ٹریجریوں میں بلیں جمع کرنے کی تاریخ پر تنازعہ ٹھیکیدار و سپلائر برہم،آخری تاریخ میں توسیع کا مطالبہ

appeal appellate court reverse or affirm outcome from lawsuit

 بلال فرقانی

سرینگر// محکمہ خزانہ کی جانب سے مالی سال2022-23کیلئے بلوں کو ٹریجریوں میں29مارچ دوپہر تک جمع کرنے کے حکم نامہ کو’ تغلقی فرمان‘ قرار دیتے ہوئے ٹھیکیداروں،سپلائروں اور دیگر متعلقین نے اس فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا۔ محکمہ خزانہ کے اکاونٹس اینڈ ٹریجری نے رواں سال کی بلوں کو سرکاری ٹریجریوں میں جمع کرنے کیلئے29مارچ دن کے ایک بجے تک مقرر کیا تھا،جس کے بعد ان بلوں کو ٹریجریوں میں جمع نہ کرنے کی ہدایت دی تھی۔ ڈائریکٹر جنرل اکاونٹس اینڈ ٹریجریز مہیش داس نے اس سلسلے میں23مارچ کو ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا’’ مالی سال2022-23کیلئے خزانے میں واگزاری (بلوں کی)کے دعووں کی وصولی کی آخری تاریخ29مارچ دن کے ایک بجے تک مقرر کی گئی ہے جبکہ سیول سیکریٹریٹ اور جموں ضلع کی ٹریجریاں سرکاری کام کاج کیلئے29مارچ کو کھلی رہیں گی‘‘۔آرڈر میں مزید کہا گیا تھا کہ ٹریجری افسراں 29مارچ کو ایک بجے کے بعد رقومات کی واگزاری کیلئے کس بھی دعوے یا بلوں کو وصول نہیں کریں گے،اور متعلقہ ڈائریکٹوریٹ میں4بجے تک واجب الادا بلوں کو جمع کریں گے‘‘۔ تعمیراتی ٹھیکیداروں نے اس حکم نامہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وقت کی کمی کی وجہ سے ان کی رواں مالی سال کی کروڑوں روپے کی بلیں واجب الادا رہی۔

 

سینٹرل کانٹریکٹرس کارڈی نیشن کمیٹی کے جنرل سیکریٹری فاروق احمد ڈار نے اکونٹس اینڈ ٹریجریز کے اس حکم نامہ کو تغلقی فرمان قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ روایت سے ہٹ کر ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں ان بلوں کو31مارچ شام12بجے تک وصول کیا جاتا تھا،جس کے نتیجے میں بہت کم بلیں آیندہ مالی سال کیلئے التواء میں رہتی تھی۔ انہوں نے مزید کہا’’ اکونٹس اینڈ ٹریجریز نے اگر چہ 29مارچ دن کے ایک بجے تک بلیں وصول کرنے کی ہدایت دی تھی تاہم بدھ کو ٹریجری افسراں نے11بجکر30منٹ سے ہی بلیں لینے سے انکار کیا اور ایپ بھی بند کی گئی،جس کے نتیجے میں سینکڑوں تعمیراتی ٹھیکیداروں کی کروڑوں بلیں التواء میں رہ گئی‘‘۔ ڈار نے کہا کہ اس عمل سے دوہرا نقصان ہوتا ہے،ایک طرف جہاں ٹھیکیداروں کی بلیں واگزار نہیں ہوتی ہیں اور انہیں آئندہ مالی سال کی فہرست میں ڈالا جاتا ہے وہی دوسری جانب تعمیراتی محکموں کا بجٹ بھی کم ہوتا ہے‘‘۔ انکا کہنا تھا کہ یہ تکنیکی معاملہ ہے اور انتظامیہ کو یہ سمجھ لینا چاہے کہ اس سے جموں کشمیر میں تعمیر و ترقی کی رفتار متاثر ہوگی۔انکا کہنا تھا کہ اس عمل سے20سے25 فیصد رقومات لیپس ہونے کا امکان ہے۔ ڈار نے سرکار سے مطالبہ کیا کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے اور31مارچ تک بلوں کو جمع کرنے کا حکم نامہ جاری کیا جانا چاہے۔ اس دوران سرکاری محکموں کو مختلف اشیاء سپلائی کرنے والے سپلائروں نے بھی اسی طرح کی روداد بیان کی۔ چاڈورہ سے مشتاق احمد نامی ایک سپلائر نے بتایا کہ کچھ منٹوں کی تاخیر کی وجہ سے اس کی40لاکھ روپے کی بل التوا میں پڑ گئی۔اننت ناگ سے تعلق رکھنے والے محمد اقبال نامی سپلائر نے بھی کہا کہ انکو معلوم ہی نہیں تھا کہ29مارچ کو دن کے ایک بجے تک ہی بل کو جمع کرنے کی آخری تاریخ ہے اور اس کو بل جمع کرنے میں تاخیر ہوئی،جس کے نتیجے میں اس کی بل التواء میں رہ گئی۔