پریم نگر کہانی

طارق شبنم

’’ بابا ۔۔۔۔۔۔ جا گ گئے آپ، چائے پیو گے ‘‘۔
جب میں نے دیکھا کہ با با نیند سے بیدار ہو گیا تو میں نے فٹ سے پوچھ لیاکیوں کہ میں کافی دیر سے با با کے جاگنے کا انتظار کررہاتھا جو خلاف معمول آج کافی دیر تک سویا رہا ۔
’’پلاوَ‘‘۔
اس نے آنکھیں ملتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھ کر دھیمے لہجے میں کہا تو میں نزدیک ہی موجود ڈھابے پر گیا اور چائے اور سموسے لے کر آگیا۔با با نے چائے پی لی اور آنکھیں بند کرکے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھ گیا ،میں بھی وہی ٹھہر گیا کیوں کہ آج میں با با سے باتیں کرنا چاہتا تھا ،اس کچھ پوچھنا چاہتا تھا ۔بابا،جس کا نہ حلیہ درست اورنہ لباس مناسب تھا،مستی کی حالت میں پچھلے ایک مہینے سے قبرستان کے پاس ایک چنار کے نیچے بیٹھا تھا ،وہ نہ زیادہ باتیں کرتا تھا نہ کسی سے کچھ مانگتا تھا اور نہ ہی کہیں جاتا تھا ۔دن رات وہیں بیٹھا رہتا تھا صرف کبھی کبھی قبرستان کا چکر لگایا کرتا تھا ۔کچھ کھانے کو ملتا تو کھا لیتا، نہیں بھی ملتا تو اُسے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔آتے جاتے اکثر راہ گیر اس کے پاس آکر اُس سے بات کرنے کی کوشش کرتے اورنذرانے پیش کرتے تھے، لیکن وہ ان نذرانوں کو پائے حقارت سے ٹھکراتاتھا اور کسی کی بات کا کوئی جواب نہیں دیتا تھا ، نہ ہی کوئی اس کے پاس زیادہ دیر ٹھہرنے کی ہمت کرتا تھا۔ لیکن میں دن میں کئی بار اس کے پاس جاتا تھا،اس کی خدمت کرتا تھا۔ سو اس کے ساتھ ایک شناسائی سی بن گئی تھی اس لئے میں بلا خوف اس کے پاس بیٹھ کر اس باتیں بھی کرتا تھا لیکن یہ مجھے بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور یہاں کیوں ٹھہرا ہے جب کہ وہ زیادہ تر اشاروں،کنایوں اور استعاروں میں ہی اپنی باتیں کہتا تھا جو میرے پلے نہیں پڑتی تھیں ۔با با کا مزاج بھی پل میں تولہ پل میں ماشہ ہوتا تھا ،کبھی کبھی طیش میں آکروہ مجھے ٹوکتا بھی تھالیکن میں برا نہیں مانتا تھا۔ بہر حال کچھ دیر بعدہوا کا ایک لطیف جھونکا آیاتو با با نے آنکھیں کھولیں ۔
’’ با با ۔۔۔۔۔ آج آپ اتنی دیر کیوں سوئے رہے ،آپ کی طبعیت ٹھیک ہے نا ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
میں نے با با سے بات شروع کرنے کی غرض سے پوچھ لیا۔
با با نے زبان سے کچھ نہیں کہا صرف ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ سجاکر اثبات میں سر ہلایا ۔
’’ بابا ۔۔۔۔۔۔ آپ کا گھر کہاں ہے۔۔۔۔۔؟‘‘
’’پریم محل‘‘ ۔
میرے سوال پر با با کے مُنہ سے بے ساختہ نکلا ۔
’’ پریم محل ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
میں دھیرے سے خود سے بڑ بڑایاکیوں کہ مجھے یہ نام کچھ عجیب سا لگا۔
’’ہاں پُتر ۔۔۔۔۔ پریم محل‘‘ ۔
’’ با با ۔۔۔۔۔۔ یہ پریم محل کہاں ہے ؟‘‘
’’پُتر ۔۔۔۔۔۔ یہ ایک الگ ہی شہر پریم نگر میںہے جسے بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں‘‘ ۔
’’ بابا ۔۔۔۔۔ وہ تو ٹھیک ہے پر ہے کہاں ؟‘‘
میرے اس سوال پر با با سر نیچے کی طرف کرکے دھیرے سے مسکرایا اور خود سے نہ جانے کیا بڑ بڑاتا رہا ۔با با آج خوشگوار موڑ میں تھا اس لئے میں بھی سوال پہ سوال پوچھنے کی ہمت کر رہا تھا ۔
’’ اچھا با با ۔۔۔۔۔یہ تو بتائو کہ تمہارا پریم نگر کیسا ہے ؟ا ور وہاں کس کی سرکار چلتی ہے‘‘۔
سرکار کا لفظ میں نے اس لئے جوڑ لیا تاکہ یہ جان سکوں کہ کون سا علاقہ ہے ۔
’’میرا پریم محل تو بے مثال اور عالی شان ہے جہاں محل کے حقیقی بادشاہ کی حکومت چلتی ہے ۔اس سے زیادہ میں اپنے محل کے بارے میں کچھ نہیں بتائوں گا ، لیکن اتنا ضرور بتائوں گا کہ ہرپریم محل کے نو خوبصورت دروازے ہوتے ہیں جو اپنی اپنی ضرورت کے وقت کھلتے اور بند ہو جاتے ہیں ،دو نگران ہر وقت آنے جانے والوں کی نگرانی کرتے ہیں ۔پریم محل میں ایک نہایت ہی پر کشش ولا جواب محل خانہ ہوتا ہے جوپاکیزہ ہونے کی صورت میں ہر وقت قسم بہ قسم کی روشنیوں سے چمکتا رہتا ہے اور جہاں شہنشاہ عالی مقام کے لئے ایک نہایت ہی بیش قمیت تخت بچھا ہوتا ہے۔اس کے علاوہ پانچ محافظ چوکیاں اور مختلف رنگوں کے چار میناربھی ہوتے ہیںجب کہ چھ اعلی ٰ پائے کے شاہین بھی ہوتے ہیںہیں، جن میں سے دو پریم محل کے حاکم چنے جا سکتے ہیں‘‘ ۔
’’ وہ کون سے دو ہیں ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
میں نے پوچھ لیا ۔
’’ ان دو میں سے ایک عادل اور دوسرا نہایت ہی ظالم ہوتا ہے جو ہر وقت اپنی مکروہ چالیں چلتا ہے ۔اگر ظالم کو پریم محل کا حاکم چنا گیا تو وہ اپنے ظلم وستم سے محل کو غلاظتوں سے بھر دیتا ہے ظلم و ستم سے محل کو تحس نحس کرکے اندھیروں کے حوالے کرکے محل کے مکینوں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے جب کہ عادل حاکم کی صورت میں پاکیزہ ہو کرمحل کا گوشہ گوشہ محبت اور عدل وانصاف کی نورانی قندیلوں سے جگمگاتا رہتاہے ، لطافتوں سے مہکتا ہے اور محل کے مکین سدا شاداں وفرحاں اور کامیاب و کامران رہتے ہیں ‘‘ ۔
کہتے ہوئے با با کی آنکھوں میں عجیب قسم کی چمک عود آئی اور وہ سرور کی کیفیت میں آسمان کی اور دیکھتے ہوئے نہ جانے خود سے ہی کیا باتیں کرنے لگا ۔
’’ با با ۔۔۔۔۔۔ پریم محل کے بارے میں اور کچھ بتائو؟‘‘
کچھ دیر بعد میں نے با با سے پوچھ لیا ۔
’’پُتر ۔۔۔۔۔۔ پریم محل کی داستان کافی طویل ہے لیکن مختصراًیہ سمجھو کہ ہر پریم محل کا نظام چلانے کے لئے چوبیس ہزار کارندے دن رات متحرک رہتے ہیں جن میں سے اگر ایک بھی غافل ہوجائے تو فوت ہوکر ضایع جاتا ہے‘‘ ۔
’’ با با ۔۔۔۔۔۔ میں بھی پریم محل دیکھناچاہتا ہوں ،مجھے اس کا پتہ اور راستہ بتائو‘‘۔
’’پُتر ۔۔۔۔۔۔ پریم نگر کے گہرے دریاکا سفر طے کئے بغیر پریم محل کو دیکھنا یا اس کے راز و نیاز کو سمجھنا دشوار ہے جب کہ پریم نگر کے دریا کاسفر اتنا آسان نہیں ہے،راستہ انتہائی کٹھن اور پتہ ایک گہرا راز ہے ،جسے حاصل کرنے کے لئے تحقیق کرنی پڑتی ہے اور مرنے سے پہلے مرنا پڑتا ہے ۔اس دریا کا کٹھن سفر طے کرنے والے اپنی منزل یعنی پریم محل جیسی نعمت غیر مترکبہ حاصل کرنے کے بعد آب حیات پی لینے والوں کے مانند امر ہوجاتے ہیں‘‘۔
’’ مرنے سے پہلے مرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔ امر ہو جاتے ہیں‘‘
با با کی یہ عجیب باتیں سن کر میں حیرت زدہ ہو گیا اورپریم محل دیکھنے کی خواہش نے مجھے سختی سے اپنے شکنجے میں کسا۔
’’ با با ۔۔۔۔۔۔ میں کچھ سمجھا نہیں ‘‘۔
’’ پتر ۔۔۔۔۔۔ پریم نگر کے گہرے دریامیں غوطہ زن ہوئے بغیر کچھ سمجھو گے بھی نہیں‘‘۔
’’ لیکن میں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’اب کوئی اور سوال نہیں ،چلے جائو یہاں سے‘‘ ۔
با با نے جھجھلا کر میری بات کاٹتے ہوئے زناٹے دار لہجے میں کہا اور آنکھیں بند کرکے اپنی دنیا میں کھو گیا جب کہ میںسخت بے چین ہو کر سوچوں کی بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ گیا۔
٭٭٭
اجس بانڈی پورہ (193502)کشمیر
[email protected]