پیکر ِ صبرو وَفا | امام حُسین ؓشہید ِکربلا سیدالشہدا

میر امتیاز آفریں
اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل ؑ کو قربانی کے لئے پیش کیا ۔اسی قربانی کی یادگار کو ہم ہر سال یوم النحرکے موقعے پر جانوروں کی قربانی کے ذریعے تازہ کرتے ہیں۔ اطاعت و فرمانبرداری کی عظیم مثال پیش کرتے ہوئےنواسہ رسولؐ امام عالی مقام سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء نے بھی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور سر کٹوا کر قربانیوں کے اس سلسلے کو اتمام تک پہنچا دیا گویا:

غریب و سادہ و رنگیِں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حُسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعِیلؑ
اعلیٰ و مقدس مقصد کے حصول کے لئے اور منحرف و جامد مسلم سماج میں حرکت و تمازت پیدا کرنے کے لئے امام عالی مقام ؓ نے اپنا سب کچھ اس چھری کے نیچے رکھ دیا، جسے بارگاہِ ایزدی سے چلنے کا حکم صادر ہوچکا تھا اور جس کے چلنے کی خبریں پیغمبرِ اسلام ؐ نمناک آنکھوں سے پہلے ہی اپنے صحابہ کو دے چکے تھے کہ میرا یہ بیٹا میدانِ کربلا میں اس شان سے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرے گا کہ تاریخِ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہوگی اور یہ قربانی آسمانِ وفا پہ تا صبح قیامت نیرِ تاباں کی طرح چمکتی رہے گی۔

کوفہ یعنی اپنے مقتل کی طرف جاتے ہوئے بے مثال صبر و رضا اور عزم و استقلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ’’ ہر معاملے کی زمامِ کار اللہ کے دستِ قدرت میں ہے، وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے، ہر دن ہمارے رب کی ایک نئی شان ہے، اگر اللہ کی قضا طے ہو چکی ہے، تو ہم اس کی نعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں، وہی مدد فرمانے والا ہے، اگر اُمید کی راہ میں قضا حائل ہوگئی تو جس کی نیت حق ہو اور باطن تقویٰ سے لبریز ہو، اسے کوئی پروا نہیں ہوتی‘‘۔ (تاریخ طبری)

امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ملت کے افق پر مہر و ماہ بن کر نمودار ہوتے ہیں اور اسلامی اقدار کے تحفظ و فروغ کے لئے ایسے نقوش چھوڑ جاتے ہیں جو آنے والی نسلوں کے لئے مینارہ نور کا کام انجام دیتے ہیں۔آپ ؓاپنی حیاتِ مستعار کی ہر گھڑی ملت اسلامیہ کی خیرخواہی میں لگا دیتے ہیں اور دینی اقدار کی بقا کی خاطر اپنی گردن تک کٹا دیتے ہیں۔گویا ملت کے مفاد کی خاطر آپ ایثار و قربانی، جرأت و شجاعت اور وفا و استقامت کی وہ عظیم مثال قائم کرتے ہیں جس کی مثال تاریخ عالم میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ایک طرف نانا جانؐ کے دین کی خاطر آپ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے آداب فرزندی کی مثال قائم کرتے ہیں تو دوسری طرف ابتلاء و آزمائش کی گھڑی میں قرآن مجید کے احکامات کو اپنا حرزِ جاں بناتے ہیں:’’بیشک ہم تمہارا امتحان کریں گے کسی قدر خوف ، بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور ان ثابت قدموں کو خوشخبری سنادو ۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بیشک ہم اللہ ہی کیلئے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‘‘ ( البقرہ: 155,156)

علامہ اقبال اس حقیقت کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
رمز قراں از حسین آموختیم
زآتش او شعلہ ہا اندوختیم
(ترجمہ: ہم نے قران مجید کی رمز امام حسین علیہ السلام سے سیکھی ہے۔انہی کی روشن کی ہوئی آگ سے شعلے جمع کرتے رہے ہیں)
اللہ کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے محبوب بندوں کی آزمائش کے لئے ان پر مشکل حالات بھیج دیتا ہے اور اپنے قریبی اور محبوب بندوں کو آزمائشوں اور غموں کے کٹھن دور سے گزار کر زمرہ ‘لا یحزنون میں شامل کرکے عظمتوں سے نوازتا ہے۔ جو جتنا قریب اور عزیز ہوگا وہ اتنا آزمایا جائے گا۔وہ دیکھتا ہے کہ بندہ رضا کی راہ پر چلتا ہے یا گلے اور شکوے کی ڈگر پر۔قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:’’کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ( صرف ) ان کے ( اتنا ) کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی۔ اور بیشک ہم نے ان سے اگلوں کو جانچا تو ضرور اللہ سچوں کو دیکھے گا اور ضرور جھوٹوں کو دیکھے گا۔‘‘ (العنکبوت:2،3)

اللہ کی نظر میں محبوب ہو کر بھی امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں پر غم و اندوہ کے پہاڑ گر پڑے مگر انہوں نے آزمائش کی گھڑی میں صبر و رضا کا دامن ہاتھ سے نکلنے نہیں دیا اور استقامت کے ساتھ جہدِ مسلسل کے ذریعے مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
دراصل یہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوشِ تربیت کا ہی فیض ہے کہ جب ہمیں صلح و امن کے اعلی معیارات کی بات کرنی ہو تو امام حسن رضی اللہ عنہ کی صورت میں ایک بہترین نمونہ ہمارے سامنے آتا ہے،اور جب صبر و استقلال،جرأت و بہادری اور باطل کے آگے چٹان کی طرح ثابت قدم رہنے والی نفوس کی بات کرنی ہو تو امام حسین رضی اللہ عنہ کا قابل تقلید نمونہ نکھر کر سامنے آتا ہے۔
کیا بات رضا اس چمنستانِ کرم کی
زہرہؓ ہے کلی جس میں حسینؓ اور حسنؓ پھول
حضرت امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ چاہتے تو باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرکے اعلیٰ مادی و سیاسی کرسیوں پر متمکن ہو کر آرام کی زندگی گزار سکتے تھے مگر انہوں نے مٹتی عدل و انصاف اور تقویٰ پر مبنی اسلامی قدروں کو جلا بخشنے میں متاعِ جاں لگا دی اور یہ سبق دیا:
سر کٹ کے گرے ترا نیزے کی نوک پر
پر تو فاسقوں کی اطاعت نہ کر قبول
پھر سے محرم الحرام سے نئے سال کا آغاز ہوا، پھر شہدائے کربلا کی یادوں سے اُمت کے زخم تازہ ہوئے، ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ شہداء کو پھر سے خراجِ عقیدت پیش کیا جائے اور ساکن و جامد شب و روز سے نکل کر رسمِ شبیری ادا کرنے کا عزم کیا جائے، باطل مادی طاقتوں کو مات دے کر روحانی و اخلاقی انقلاب بھرپا کرنے کی کاوشیں کی جائیں اور عادلانہ اقدار کو اپنی شناخت بنانے کی راہ پر چلنے کی کوشش کی جائے ۔

شہید کربلا جگر گوشہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب کا واقعہ شہادت مسلمانوں کے لئے تاابد دعوتِ فکر و عمل پیش کرتا رہے گا۔ان کی بے مثال قربانی مسلمانوں کو ہمیشہ اس مقصدِ عظیم کی دعوت دیتی رہتی ہے جس کے لئے آپ بے چین ہوکر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ اور پھر مکہ مکرمہ سے کوفہ جانے کے لئے تیار ہو گئے اور جس کے لئے اپنے سامنے اپنی اولاد اور اپنے اہل بیت کو قربان کرکے آپ خود قربان ہوگئے۔

جو بھی اوراقِ تاریخ کھنگال کر واقعہ شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور غور سے آپ کے خطوط اور خطبات کو پڑھتا ہے تو اسے معلوم پڑتا ہے کہ امامؓ نے اپنا سب کچھ صرف انصاف پر مبنی اسلامی اصولوں کی سربلندی اور اقامت کے لئے قربان کردیا۔
[email protected]