پریمی رومانی کی تصنیف ’’اقبال اور جدید اردو شاعری ‘‘ ایک جائزہ

سبزار احمد بٹ

اس میں کوئی شک نہیں کہ علامہ اقبال کی شخصیت ان کے فن اور ان کے پیش کردہ مختلف فلسفوں پر متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ ان کتابوں کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ اب اس شخصیت پر لکھنے کی زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ لیکن علامہ اقبال کی شاعری کسی سمندر سے کم نہیں ہے جس سے لاکھوں گوہر نایاب نکالے جاچکے ہیں اور پریمی رومانی جیسے غواض اس سمندر کی تہہ میں غوطہ زن ہو کر اس سے گوہرِ نایاب نکالنے میں ابھی بھی منہمک ہیں ۔زیر تبصرہ کتاب ڈاکٹر پریمی رومانی کی علامہ اقبال پر لکھی گئی غالباً اب تک کی ضخیم کتاب ہے جو کسی کشمیری پنڈت نے تخلیق کی ہو۔ مذکورہ کتاب کو پانچ ابواب میں منقسم کیا گیا ہے، مصنف نے پہلے باب میں اقبال کے فکری گوشوں پر بات کرکے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اقبال نے مختلف فلسفوں کا مطالعہ کیا، لیکن کسی ایک کے ساتھ بہہ جانے کے بجائے اپنے آفاقی فلسفے کی آبیاری کی۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ اقبال محض اسلامی شاعر نہیں تھے ،ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے ہی انہیں انسانی ہمدردی اور مساوات کا درس دیا،اور حیات کا وہ آفاقی نظام انہیں فقط اسلام میں ہی نظر آیا جس آفاقی نظامِ حیات کے وہ متمنی تھے۔اس حصے میں اقبال کے تصور خودی کو بھی بہت خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے، اس حوالے سے مختلف مستند اور معتبر ادیبوں اور اقبال شناسوں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ پریمی رومانی نے اقبال کے تصور عشق سمجھاتے ہوئے لکھا ہے کہ اقبال عقل پر عشق کو فوقیت دیتے ہیں، اقبال کی نظر میں عشق کی بدولت ہی ابراہیمؐ آگ میں کود پڑا ہے، عشق وہ طاقت ہے کہ اس سے پوری دنیا کو مسخر کیا جاسکتا ہے ۔اقبال کا تصور عشق باقی لوگوں سے مختلف ہے اور یہ تصور مولانا رومی کے تصور عشق سے میل کھاتا ہے۔ مصنف نے اقبال کے تصور مردِ مومن کو پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اقبال کی نظر میں مرد مومن تمام تر صلاحیتوں کا پیکر بلکہ مکمل انسانیت کا نمونہ ہے۔ مرد مومن اپنی
طاقت اور عقل کو اپنے خالق کے تابع کر دیتا ہے، اسی حصے میں جلال و جمال کے موضوع کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے جس میں یہ بتایا گیا کہ اقبال نے شاہین کو اسلامی فکر کی نشانی کے طور پر استعمال کیا ہے۔ شاہین چونکہ غیرت مند جانور ہے، اُونچی اڑان بھرتا ہے، مردار نہیں کھاتا ہے، خلوت پسند ہے، آشیانہ نہیں بناتا ہے، آزادی پسند ہے ،اقبال ایک مومن میں اسی طرح کی خصوصیات کا متلاشی ہے۔ چند اور تصورات کو پیش کرتے ہوئے اقبال کی اس شاعری کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس میں وہ سرمایہ دار نظام کی مخالفت کرتے ہیں اور شوسلزم سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ اقبال اس بات کو بخوبی سمجھتے تھے، سرمایہ دارانہ نظام کم ترقی یافتہ ممالک کو کسی منڈی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا ہے ،سرمایہ دارانہ استحصال کا ذکر اقبال کی نظم ” خضر راہ ” سے ملتا ہے۔
کتاب کا دوسرا باب “اقبال کا فن” کے نام سے موسوم ہے۔اس میں اقبال کے فن پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر پریمی رومانی لکھتے ہیں کہ اقبال کے ذہن میں شعر کا مقصد ابتدا سے ہی واضح ہوتا ہے وہ اپنے فن کو فکر کے تابع بناتے ہیں ۔لیکن اپنے موضوع کو فن پر قربان نہیں کرتے، ہاں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اقبال صرف مقصد پر نظر رکھتے تھے اور ان کے یہاں فن کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔بقول شوکت سبزواری ‘حسن کو حقیقت کا نقاب سمجھتے تھے، ‘ اقبالؒ اپنے فن کےذریعے روحانی اور اخلاقی درس کا پیغام دینا چاہتے ہیں، فن محض ایک ذریعہ ہے اپنی بات کو موثر بنانے کے لیے ۔یہاں کسی بھی نغمے میں تکمیلیت یا پختگی کا احساس تب تک پیدا نہیں ہوسکتا جب تک اس میں فنکار کا خون جگر شامل نہ ہو۔
مصنف نے اقبالؒ کی نظم نگاری کا بھی جائزہ لیا ہے، اس حوالے سے لکھا گیا کہ اقبال یورپی نظم سے متاثر رہے ہیں ۔اس بات کو مزید مستحکم بنانے کے لیے مصنف نے خلیفہ عبدالحکیم کی کتاب ” فکر اقبال ” کا حوالہ دیا ہے۔ مصنف کا ماننا ہے کہ اقبال نے اگر چہ نظم نگاری کے روایتی انداز سے انحراف کیا ہے، جس پر حالی اور آزاد نے قدم جمائے تھے۔تاہم موضوعی اعتبار سے وہ اس سب سے اپنا دامن نہ بچا سکے ۔حالی نے اسلامی نظریہ حیات کے تحت جو اخلاقی درس دیا،اقبال نے اسی پر اپنی عمارت تعمیر کی۔ تاہم اقبال کی اکثر نظموں میں انگریزی تفکر کی گہری چھاپ دیکھی جاسکتی ہے۔مصنف نے اقبال کی غزل گوئی پر بھی بات کی ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ اقبال نے اپنی غزل گوئی میں نہ صرف اپنے مقصد کو ملحوظ نظر رکھا بلکہ شعر کے ظاہری حسن کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ابتدا میں اقبال نے اپنی غزلوں میں ظاہری کیفیات کو سمیٹا ہے لیکن بعد میں خود شناسی کا احساس بھی غزل کےذریعے ظاہر کیا۔ اقبال کی نظم میں بھی غزل کا سا حسن نظر آتا ہے۔ اس حصے میں مصنف نے یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ اقبال نے اپنی غزل کے ذریعے حالی کی روایت کی توسیع کی ہے بلکہ اپنی غزل میں تشبیہ، استعارہ علایم، پیکر تراشی اور تراکیب کا بہترین استعمال کیا ہے۔ اقبال کی اکثر تشبیہات اور استعاروں کا سر چشمہ فارسی شاعری ہے، لیکن اقبال نے تشبیہات اور استعاروں کو روایتی معنوں میں استعمال کرنے سے انحراف کیا بلکہ ان کو اپنے مطلب کے اظہار و ابلاغ کے لیے موزون بنایا۔
ڈاکٹر پریمی رومانی نے اپنی اس کتاب کے تیسری باب میں اقبال کے فکر و فن کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے ایک عہد بلکہ شاعروں کی ایک نسل کو متاثر کیا ہے۔ کتاب کے اس باب میں مصنف نے مدلل اور مفصل انداز میں بیان کیا ہے کہ کون کون سا شاعر اقبال کی شاعری سے اثر انداز ہوا۔اس باب میں سیماب اکبر آبادی، امین حزین، جگر مراد آبادی حفیظ جالندھری کے نام گنوائے گئے ہیں ۔مصنف کا ماننا ہے کہ اگر چہ آنند نارائن ملا، اقبال سے بعد کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کی شاعری میں اقبال کا گہرا رنگ دیکھا جاسکتا ہے۔اس کے بعد عرش صہبائی، جمیل مظہری، طاہرالقادری ن م راشد، احسان دانش، سردار جعفری، جگن ناتھ آزاد جیسے شعرا کا نام بھی لیا ہے اور اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ کہاں کہاں پر ان شعرا کی شاعری میں اقبال کا اثر دیکھا جاسکتا ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ فلسفیانہ تفکر کے اعتبار سے سیماب اکبر آبادی اقبال کے خیالات کو چھو نہیں سکتے ،لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ سیماب اکبر آبادی بھی صاف طور پر علامہ اقبال کے نقشے قدر پر گامزن ہیں، خاص کر جب خودی یا بے خودی کے موضوع کی بات کی جائے ۔اسی طرح سے احسان دانش نے علامہ اقبال کی تقلید کرتے ہوئے اپنی شاعری میں مزدوروں اور محنت کش طبقے کی ترجمانی کی ہے۔ تو جمیل مظری نے تشبیہہ، استعارے اور تراکیب کو علامہ اقبال کے معنوی میں استعمال کیا ہے۔یعنی کہیں نہ کہیں ان شعرا کی شاعری میں اقبال کا رنگ ضرور نظر آتا ہے۔ امین حزیں اگر چہ خود اعلان کر چکے ہیں کہ انہوں نے کسی شاعر کی تقلید نہیں کی اور ان کی شاعری کا رنگ علامہ اقبال کی شاعری سے مختلف ہے لیکن ڈاکٹر پریمی رومانی نے امین حزیں کے ان اشعار کی نشاندہی کی ہے ،جن میں اقبال کی شاعری کا اثر جھلکتا ہے۔تصنیف کا چوتھا باب ’’ معاصرین اقبال پر کلام اقبال کے اثرات‘‘ تیسرے باب سے قدرے ملتا جلتا ہے۔ اس مضمون میں مصنف نے سیماب اکبر آبادی، امین حزین،، جگر مراد آبادی، حفیظ جالندھری، صوفی تبسم، آنند نارائن ملا، اور اثر صہبائی پر طویل مضامین لکھ کر سیر حاصل بحث کی ہے۔ان شعرا کی شاعری اور علامہ کی شاعری کی مماثلتوں کی نشاندہی کی گئی ہے بلکہ نمونہ کلام بھی پیش گیا گیا ہے ۔ان شعرا کی حالت زندگی پر بھی بات کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسد ملتانی کی نظم ” شبنم کا قطرہ ” پر شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کی اصلاح کا عکس بھی کتاب اس حصے میں شامل کیا گیا ہے۔ مصنف نے دلیلوں کے ساتھ اس بات کی وضاحت کی ہے کہ کہاں کہاں پر اسد ملتانی اور باقی شعرا کی شاعری میں اقبال کے شاعری کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ کتاب کا پانچواں اور آخری باب ” شعرائے مابعد پر کلام اقبال کے اثرات” سے موسوم ہے اس حصے میں ن م راشد، جگن ناتھ آزاد، اور احسان دانش کا ذکر خصوصی طور پر ہوا ہے۔مصنف نے ان شعر کے حالات زندگی پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری پر اقبال کے اثر کی بھی نشاندہی کی ہے۔مصنف نے جگن ناتھ آزاد کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ۔جگن ناتھ آزاد اقبال کے شیدائیوں میں سے تھے، اس بات کا ثبوت ” اقبال کا عہد”، ” اقبال اور مغربی مفکرین”، ” اقبال اور کشمیر” جیسے تحقیقی و تنقیدی مجموعوں سے لگایا جاسکتا ہے جو جگن ناتھ آزاد نے اقبال سے متاثر ہو کر لکھے ہیں۔منجملہ طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب نہ صرف اردو ادب میں ایک اضافہ ہے بلکہ اقبال کو سمجھنے میں مدد گار آلہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر چہ اقبال کے فن پر، اور ان کی فکر پر بھی بات ہوئی ہے تاہم کتاب کا بڑا حصہ اس بات پر مشتمل ہے کہ اردو شاعری میں کہاں کہاں پر شعرا نے اقبال کے رنگ کو تسلیم کیا ہے اور ان شعرا کی شاعری سے اقبال کے کلام کی بازگشت کسی نہ کسی صورت میں سنائی دیتی ہے جو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ اقبال زمان و مکان سے آزاد شاعر ہیں ۔ان کی شاعری پر وقت کی گرد نہیں جمی ہے بلکہ ان کے شاعری روز بہ روز نکھرتی جا رہی ہے اور ان کی شاعری سے نئے زاویے اور نقطے منظر عام پر آتے جارہے ہیں۔شعرا نے اقبال کے اثر اور رنگ کو تسلیم کیا ہے اور آگے بھی کرتے رہیں گے۔اس کتاب کے سلسلے میں ڈاکٹر اقبال کے فرزند جناب جاوید اقبال نے پریمی رومانی کے نام ایک خط لکھا ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔ خالد بشیر اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ پریمی رومانی واحد ایسے کشمیری پنڈت ہیں ،جنہوں نے اقبال پر سادھی ہوئی خاموشی کو توڑا اور اس طرح کی ضخیم کتاب لے کر آئے ہیں ( ترجمہ)۔اس حوالے سے گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ ” آپ کی کتاب، اقبال اور جدید اردو شاعری موصول ہوئی، بہت خوشی ہوئی، یہ بہت مشکل موضوع ہے، لیکن آپ نے اس کا پورا حق ادا کرنے کی سعی کی ہے،آپ سے اس طرح کی توقع تھی “۔ اس کے علاوہ پروفیسر جگن ناتھ آزاد ،پروفیسر آل احمد سرور، پروفیسر قمر رئیس اور ڈاکٹر مشتاق احمد وانی نے بھی اس کتاب پر حوصلہ افزا تبصرے کئے ہیں، جن سے اس کتاب کی اہمیت مسلم ہو جاتی ہے ۔میں ذاتی طور پر ڈاکٹر پریمی رومانی کے اس کام کو، ان کی اقبال شناسی اور علامہ اقبال سے ان کی عقیدت کو سلام کرتا ہو اور انہیں اس کام کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔
7006738436
[email protected]