پردہ۔فتنوں سے نجات کا ذریعہ! یہ حُسن اور عِفت کا محافظ ہوتا ہے

احمد الحبیب

پردہ عورتوں کی طبیعت کے خلاف نہیں کیونکہ عورت کے لئے حیا(شرم) طبعی امر ہے، لہٰذا پردہ طبیعت کے موافق ہوا، اور اس کو قید کہنا غلطی ہے۔ ان کی حیا شرم کا تقاضا یہی ہے کہ پردہ میں چھپی رہیں بلکہ اگر ان کو باہر پھر نے پر مجبور کیا جائے تو یہ خلاف طبیعت ہوگا ،اس کو قید کہنا چاہیے۔پردہ کا منشاءحیا ہے اور حیا عورت کے لئے طبعی امر ہے اور امرِ طبعی کے خلاف کسی کو مجبور کرنا باعث اذیت (تکلیف) ہے اور اذیت پہنچانا دلجوئی کے خلاف ہے پس عورتوں کو پردہ میں رکھنا ظلم نہیں بلکہ حقیقت میں دلجوئی ہے۔اطر کوئی عورت بجائے دلجوئی کے پردہ کو ظلم سمجھے تو وہ عورت نہیں۔ اس سے اس وقت کلام نہیں یہاں ان عورتوں کی بات ہو رہی ہے، جن عورتوں میں فطری حیا موجود ہے، بے حیاؤںکا ذکر نہیں۔افسوس ہم ایسےدور میں ہے جس میںفطری امور کو بھی دلائل سے ثابت کرنا پڑتا ہے۔
پردہ اول تو عورت کے لئے فطری امر ہے ،دوسرے عقلی مصالح کا تقاضا بھی یہی ہے کہ عورتوں کو پردہ میں رکھا جائے ۔مگر آجکل بعض ناعاقبت اندیش(انجام سے بے خبر)پردہ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ میں بقسم کہتا ہوں کہ آج جو عقلا ًپردہ کی مخالفت کرتے ہیں اور پردہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، ان خرابیوں کو دیکھ کربعد میںخود ہی یہ تجویز کریں گے کہ پردہ ضروری ہونا چاہیے ، مگر اُس وقت بات قابو سے نکل چکی ہو گی پھر پچھتا ئیں گے اور کچھ بھی نہ ہو سکے گا ۔
پردہ فطری شٔے ہے، غیرت مند حیا داراور طبیعت کا خود یہ تقاضا ہوتا ہے کہ عورتوں کو پردہ میں رکھا جائے۔ کو ئی غیرت مند آدمی اس کو گوارہ نہیں کر سکتا کہ اس کی ماں، بہن ،بیوی ، بیٹی کو تمام مخلوق کھلے منہ دیکھے۔یہ معلوم تھا کہ ایک دور میں طبیعتوں پر بہیمیت ( جانوروں کی صفت)غالب ہوگی ،جس سے حیا کم ہو جائے گی یا جاتی رہے گی، اس لئے اس کے متعلق احکام بیان فرما دئےہیں۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے : اے بنی آدم ہم نے تم پر لباس نازل کیا جو چھپاتا ہے تمہاری شرم کی چیزوں کو ۔ اس آیت میں یہ کہاگیا ہے کہ لباس ایسا ہونا چاہیے، جس سے ستر عورت ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے مرد عورت کے جسم کے کچھ حصوں کو عورت قرار دیا، یعنی وہ چھپانے کی چیز ہے، اس کو بلا ضرورت کھولنا جائز نہیں۔ چنانچہ عورت کا سارا جسم سوائے چہرے اور گٹوں تک ہاتھوںکے، سب کا سب عورت ہے اور اس کا چھپانا ضروری ہے ۔ لہٰذا خواتین کا لباس ایسا ہونا چاہیے جس سے مکمل ستر عورت ہو ،جو لباس اس مقصدکو پورا نہ کرےوہ لباس ہی نہیں۔ آج کل کثرت سے یہ جملہ سننے میں آتا ہے کہ’’ اس ظاہری لباس میں کیا رکھا ہے دل صاف ہونا چاہیے اور ہمارا دل صاف ہے اس لئے ہم جیسا چاہیے لباس پہن لیں کوئی حرج نہیں‘‘۔ خوب یاد رکھئے یہ شیطانی دھوکہ ہے ،دین کے احکام روح پر بھی ہیں اور جسم پر بھی ہیں ۔
بعض لوگ گھروں میں رکھنے کو قید کہتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ قید نہیں، باہر نکلنا حقیقت میں قید ہےکیونکہ قید کی حقیقت ہے مرضی کے خلاف مقید کرنا ۔پس قید تو تب ہوتا کہ وہ باہر نکلنا چاہیں اور تم ہاتھ پکڑ کر اند رلے جاؤ۔ اگر طبیعت سلیم ہوتو عورت کے لئے بے پردہ ہوکر باہر نکلنا موت ہے،پس بے پردگی قید ہوئی پردہ میں رہنا قید نہ ہوا۔ اگر خدا اور رسولؐ کا پردہ کے وجوب کا حکم بھی نہ ہوتا، تب بھی آخر غیرت بھی کوئی چیز ہے، مرد کو تو طبعاًغیرت آنی چاہیے کہ اس کی عورت کو کوئی دوسرا دیکھے، پھر واقعات مزید برآں علماء نے لکھا ہے کہ جوان داماد ،یا دودھ شریک بھائی سے بھی احتیاط کرنا چاہیے، بے حجاب سامنے نہ آنا چاہیے، اس کے متعلق واقعات ہوچکے ہیں۔
انسان کی اصل ترقی محض دولت کے حصول اور مادی اسباب کی فراہمی میں نہیں ہے بلکہ واقعی ترقی یہ ہے کہ انسان اپنی انسانیت کے تقاضوںکو پورا کرنے والابنے۔ اس میں شریفا نہ انسانی خصلتیں پیدا ہوں اور وہ اپنے مقصد ِتخلیق سے آگاہ ہوکر عزت کے ساتھ زندگی گزارے اور جانورں کی بہیمانہ حرکتوں سے باز رہے۔ اسلام کی نظر میں اصلی اور واقعی ترقی یہی ہے۔پردہ اس واقعی ترقی کے لئے رکاوٹ ہے یااس کے لئے مددگار ؟ پردہ سے شرافت کا معیار بلند ہوتا ہے ،انسان کو انسانیت کا سبق ملتاہے،وہ بدکاریوں کی نجاستوں سے محفوظ رہتا ہے۔ یہ پردہ نہ جانے کتنے فتنوں سے نجات کا ذریعہ اور امن وعافیت کا بہترین وسیلہ ہے جبکہ بے پردگی سے انسان کا جو ہرِ انسانیت یعنی جذبہ شرم وحیاداغدار ہوجاتاہے ، جانوروں کی سی خصلتیں اس میں پیدا ہوجاتی ہیں ، گھر گھر فتنے کھڑے ہوتے ہیں،خاندانوں میں جھگڑے ہوجاتے ہیں اور انسانی نسلیں غیر محفوظ اور رشتے غیر معتبر ہو جاتے ہیں۔
پردہ سے عورتوں کی حق تلفی ہر گز نہیں ہوتی بلکہ یہ عوت کی حق تلفی سے بچاؤ کے لئے بہترین ڈھال ہے۔جس معاشرہ میں پردہ کا رواج ہوگا وہاں عورتوں پر دست درازی اور ان کے ساتھ ظلم وتشدد کی شرح یقینی طورپر نہایت معمولی ہوگی۔ دراصل عورت کے حق کو تلف کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے محض اپنی مطلب بر آئی کے لئے عورت کو دنیا کی چمک دمک کا لالچ دے کر اسے گوشہ عافیت سے نکال کر دنیا کے حقیر بکاؤ مال میں تبدیل کر دیا۔ اسلام نے تو عورت پر کما ئی کابوجھ بھی نہیں رکھا بلکہ اس کے شوہر یا دیگر رشتہ داروں کو اس کی کفالت کا ذمہ دار بنایا ہے ،تاکہ صنف نازک کو کسی مشقت کا تحمل نہ کرنا پڑے اور وہ عافیت کے ساتھ اپنی گھریلوں ذمہ داریاں انجام دیتی رہے۔ جو لوگ پردہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ،وہ عورتوں کے خیر خواہ نہیں بلکہ ان کے سخت دشمن اور بد خواہ ہیں ۔اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق دے۔
رابطہ۔9086780905
<[email protected]>