ۔۔۔۔۔ تم سارے ضلع کی دیکھ بال کروگی ۔۔۔ اور ہم غریب لوگوں کی بھی مدد کروگی ۔ ‘‘
کرپاداس : ’’ جی بیٹا ۔ ۔۔ کریم ٹھیک کہہ رہا ہے ۔ یہ ایک بڑا سرکاری عہدہ ہے جس کو پانے کے لئے محنت اور مگن سے پڑھائی کرنی ہوگی ۔
شیلا ـ: لیکن پیتا جی ہمارا اسکول تو آٹھویں جماعت تک ہی تعلیم دے پاتا ہے ،کیا آٹھویں کے بعد میں کلکٹر بن سکتی ہوں !!!
کرپاداس : نہیں بیٹا نہیں ۔ اس کے لئے تمہیں بہت آگے پڑھنا ہوگا ۔۔۔ تم آٹھویں میں اچھے نمبرات لے کر پاس ہوجائو تب میں تمہیں شہر بھیجوں گا کسی بڑے اسکول میں پڑھائی کی خاطر ۔‘‘ اور اس کے ماتھے کا بوسہ لیتے ہوئے ایک لمبی آہ بھری۔۔۔۔۔شاید اُس کی جدائی کی فکر اب سے ہی اُس کے روح میں پرواز کر رہی تھی۔۔۔۔
شیلا : مگر پیتا جی اکیلی ۔۔۔۔ ‘‘
کریم ـ : وہاں ڈر کس بات کا بیٹا ۔۔۔ وہاں کے اسکولوںمیں تو رہائش کا انتظام بھی ہوتا ہے ۔
کرپاداس : جی بیٹا ۔۔۔ تمہارے کریم چاچا ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔
شیلا ۔۔۔ لیکن میں آپ دونوں کو چھوڑکر نہیں جائوں گی۔
کرپاداس اور کریم شیلا کے من کو بہلاتے ہوئے کبھی اس کو کلکٹر ی کے خواب دکھائے تو کبھی اُس سے جڑے عیش وآرام سے اس کے من کی دھندلاہٹ کو دور کرنے کی کوشش ۔
رات کو معصوم شیلا پڑھنے کے بجائے کلکٹر ی کے فضائوں میں اُڑتی رہی ۔
ساون کا موسم تھاکہ شیلا کے آٹھویں جماعت کے نتائج آئے، جس میں شیلا حسب معمول اول درجے پر تھی۔
شہر جانے کی تیاری میں پورا گائوں شیلا( چاندنی) کے پیچھے پیچھے، جیسے کہ وہ کسی دلہن کو وداع کررہے تھے، ریلوے اسٹیشن تک چلتے رہے ۔کچھ اپنی آنکھوں میں آنسوں لیے اور کئی شیلا کے کلکٹر بننے کے خواب !!!!
اسکول میں داخلے کے بعد کرپاداس کئی دنوں بعد گائوں لوٹ آئے ۔ ۔۔ ریل میںسفر کے دور ان پیڑوں کے سائے بھی اسے شیلا کا عکس دکھا رہے تھے۔۔۔ بیٹی کی جدائی اور اُس کی تنہائی یاد دلاتے رہے ۔۔۔ آج وہ اپنی اُس لختِ جگر کو اکیلا چھوڑ آیا تھا جس کے بغیر شاید کرپا داس نے اب تک دروازے سے باہر قدم بھی نہ رکھا تھا۔ خیالوں کا یہ طوفان اُس کی سکوں کی بستیوں کو جھٹکاتا رہا اوروہ ماضی اور مستقبل کے سحرائوں میں کھو گیا۔
اسکول میں چھٹی کا وقت آن پہنچا۔ ماسٹر پیارے لال چھٹی کے بعد شیلا سے مخاطب ہوتا ہوا ۔
’’ شیلا تم گائوں سے پہلی بار شہر آئی ہو ۔۔۔۔ کسی مدد کی ضرورت ہو تو مجھے بتانا ‘‘
یہ کہتے ہوئے ماسٹر پیارے لال نے اپنا چشمہ ٹوٹے ہوئے ذرد رنگ کے ڈبے میں رکھ دیا اور شیلا کی طرف تکتے تکتے اپنا جھولنا لئے کلاس سے باہر نکلا ۔
کچھ ہی عرصہ کے بعد شیلا اسکول کے دوسرے بچوں سے گُھل مل گئی ۔ ہر کوئی شیلا کی ذہانت اور قابلیت دیکھ کر اس کو پیارو محبت اور عزت سے پیش آنے لگا ۔
پیارے لال روز شیلا کا حال پوچھتا ۔۔۔۔ اُس سے کھانے پینے کی چیزیں فراہم کرتا ۔۔۔ پیارے لال کا یہ رویہ دیکھ کر شیلا اب اپنے پتا کی کمی محسوس نہیں کرتی۔۔۔۔
ادھر کرپا داس روز اپنی بیٹی شیلا کا حال پوچھتا ، کریم کی شفقت بھری باتیں سناتا ۔ اُس کو کلکٹری کے خواب یاد دلاتا، بیٹی کو خوش پاکر اب وہ مطمئن اپنے گائوں کے کاموں میں مصروف ہوتا گیا ۔
شیلا بھی لگن اور محنت سے پڑھائی کرتی رہی۔ یہاں تک کہ اسکول سے فارغ ہونے کے بعد ماسٹر جی کے کمرے میں بھی مزید تعلیم کے لئے جاتی تھی ۔ ماسٹر جی بھی شیلا(چاندنی) کو کلکٹر بننے کے خوابوں میں مست اور مگن کراتا تھا۔ اُسے اپنی کامیابی کے قصے ّ کہا نیاں سناتا ۔ وہ کلاس میں بھی پڑھانے سے زیادہ شیلا کے چاند جیسے مکھڑے کو تکتا رہتا اور یوں کئی خرافاتی خیالات اس کے من میں جنم لیتے گئے ۔
دسویں جماعت کے پرچے قریب تھے ۔ اسکول میں امتحانات سے قبل چھٹیوں کا اعلان ہوا ۔ شیلا اب ہوسٹل میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ پڑھائی کرتی رہی ۔ ماسٹر پیارے لال جس کا من اب خرافاتوں کا خزانہ بن چکا تھا نے ایک دن شیلا کو اپنے کمرے میں پڑھانے کے بہانے بلا لیا ۔ شیلا اپنی معصومیت کے باعث فوراََ پیارے لال کے کمرے میں چلی گئی ۔ وہ ماسٹر جی سے اپنے ابو جیسا برتائو کرتی تھی اور پیار بھی۔
کمرے میں پیارے لال اپنے تمام خرافاتی خیالات کو پیرایۂ عمل لانے کی خاطر تمام تدابیر لئے موجود تھا ۔
ماسٹر جی کے بدلے ہوئے وحشی چہرے کو دیکھ کر شیلا کے ہاتھوں سے کتابوں کا بستہ گر گیا اور وہ خود یخ بستہ ہو گئی۔
اگلی صبح پیارے لال کے کمرے کے پیچھے والے صحن میں شیلاکی بے بس لاش ملی جس پر کوئے بیٹھ کر کلکٹری کے عیش و آرام کو تلاش کررہے تھے ۔۔۔۔۔ اور یوں چاندنی اپنے سپنوں کے گرد گومتی ہوئی بکھر گئی۔۔۔۔

���
برنٹی اننت ناگ کشمیر
[email protected]
موبائل نمبر؛ 9906705778