پسماندہ طبقہ جات کی فلاح و بہبود راجوری جلسہ میں وزیر داخلہ کے اعلانات خوش آئند

وزیر داخلہ امیت شاہ نے راجوری میں ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کرتے ہوئے گوجر اور بکروالوں کے ساتھ ساتھ پہاڑیوں اور دیگر طبقہ جات کو بھی ریزرویشن دینے کا اعلان کیا ۔اُن کا کہناتھا کہ دفعہ370کی منسوخی سے قبل جموںوکشمیر میں اقتدار صرف تین خاندانوںتک محدود تھا اور سماج کے پسماندہ طبقات تک ریزرویشن کے فوائد نیں پہنچے تھے لیکن وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں مرکزی حکومت نے دفعہ370منسوخ کرکے پسماندہ طبقات کی ترقی کی راہ میں حائل سبھی رکاوٹوں کو دورکیا اور اب ایک کے بعد ایک پسماندہ طبقہ تک ترقی و ریزویشن کے ثمرات پہنچ رہے ہیں۔اُن کا کہناتھا کہ جسٹس شرما کمیشن کا قیام صرف اس لئے عمل میں لایاگیا تاکہ پسماندہ طبقات کی جائز مانگوں کا جائزہ لیاجاسکے اور کمیشن کی رپورٹ موصول ہوچکی ہے جس نے گوجر اور بکروالوں کے ساتھ ساتھ پہاڑی طبقہ کو بھی ریزرویشن دینے کی سفارش کی ہے ۔انہوںنے یقین دلایا کہ قانونی لوازمات پورا کرنے کے بعد پہاڑیوں کو ریزرویشن دی جائے گی تاہم اس عمل میں گوجرو بکروال طبقہ کے ریزرویشن کوٹا میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔وزیر داخلہ کی جامع اور مفصل تقریر پر بات کرنے اور تجزیہ کرنے کی بہت گنجائش موجود ہے تاہم اگر ہم آج کی وزیر داخلہ کی تقریر کو صرف پسماندہ طبقات کے مسائل اور حکومت کی منشاء کے زاویہ سے ہی جانچنے اورپرکھنے کی کوشش کریں گے تو یہ اپنے آپ میں ایک انقلابی تقریر تھی کیونکہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ جموںوکشمیر میں پہاڑیوں سمیت کئی طبقے گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنی پسماندگی کے سبب ریزرویشن کوٹا میں شامل کرنے کی دہائی دے رہے تھے لیکن متواتر سرکاروں نے ان کے جائز مطالبات کی کوئی توجہ نہیں دی اور نتیجہ کے طور نہ صرف طبقاتی امتیاز پیدا ہوگیا بلکہ ایسے پسماندہ طبقات پسماندگی کی دلدل میں دھنستے ہی چلے گئے اور ان کا کوئی پرسال حال تک نہیں رہا۔وقت وقت کی حکومتوں نے ایسے طبقات کو صرف ووٹ بنک سیاست کیلئے استعمال کیااور وقتاً فوقتاً بہت سارے وعدے کئے لیکن جب وہ اقتدار میں آتے تھے تو وعدے بھول جاتے تھے اور یوں یہ طبقات احساس محرومی کا شکار ہوتے رہے ۔کسی زمانے میں پہاڑیوں کو 4فیصد ریزرویشن کا لولی پاپ دیاگیا لیکن عملی طور وہ 4فیصد ریزرویشن ایک دکھاوے کے سوا کچھ نہیں تھی کیونکہ اُس کو کچھ اس طرح ترتیب دیاگیاتھا کہ وہاں بیشتر پہاڑی طبقہ ریزرویشن کا فائدہ اٹھانے محروم رہ جاتا ہے ۔اب تاریخ میں پہلی دفعہ ہورہا ہے کہ پہاڑی طبقہ کی آوازسنی جارہی ہے اور انہیں ان کا جائز حق دینے کا عمل شروع کیاجارہا ہے ۔وزیر داخلہ نے بجا فرما یا کہ پہاڑی طبقہ ہمارے دفاعی نظام کی پہلی لائن ہے کیونکہ سرحدو ں پر یہی لوگ فوج کے ساتھ ہمارے محافظ بنے ہوئے ہیں اور ہم اپنے گھروں میں چین کی نیند سو پاتے ہیں۔اب اگر ایسے ہی طبقہ کو ہم نظر انداز کرتے رہیں تو ہم ملک کا کوئی بھلا نہیں کررہے ہیں اور وقت آچکا تھا جب اس طبقہ کی قربانیو ں کا انہیں سلہ دیا جاتا اور وزیر داخلہ نے عین ایسا ہی کرکے محرومی کے ایک طویل سلسلہ کو ختم کرنے کا آغاز کیاہے۔اسی طرح معاشی طور پسماندہ طبقہ کو بھی پہلی بار ریزرویشن کا فائدہ ملا اور وہ بھی آزادی کے بعد سے اس کی مانگ کررہے تھے ۔دیگر پسماندہ طبقہ جات سے وابستہ لوگ بھی جموںوکشمیر میں27فیصد کوٹا سسٹم عملی طور نافذ کرنے کے حق میں طویل عرصہ سے لڑائی لڑ رہے ہیں لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ سبھی ایسے طبقات کی مرادیں بھر آئیں گی اور سب کا اپنا جائز حصہ مل کررہے گا۔سیاست پر بات ہوتی رہتی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی لیکن عوام کی فلاح و بہود کا خیال رکھنا بھی لازمی ہے ۔وزیر داخلہ نے راجوری جلسہ میں بالکل ویسا ہی کیا ۔انہوںنے جہاں سیاسی موضوع کو بھی چھیڑاوہیں عوامی مسائل پر بھی کھل کر بات کی اور عوام کی پسماندگی کو لیکر سابق حکومتوں کو ایک ایسا آئینہ دکھا یا کہ وہ پانی پانی ہوگئے ہونگے ۔ظاہر ہے کہ جب ایک فلاحی ریاست میں عوام کے سبھی طبقات خوش نہ ہوںتو ایک بہرانی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ہمار ی سابق حکومتوں نے ہی صرف ووٹ بنک سیاست کی خاطر یہاں ایک ایسی طبقاتی کشمکش کو جنم دیاہے جہاں بھائی اپنے پڑوسی بھائی کے خون کا پیاسا بنا ہوا تھااور معیار زندگی میں مختلف طبقات کے درمیان اتنا فرق ہوگیا تھا کہ اب طبقاتی جنگ شروع ہوچکی تھی ۔یہ تو اچھا ہوا کہ وزیرعظم نریندر مودی کی سربراہی والی حکومت نے اس طبقاتی کشیدگی کو بھانپ لیا اور یہ بھی سمجھ لیا کہ یہاں سیاست کی خاطر مختلف طبقات کا استحصال کیاگیا تو انہوںنے اب اصلاح احوال سے کا م لینا شروع کردیا ہے ۔ضرورت اس امر ہے کہ دہائیوں سے موجود اس طبقاتی امتیاز کو ختم کرنے کیلئے فوری اور ہنگامی اقدامات کئے جائیں اور قانونی رکاوٹوںکو دور کرکے سبھی طبقات کو اُن کا جائز حق دیا جائے اور کسی طبقہ کو کسی پر فوقیت نہ دی جائے کیونکہ سرکار کی نظر میں سبھی ایک ہی ہیں اور سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہئے تاکہ سماج میں توازن پیدا ہوسکے اور مساوات کا بول بولا ہوجس کے نتیجہ میں سماج کے سبھی طبقوں کی یکساں ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے میں بھی دیر نہیں لگے گی۔