پلاسٹک بوتلوں سے ہیرے بنانے کا طریقہ دریافت | ڈارٹ اسپیس کرافٹ جلد سیارچے سے ٹکرائے گا  ٹیکنالوجی

ویب ڈیسک
امریکی ریاست کیلیفورنیا کی SLCA نیشنل ایکسیلیریٹر لیبارٹری میں محققین نظامِ شمسی کے سیارے یورینس اور نیپچون میں ہونے والی ہیروں کی بارش کے عمل کی نقل تیار کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پلاسٹک کی بوتلوں سے ہیرے بنانے کا طریقہ دریافت کیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اب پلاسٹک کے کچرے کو باریک ہیروں میں بدل کر کچرے کی روک تھام میں مدد مل سکے گی۔
چونکہ برف کے ان گولوں کا درجۂ حرارت زمین کے ماحول کی نسبت انتہائی کم اور دباؤ لاکھوں گُنا زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے ان عوامل کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہائیڈروکاربن مرکبات کو توڑتے ہیں اور پھر شدید دباؤ کاربن کو ہیروں میں بدل دیتا ہے جو بعد میں بارش کی صورت میں برستے ہیں۔ اس عمل کی نقل کے لیے سائنس دانوں نے انتہائی طاقتور لیزر پولی ایتھائلین ٹیریفتھالیٹ (PET) پلاسٹک پر ماری جس کے نتیجے میں انہوں نے ہیرے جیسا ڈھانچہ بنتا دیکھا۔

یہ ایک ہائیڈرو کاربن مواد ہوتا ہے جو بالعموم ایک بار استعمال کی جانے والی پیکجنگ میں استعمال کیا جاتاہے۔ ایک طبیعیات دان اور یونیورسٹی آف روسٹوک کے پروفیسر ڈومنِک کراس کا کہنا ہےکہ برف کے ان سیاروں پر ہونے والی سرگرمی کی نقل کے لیے PET پلاسٹک میں کاربن، ہائیڈروجن اور آکسیجن کا بہترین توازن ہوتا ہے۔

سائنس دانوں کو اس بات کا علم ہے کہ ہائیڈروجن اور کاربن سے بنے مرکبات یورینس اور نیپچون کی سطح سے 8046 کلو میٹر نیچے موجود ہیں۔ ان مرکبات میں میتھین بھی شامل ہے، جس میں ایک کاربن کے ساتھ چار ہائیڈروجن ایٹم جُڑے ہوتے ہیں۔ اس ہی کی وجہ سے نیپچون کا نیلا رنگ دِکھتا ہے۔

ادھرامریکی خلائی ادارہ ناسا کا پہلا سیاروی دفاعی اسپیس کرافٹ، جس کو زمین سے 1 کروڑ 9 لاکھ کلو میٹر دور سیارچے کا رخ بدلنے کے لیے روانہ کیا گیا ہے، یہ رواں ماہ 24 ہزار 140 کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے خلائی چٹان سے ٹکرائے گا۔ ڈبل ایسٹیرائڈ ری ڈائریکشن ٹیسٹ (DART) کو گزشتہ برس نومبر میں خلاء میں بھیجا گیا تھا جو تقریباً ایک سال کے سفر کے بعد اب ڈائمورفس نامی ایک چھوٹے سیارچے سے ٹکرائے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سیارچہ ڈائڈِموس نامی بڑے سیارچے کے گرد گھومتا ہے۔ دو طاقتورترین ٹیلی اسکوپ سے چھ راتوں کے مشاہدے کے بعد اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ ڈائڈِموس کا مدار امریکی خلائی ایجنسی کے ڈارٹ کرافٹ کی سیدھ میں آ چکا ہے۔ ان مشاہدات نے 2021 میں کی جانے والی مدار کی پیمائشوں کی تصدیق کی ہے۔ یہ مشاہدے جولائی کے مہینے میں ایریزونا کی لویل ڈِسکوری ٹیلی اسکوپ اور چلی کی میگیلن ٹیلی اسکوپ سے کیے گئے ہیں۔

جان ہوپکنز یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈارٹ اِنویسٹی گیشن ٹیم کے شریک سربراہ اینڈی رِوکِن کے مطابق ٹیم نے جو پیمائشیں 2021 کے ابتداء میں حاصل کیں تھیں وہ ڈارٹ کو صحیح مقام تک پہنچانے کے لیے اور ڈائمورفس کے ساتھ صحیح وقت پر تصادم کے لیے اہم تھیں۔ اُن پیمائشوں کی نئے مشاہدات سے کی گئی تصدیق یہ بتاتی ہے کہ ہمیں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں اور ہم ہدف کے تعاقب کے لیے درست سمت میں گامزن ہیں۔
ڈائڈِموس اور ڈائمورفس ستمبرکے آخر میں زمین کے قریب سے یعنی 1 کروڑ 8 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے سے گزریں گے۔32 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کی لاگت سے بنائے گئے اس 548.8 کلوگرام وزنی اسپیس کرافٹ کا مقصد اس کو ڈائمورفس سے ٹکرا کر سیارچے کی رفتار کا عشرِعشیر حصہ بدلنا ہے۔