پردیسی

طارق شبنم
’’ تلہا ۔۔۔۔۔۔ کیانظارے دیکھ رہے ہو؟‘‘
’’ نظارے نہیں سر ۔۔۔۔۔۔لڑائی دیکھ رہا ہوں ‘‘ ۔
’’ یہ لڑائی تو روز کی بات ہے ، اس سیارے کی یہی ایک عجیب مخلوق ہے جو بہت ذہین بھی ہے لیکن آپس میںنہ صرف بہت زیادہ لڑتے ہیں بلکہ مرتے اور مارتے بھی ہیں جب کہ باقی سارے جاندار پر سکون زندگی گزار رہے ہیں ۔اینی وے (Any Way)تم اپنے تمبو کی نگرانی ٹھیک سے کرائو،مجھے بہت کام کرنا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘۔

مسٹر ڈچ ،جسے خون ریز لڑائیوں سے گھبراہٹ محسوس ہوتی تھی ،نے تلہا کو ہدایات دیں اور کچھ دیر تک گہرائی سے ارد گرد کا جائیزہ لینے کے بعد خیمے میں اپنی نشت پر بیٹھ کر کام میں منہمک ہو گیا ۔
’’آخر یہ معمہ کیا ہے ؟جسے میں اتنے دنوں سے سمجھ نہیں پا رہا ہوں‘‘۔

کچھ دیر تک سامنے پڑے کاغذات کے ساتھ اُلجھے رہنے کے بعد وہ خود سے بڑ بڑایااور آنکھیں بند کر کے اپنے مشن کے بارے میں سوچنے لگا ۔۔۔۔۔۔
مسٹر ڈچ کسی دوسرے سیارے کا ایک قابل اور تجربہ کار سائینس دان تھا جو اپنی ٹیم کے ہمراہ زمین پر ایک خاص مشن پر آیا تھا ۔ دراصل زمین پر آباد ایک خاص مخلوق کی طرف سے ان کے سیارے کے بار بار چکر لگانے کے پس منظر میں وہاں کے حکام نے اس کو زمین کے حالات و واقعات اور یہاں گزر بسر کر رہے مخلوقات کے طرز زندگی کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنے کی غرض سے بھیجا تھا تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ زمین کے باشندوں کی طرف سے ان کے سیارے کو کوئی خطرہ تو نہیں ہے ۔وہ کئی ہفتوں سے خفیہ طور پر زمین پر مقیم اپنی ٹیم کے ہمراہ زمین پر آباد مخلوقات کے طرز زندگی ،رہن سہن اور حرکات و سکنات کا بڑی گہرائی سے مشاہدہ کرتا رہا۔دیگر جانداروں جیسے جانور، چرندوپرند و

اورجنیات غیرہ ،جن کی زندگی گزارنے کے لئے اس سیارے کا ماحول انتہائی موافق دکھائی دے رہا تھا اور جو نہایت پر سکون انداز میں اپنے شب و روز گزار رہے تھے ،کو سمجھنے میں اسے زیادہ اُلجھنوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔لیکن اپنے آپ کو زمین کا بادشاہ کہنے والے آدم زادکے بارے میں اس کے دل میں طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا ہورہے تھے ۔وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا کہ اس سیارے کی دو پائوں پر چلنے والی یہ مخلوق دوسرے جانداروں کے مقابلے میں انتہائی نازک مزاج اور آرام طلب ہے جب کہ یہاں کا ماحول ان کے رہنے بسنے کے لئے کسی بھی طور موافق نہیں ہے ۔بہت زیادہ ذہین ہونے کے سبب یہ یہاں کے ماحول کو اپنی زندگی کے موافق بنانے اور زندگی کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ اور پر سکون بنانے کے لئے بے شمار جتن کر رہے ہیں ۔ سائینس کی ترقی کی بدولت نئی نئی ایجادات کر رہے ہیں لیکن ان کے مسائل ہیں کہ روز بروز بڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔اس سیارے کے موسمی حالات بھی ان کے لئے موافق نہیں ہیں۔ وقت وقت پر پڑنے والی سردی اورگرمی کا مقابلہ کرنے کے لئے طرح طرح کے مصنوی انتطامات کے با وجود یہ مختلف امراض کا شکار ہوجاتے ہیں جب کہ بارشیں اور برف باری بھی ان کی زندگی میں بے شمار مشکلات پیدا کردیتی ہیں ۔یہ اس سیارے کی واحد مخلوق ہے جسے رہنے کے لئے گھر تعمیر کرنا پڑتا ہے اور سونے کے لئے نرم و گداز بستروں وغیرہ کی

ضرورت پڑتی ہے جب کہ غذائی اجناس حاصل کرنے کے لئے کافی مشقت اور انہیں کھانے سے پہلے کئی مراحل سے گزارنا پڑتا ہے تب جاکے یہ ان کے نظام ہاضمہ کے موافق بن جاتے ہیں۔ان کے مقابلے میں یہاں موجود دوسرے جانداروں کو رہنے کے لئے نہ ہی گھر تعمیر کرنے پڑتے ہیںاور نہ ہی اپنی غذا حاصل کرنے کے لئے کوئی مشقت کرنی پڑتی ہے۔ وہ سب یہاں موجود قدرتی غذائوں کا جوں کا توں استعمال کرتے ہیں۔ یہ واحد مخلوق ہے جسے بیمار ہونے کے بعد دوبارہ صحت یاب ہونے کے لئے دوائیوں کی ضرورت پڑتی ہے جو انہوں نے خود ایجاد کئے ہیں ،لیکن یہاں موجود دیگر جانداروں کی وقتی اور عارضی بیماریاں بغیر کسی دوا کے خود بخود ٹھیک ہوجاتی ہیں۔علاوہ ازین اس مخلوق کو ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنے کے لئے مختلف قسم کے ذرائع کا استعمال کرنا پڑتا ہے ۔غرض اس سیارے کا ماحول یہاں موجود دوسرے جانداروں کے مقابلے میں اگر چہ ان کی زندگی گزارنے کے لئے کسی بھی طور موافق نہیں ہے ،لیکن یہ اپنی زندگی کو اپنی نازک مزاجی کے مطابق زیادہ سے زیادہ آرام دہ بنانے کے لئے دن رات سر گرداں رہتے ہیں ۔

’’کسی سیارے کے اصل باسیوں کو اتنے نا موافق حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے ،جیسے اس سیارے پر گزر بسر کر رہے دوسرے جاندار ! پھر یہ دو ٹانگوں والی ذہین اور طاقت ور مخلوق۔۔۔۔۔۔؟؟؟‘‘
’’ سر ۔۔۔۔۔۔ آپ اپنے آپ سے کیا با تیں کر رہے ہیں ‘‘۔
مسٹر ڈچ سوچوں میں غلطاں و پیچاں خود سے بڑ بڑا رہا تھا کہ دفعتاًماہی کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔
’’ارے ماہی۔۔۔۔ تم کب آئی ،کوئی خاص بات ؟‘‘
’’ یس سر ۔۔۔۔۔۔ آج میں نے ایک خاص بات یہ نوٹ کرلی کہ اس دو ٹانگوں والی مخلوق پر اکثر بلا وجہ اس طرح اُداسی طاری ہوتی ہے جیسے اپنے گھر سے ہزاروں میل دور کسی مسافر پر ہوتی ہے اور دوسری بات یہ کہ یہ مخلوق مختلف طریقوں سے کسی کی پوجا بھی کرتی ہے۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’ کیا کہا ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’ سر ۔۔۔۔۔۔‘‘۔

ماہی نے کچھ کہنا چاھا تو ڈچ نے اس کوہاتھ کے اشارے سے خاموش رہنے کو کہا، کیوں کہ دفعتاً مشن کے حوالے سے اس کے دماغ کی تاریخ سرنگ میں روشنی کے آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے اور کچھ دیر قلم سے سر کھجاتے ہوئے سوچوں کی بھول بھلیوں میں کھوئے رہنے کے بعدوہ مسرت بھرے لہجے میں گویا ہوا ۔
’’ ویری گڑ ماہی ۔۔۔۔۔۔ تم نے ایک بہت قیمتی راز کو جانا ہے جسے ہمیں مشن کی کامیابی میں بہت مدد ملے گی‘‘ ۔
’’ وہ کیسے سر ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’فی الحال تم اپنا کام کرو ۔۔۔۔۔۔ بعد میں سب بتا دوں گا ۔۔۔۔۔۔‘‘۔

ڈچ کی آنکھوں میں عجیب قسم کی چمک عود آئی ،اس نے ایک موٹی سی کتاب کھولی اور اسے پڑھنے میں منہمک ہوگیا ۔ دیر رات تک مطالعے میں غرق رہنے کے بعد وہی ٹیک لگا کر سوگیا اور صبح پو پھٹتے ہی روپ بدل کر مشاہدے کے لئے ایک بار پھر ، ماہی ،جو اس کی خاص معاون تھی کے ساتھ دھرتی کی سیر کو نکل گیا ۔انہوں نے مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کا بڑی گہرائی سے مشاہدہ کیا اور ان مذاہب کے پیرو کاروں سے بات بھی کی ۔کافی دیر تک دھرتی کی سیر کرنے کے بعد واپس اپنے ٹھکانے طرف لوٹ گئے ۔
’’ ماہی ۔۔۔۔۔۔ تمہیں لگتا ہے کہ اس سیارے کی یہ طاقت ور مخلوق اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ اور پر سکون بنانے کے لئے کافی ہاتھ پیر مار رہی ہے اور انہونے اس حوالے سے بہت سے معر کے بھی سر کئے ہیں ؟‘‘
دیر رات تک کام میں مصروف رہنے کے بعد ڈچ ماہی سے مخاطب ہوا۔
’’ یس سر ۔۔۔۔۔ میں اس بات سے بالکل متفق ہوں ،اس حوالے سے یہ آپس میں لڑنے اور ایک دوسرے کا خون بہانے سے بھی نہیں چوکتے ہیں ۔
’’کیا تم بتا سکتی ہو کہ ایسا کیوں ہے ؟‘‘
’’یہی تو ایک معمہ ہے سر۔۔۔۔۔۔ اوپر سے اب اس پردیس میں دل بھی نہیں لگتا‘‘ ۔
ہمت نہ ہارو ماہی۔۔۔۔۔۔ یہاں پردیسی صرف ہم ہی نہیں بلکہ ایک دوسری مخلوق بھی ہے ۔بہر حال تمہارے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ یہ معمہ حل ہو گیا ، ہمارا مشن کامیاب ہو گیا اور اب واپس اپنے سیاری پر لوٹنے کی تیاری کر لو‘‘ ۔
’’جو حکم سر ۔۔۔۔۔۔ لیکن کیا میں مشن کی کامیابی کے بارے میں جان سکتی ہوں ؟‘‘
ماہی نے فرط نشاط و انبساط میں جھومتے ہوئے کہا۔

’’ ہاں ۔۔۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔۔۔کیوں نہیں ،تمہیں ہی تو یہ رپورٹ فائینل کرنی ہے ۔یہ ہے ہمارے مشن کی عبوری رپورٹ‘‘۔
ڈچ نے ایک فائیل ماہی کی اور بڑھاتے ہوئے کہا اور وہ فائیل پڑھنے میں مصروف ہو گئی ۔۔۔۔۔۔ جس کا لب لباب کچھ اس طرح تھا ۔
’’تمام طرح کی گہری تحقیق کے بعد یہ ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ دو ٹانگوں پر چلنے والی آدم زاد نامی یہ مخلوق اس سیارے کی اصل نہیں بلکہ پردیسی مخلوق ہے کیوں کہ ٹھوس شواہد کے مطابق اس مخلوق کی تخلیق کسی اور، ہر سہولیت سے مزین نرم و نازک ماحول والے آرام دہ ، سیارے پر ہوئی ہے ،لیکن کسی غلطی کے سبب اپنی اس شاہکار تخلیق کو تخلیق کار،جو کوئی بہت ہی طاقت ور ہستی ہے اور جس کے تابع تمام سیارے بھی ہیں ،نے اس مخلوق کو اُس پر سکون سیارے سے نکال کر اس جیل نما سیارے پر پھینک دیا ہے تاکہ سزا کی زندگی گزار کر یہ واپس اپنے اصلی ٹھکانے پر آجائے۔جہاں کا ماحول ان کی نازک مزاجی کے عین مطابق ان کی زندگی گزارنے کے لئے موافق ہے اور جہاں بغیر کسی محنت اور مشقت کے عیش و عشرت کی ہر سہولیت میسر ہوگی ،لیکن ان میں سے زیادہ تر اپنے اصل ٹھکانے پر واپسی کو بھول کر اس کوئیلے کے بازار کے مانندسیارے پرہی عطر کے متلاثی دکھائی دیتے ہیںاور کبھی کبھی سکون کی تلاش میں بھٹکتے بھٹکتے ہمارے سیارے کا رخ کرتے ہیں ‘‘۔
٭٭٭
رابطہ؛ اجس بانڈی پورہ کشمیر
ای میل ؛[email protected]