وہ ۔جس کا میں نہ ہوسکا فکر و فہم

حمیرا فاروق
زندگی میں بہت ساری ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو ہمیں لاحاصل رہتی ہے اور انسان جب حقیقت کی تہہ تک جاتا ہے کہ کون سی چیز اس کے لیے اہم تھی، تب جا کر بہت افسوس اور پشیمانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ انسان زندگی میں اس چیز کو گنواں بیٹھتا ہے، جس پر اس کی زندگی کا سارا انحصار ہوتا ہے، بغیر اس کے انسان کا کوئی وجود نہیں۔ اس کے وجود کے سامنے سارے وجود ہیچ ہیں ۔ان مراحل سے گزرنے کے لیے انسان کو غور و خوض ا ور فکر و تدبر کی ضرورت ہوتی ہے، پھر جا کر انسان کو اصل چیز سمجھ میں آتی ہے جو واقعی اس کے لیے معنی رکھتی ہے ۔اگر دیکھا جائے کوئی انسان ہمیں زندگی میں ایک معمولی سا احسان کرتا ہے تو ہم اس کے سامنے عاجز رہ کر اس کی کسی بھی بات کو ٹال نہیں پاتے ،برعکس اسے کہ ہم تاعمر اسے احسان مند ،اور اسکو راضی کرنے کے لیے بےجان کوشاں کرتے ہیں۔ وہ ہمیں کوئی بھی مشکل سے مشکل ہی کام کیوں نہ دے، ہم ساری فکر اسی میں لگا دیتے ہیں کہ کہیں اس کام میں نقص نہ نکلے اور اس میں کوئی کوتاہی نہ ہو جائے ۔ در اصل یہ انسان کی ایک سب سے بڑی نادانی ہے جو خالق کو چھوڑ کر مخلوق کو راضی کرنے میں لگ جاتا ہے ۔ لیکن اگر اسی بات کو لے کر ہم حقیقت کی طرف جائیں اور جان لیں کہ کس طرح ہم اس عظیم الشان ہستی خالق ِدو جہاں، مالک یگانہ کے احسان فراموش ہیں۔جس نے دنیا کی تخلیق اس طرح کی کہ اس میں کوئی عدمِ تناسب نہ رکھا، انسان بارہاکوشاںرہے کہ ربّ کی تخلیق میں بےترتیبی دیکھنے کی، لیکن ناکام و نامراد رہ جائے گا ۔ خود انسان کے وجود کو ہی دیکھ لیں کہ کس طرح مالک نے پانی کے بوند سے بنا کر ہر ایک چیز کو بنا حساب کتاب ہمارے اندر رکھی اور کتنی نعمتیں ایسی ہیں جن کا اندازہ وہی انسان لگا سکتا ہے، جس کو اس کی عدم موجودگی ہے اور اس کے لیے اپنا پیسہ مکان غرض سب کچھ خرید و فروخت کرکے صرف ایک نعمت کے لئے تڑپ رہا ہوتا ہے کہ یہ مجھے کسی نہ کسی طریقے سے مل جائے تاکہ وہ زندگی میں کم سے کم سانس تو لےسکے۔ لیکن اللہ تعالی نے ہمارے اندر یہ سب چیزیں مفت میں اور بے حساب ر کھ لی ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اتنی عطاؤں کے باوجود بھی ہم اس ذات کے احساں فراموش ہیں۔ لیل و نہار کی نافرمانیاں اوردنیاوی اغراض اور نفس پرستی کی خاطر لوگوں کے خوبصورت جسموں ،شہرت اور دولت کے عاشق ہوکر مجازی خداؤں کی اتباع کرتے کرتے اُس اللہ کو بھول جاتےہیں اورجسکا ہونا تھا اُس سے دور رہتے ہیں۔وہ جس کے ہونے سے انسان کا وقارو مآب اور جسکی محبت کا کوئی نعم البدل نہیں ۔ برعکس اسکے کہ ہم ان چیزوں کی محبت دل میں بٹھا لیتے ہیں جن کو آخرکار پیوند خاک ہونا ہے ۔ہم مالکِ حقیقی کو دل میں جگہ دینے سے قاصر رہے، جس کا نتیجہ ذلت و رسوائی کے ماسوا کچھ نہیں ۔یہ انسان کو تب پتہ چل جاتا ہے ،جب انسان اپنی خودی پہ غور و خوض کرتا ہے، تب اس کو اِس بات کا علم ہو جاتا ہے اور جب دنیا کے ہر دَرسے انسان ٹھوکر کھا کھا کر، لوگوں کے
جھوٹ ،فریب دھوکہ دہی، بے وفائی کو زندگی میں پا لیتے ہیں، تب اس ذات کو انسان یاد کرتا ہے جس کے بغیر اس کا کوئی طبیب کامل نہیں جو اُس کے اِس مرضِ انتہا کا علاج کرے۔ وہ ہزاروں گناہ ہونے کے باوجود بھی انسان کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کرتا ہے، بندہ چل کے جاتا ہے اور وہ ذات اس کے پاس دوڑ کے آتی ہے۔ پس اگر انسان دانا ہوگا تو واقعی اسکے لیے یہ نصیحت آموز باب ہے ۔ خود کے لیے سفّاک بننا اور خلفشا رکو چھوڑ دینا واقعی ایک جہاد ہے ۔ موقع ہنوز ہے، ذرا سوچئے بس یہ حروف لیکر آپکی زندگی بدل جائے گی ’’ وہ جس کا میں نہ ہو سکا ۔‘‘
[email protected]
���������������