پروفیسر رحمان راہی ؔکی شاعری میں تصور ِحسن و عشق شخصیات

مجید مضروب
کشمیری زبان و ادب کے ممتاز، شاعر، نقاد ،محقق اور مترجم گیان پیٹھ انعام یافتہ پروفیسر رحمان راہی کا شمار ان نامور اور نا بہ گیہ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے، جنہوں نے صدیوں سے کشمیری زبان و ادب کے افق پر ایک اعلی اور منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا ،بیسویں صدی کے نہ صرف وادی کشمیر بلکہ ملک اور بیرون ملک کے تمام تر شعراء نقاد، محقق کسی نہ کسی طرح پروفیسر رحمان راہی کے کاوشوں سے مستفید ہوتے رہے ہیں ۔اس صدی میں فکر انگیز شاعر غلام احمد مہجور اور انقلابی شاعر عبدالاحد آزاد کے بعد پروفیسر رحمان راہی پورے آب و تاب کے ساتھ یہاں کی بنجر اور خار زاروں میں اپنی مشفق رویہ سے لہلہاتے کھیتوں اور کھلیانوں میں سوندھی سوندھی خوشبو کے خواب اپنی آنکھوں میں سجاتے ہوئے محل خانوں میں خواب غفلت میں سونے والے ہزاروں کانوں میں صبح نو بہار کی نوید سنائی۔ انہوں نے کشمیری زبان و ادب کو ڈرائنگ روم سے نکال کر سنگلاخ زمین میں سانس لینے کی اہل بنائی۔
پروفیسر رحمان راہی ترقی پسند شاعر رومانیت اور حسن عشق کے بہت بڑے علمبردار تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں رومانیت اور حسن و عشق کے حسین امتزاج کی صحت مند روایات اس قدر موجود ہے، بعض اوقات بڑے بڑے ناقدین کو سمجھنے میں لوہے کے چنے چبانے کی نوبت در آتی ہے ۔
دراصل راہی صاحب کا تصور حسن و عشق سا کت نہیں تھا بلکہ ہمہ گیر اور متحرک اور نام نہاد دنیاوی آلائشوں سے پاک و صاف نظر آتا ہے۔ جو ہمیشہ کائنات کی حقیقت اور اس کی بے ثباتی کا منفرد تصور اور ہزار زاویے سے فطرت کے تہہ خانوں کے عمیق پردوں کو کو کھولنے کی سعی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ راہی صاحب کی شاعری میں تصور عشق کی حقیقت کا انکشاف ان کے مزاج اور فکری و عملی زندگی کے بغور مطالعے اور مشاہدے سے کیا جا سکتا ہے۔ وہ مذہب کو مسجد، مندر، گردوارے اور گرجا کے تصور سے بالاتر ہو کر ان کی فکر سچائی ، نیکی ، انسانیت اور مساوات سے لبریز اس جستجو میں رہتی ہے کہ کس طرح بنی نوع انسان کی ترقی، خوشحالی اور خیرسگالی کا ماحول پنپ کر پورے جوبن پر اتر آئے تا کہ ایک انسان آزاد فضا میں اپنی مخفی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر انسانوں کی بستی میں اپنی زندگی آزادانہ طور پر بسر کر سکیں، ورنہ تو زندگی گدھوں جیسی ہے تو حساب انسانوں کا دینا پڑے گا۔ ان کی شاعری محبوب سے بیزاری اور شکوہ شکایت سے کوئی سروکار نہیں رکھتی اور نہ تیکھا نہ چبھتا ہوا لہجہ ان کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے بلکہ اپنی بات مدہم طریقے سے اس طرح دوسرے کے کانوں تک پہنچا تے ہیں ،جہاں انسان کو گد گدی ہوجاتی ہے۔
راہی صاحب کا مزاج فطرت شوخ اور بے باک ہے لیکن دور حاضر کے حالات اور مشکلات نے جہاں انسان کو عدم شناخت identity crises اور عدم توجہی کے لبادہ میں لپیٹ کر پرآشوب تلاطم میں مبتلا کر کے مایوسی ،نامرادی ، ناامیدی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔راہی صاحب نے وہاں اپنی بے باک طبیعت کے بل بوتے پر برسرپیکار ہوئے ان کی شاعری میں وقت کی جھنکار سنائی دینے لگتی ہے۔ لیکن یہاں راہی صاحب نے اپنی جنھکار کو لذتیت اور سطحیت کے ملبے تلے دبنے نہیں دیا بلکہ پاکیزگی، سادگی اور معصومیت کے ساتھ قدامت پسندی سے کنارہ کشی کرکے رجائیت پسندی کی بانسری کی سریلی لیَے سے غنایت اور موسیقی سے اپنی شاعری کو مزین کرکے آگے بڑھتا ہوا نظر آتا ہے ۔یہی ان کی شاعری کی شناخت اور دوسرے شعرا ءسے اس کو ممتاز اور منفرد حیثیت عطا کرتی ہے۔
پروفیسر رحمان راہی کی شاعری کا ایک نصب العین اور ایک مخصوص طرز اظہار بھی ہے انہوں نے اپنی شاعری کے لئے جو نصب العین اختیار کیا ہے، وہی نصب العین بلا چون و چرا ان کی شہرت اور مقبولیت کا باعث بنا۔ فکر مند شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ راہی صاحب محب وطن بھی تھے ۔ ان کی حب الوطنی ان کی شاعری کو اس مستقر پر لاکھڑا کرتی ہے جہاں شاعری کے ذریعے وطنیت کے دھارے کو وسیع تر اور ٹھوس بنیادوں پر استوار ،مضبوط و مربوط بنا کر اسے تمام نام نہاد مسلکی ، مذہبی ، رنگ، نسل ، ذات پات اور دیگر سماجی اونچ نیچ کی پابندیوں اور بندشوں سے آزاد کر کے مثبت ماحول میں عوام کا رشتہ محنت کش طبقے سے جوڑ دیتا ہے۔ یہ نصب العین دیگر ترقی پسندوں کے برعکس مختلف تھا ،انہوں نے اپنی شاعری میں حسن و عشق ، زندگی کا تصور اور سماجی کشمکش کے خدوخال اور اثرات ایسے مرتب کیے ،وہ نہ صرف بلندوبالا بلکہ ہمہ جہت پہلو لئے ہوئے آئندہ آنے والے دور افتاد ادب نوازوں کے لیے مشعل راہ اور صحت مند سمت عطا کرنے میں ناگزیر بن جائیں گی، ان کی ایک درجن سے زائد تصانیف جن میں سنہ ون ساز، صبحک سودا ،نو روز صبا ، سیاہ رود اجیرن منزل، شہ رگ ، ویتھ،کہوٹ وغیرہ تصانیف ان باتوں کی کی گواہی پیش کرتے ہیں کہ کس طرح راہی صاحب اپنے وطن کی تہذیب و ثقافت،کلچر اور تاریخ سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہیں انہوں نے خواب و خیال یا قصہ گل بکاولی کی باتیں کرنے کے بجائے ادب برائے ادب نہیں بلکہ ادب برائے زندگی کا کشکول آنکھوں میں سجاتے ہوئے شرمندہ تعبیر کرنا چاہا۔ع
میں نے آنگن کو غور سے سے دیکھا
پیڑ سب کے سب
ایک دوسرے کے دامن میں دبک گئے تھے
سواے ایک کے ،جو مسجد کے روشن بلب
سینکڑوں ہاتھ آسمان کی اور اٹھائے
پتھرا گیا تھا
میں ایک بار پھر اچھل کے گرا
پروفیسر رحمان راہی حقیقت انتہائی حساس اور سماج کی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھ کر بڑے نباض کی صورت میں جذبات کے مدہم آویزش سے کرب و اضطراب اور حسن و عشق کے لازوال سمتوں کو علامت بنا کر شعرکی صورت میں اس طرح ڈال دیتا ہے۔ شاعر اپنے یخ بستہ دل میں چھپی ہوئی روش اور ہنگامہ خیزی سے قارئین کو برانگیختہ کرتے ہیں ،اس انوکھی عمل میں گرچہ بے شمار خدشات اور تضادات جنم لیتے ہیں لیکن راہی صاحب اس عمل میں تمام تضادات اور متنفر اعتراضات کو تسکین و تمکینیت کے ساتھ محو سفر رہ کر جذباتی دنیا کی خلوتوں میں نہیں چلا جا تا ہے بلکہ کرب و اضطراب کی بٹھی میں تپتا‌ہوا شاعر کی تخلیق کرتا ہے اور داخلی واردات سے نکل کر خارجی واقعات میں واپس لوٹ کر نوع انسان سے قریب تر ہو کر ہم کلام ہو جاتا ہے۔ اس طرح واقف ہونا پڑتا ہے کہ ان کا اسلوب چھیڑچھاڑ ، تکلیف دہ فقرہ بازی اور وقتی طور جذباتوں کو برانگیختہ کر نے والا نہیں بلکہ زندگی کو لا متناہی مقام تک لے جانے میں اہم رول نباہ سکتا ہے ۔
رحمان راہی کو اکثر تنہائی کا شاعر تصور کیا جاتا ہے ۔ان کی تنہائی یاس اور بیگانگیت سے ہمکنار نہیں بلکہ دور جدید کے وجودی بحران سے ٹمٹماتا ہوا انسانی وجود اور غم حیات سے نڈھال ہو کر اور زندگی کے پس و پیش سے نبرد آزما ہو کر یہاں تک کہنے کے لئے مجبور ہوتا ہے کہ ؎
زندہ روزنہ با پت چھ مران لوکھ ژء مرکھنا
لوتہ پا ٹھ چکھا پیالہ ، کہو اُف تہ کر کھنا
’’سونہ لانکہ پیٹھ ‘‘نظم بھی کسی دور کی یاد اور کسی سے وداع ہونے کی استفسار کرتی ہے۔
موتہ کس پنجرس چھنا اڑوژھ تہ روزان دار زانہہ
الغرض ان تمام تخلیقات کے باوجود اور گیان پیٹھ انعام یافتہ شاعر، نقاد ، مترجم اور کشمیری زبان و ادب کے مایہ ناز شاعر اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اس پسماندہ اور بچھڑے ہوئے قوم کے خاردار اردو زبان و ادب کو گل سر سبط بنا کر اور کشمیری زبان و ادب کو عالم ادب کے افق پر تا بندہ بنانے کی ان تھک کوششوں کا راہی ٩ جنوری ٢٠٢٣ کو اپنے ابدی سفر کے لیے روانہ ہوئے۔
بہت آگے مگر ہم جیسے کم دید ور آئے
ہماری طرح جو ان کے لب و رخ تک گزر آئے
نہ جانے کس قدر راہوں کے پیچ و خم سے گزرے
کہیں پھر جاکے راہی کو آداب سفر آئے
( رسو بڈگام،رابطہ۔7006584514)
<[email protected]>