وہ کون تھا افسانہ

پروفیسر محمد اسداللہ وانی

ایک صبح گرمی کے باوجود موسم کچھ سہانا سا لگ رہا تھا۔گھر کے روز مرہ کام سے فارغ ہوکرمیںنے میز پر پڑے موبائل کو اٹھا کر جوں ہیunlock کیا تومیرے ہاتھ کی شہادت کی انگلی غیر ارادی طور پر فیس بک پر جا اٹکی اورایک ہلکی سی جنبش سے چشم زدن میں ایک حیرت زادُنیا میر ی آنکھوں کے سامنے دست بستہ آ موجود ہوئی ۔میں نے فیس بک پر اوپر سے نیچے تک اچٹتی ہوئی ایک نظر ڈالی تو میری نگاہیں You Know A Manکی پروفائل پرمرکوز ہوکر رہ گئیں۔میری انگلی ایک نفیس وضع وقطع کے وجیہ،پرکشش اورپُر وقار فوٹو پر جا کر رکی جس کے بعد میر ے کزن کا نام بھی تھا ۔میں نے اپنے کزن کو فرینڈ رکویسٹ بھیجنا چاہی مگر بٹن کزن سے پہلے یعنی اوپروالے کے نام کا دب گیا۔ بے خیالی میں فرینڈ رکویسٹ بھیجنے پرمجھے اپنی غلطی کا ہلکا سا احسا س ہوا تو دل کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ’ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، یہ شخص میری فرینڈ رکویسٹ کو کب confirmکر رہاہے؟۔چنانچہ میں نے اس خیال کو اپنے دماغ سے نکال دیا اور دوستوں کے ساتھchatکرنے بیٹھ گئی۔کچھ دیر دوستوں سے بات چیت کرنے کے بعد میںموبائل lock کر کے حسب ِ معمول پھر اپنے گھر کے کام کاج میں مصروف ہوگئی۔ کام میں مصروف رہنے کے باوجوداس شخص کیFigure میرے ذہن کے نہاں خانوں میںمسلسل ایسے رقص کرتی رہی کہ لاکھ کوشش کے باوجودمیں اپنے آپ کو اس سے آزاد نہ کراسکی ۔میں نے موبائل unlock کر کئی با ر اس شخص کی تصویر دیکھی ، اس لیے بھی کہ کہیں اُس نے میرانام کنفرم تو نہیں کردیا ہے۔بار بار تصویر دیکھنے کے بعد مجھ پر یہ بات تو عیاں ہوگئی کہ وہ متوسط عمر کا ایک خوب رو ، پر کشش اورجہاں دیدہ شخص تھا۔اس کی آنکھیں اورچہرہ اس کی ذہانت کی چغلی کھاتی تھیںاور یہ بھی کہ اپنے شباب میںنہ جانے کتنے خوب رواُس کے والہ وشیدا رہے ہوں گے۔
رات کے کھانے کے بعد جب میںسونے کے لیے اپنے بیڈ روم میں گئی تو حسبِ معمول دوستوں کے ساتھchat کے لیے موبائل کھولا ہی تھا کہ میری نگاہیں ایک بار پھراُس نفیس وضع وقطع کے وجیہ اورپرکشش شخص کے فوٹو سے جاٹکرائیں۔کیا دیکھتی ہوں کہ اُس نے نہ صرف میری فرینڈ رکویسٹ کو کنفرم کیا تھا بلکہ آداب وسلام اور Welcome to fb friendship کے ساتھ ہی Introdue yourself please جیسے شائستہ اور انوکھے جملوں کے ساتھ میرا استقبال بھی کیا تھا ۔
میری فرینڈ رکویسٹ قبول کرنے والے اُس نئے دوست کے ساتھ میری بات چیت نے آغاز سے ہی ایک ایسا انوکھارخ اختیار کیا جو میرے لیے بلا شبہ ایک حیرت انگیز تجربے سے کم نہ تھا لیکن تھا یہ ایک خوشگوار مسرت کا باعث ۔علیک سلیک کے بعد اُس نے مجھ سے میری عمر ،تعلیم ،مصروفیات،گھر کے افراداور سلسلۂ روزگار سے متعلق کئی سوالات کئے ۔ والدین کے استفسار پرجب والد کا ذکر ہواتومیں نے چند ثانیے توقف کیا۔ اُس نے خاموشی توڑنے اورمیری ہمت بندھانے کے لیے لکھا ’’ہاں کہو والد محترم کیا کرتے ہیں ؟‘‘
’میں نے اپنے والد کو نہیں دیکھا ہے،میں چار برس کی تھی جب اُن کا انتقال ہواتھا ‘‘میں نے تھرتھراتے ہاتھوں سے انتہائی نقاہت میں اس سوال کا جواب لکھا ۔
’’ اچھا تو تمہاری خاموشی کی یہ وجہ تھی،کوئی بات نہیں ،تم اگر برا نہ مانوتوآج سے تم مجھے اپنے باپ کی طرح سمجھ سکتی ہو‘‘
یہ جملہ پڑھ کر میںنے اپنے دل میں محبت کا ایک پرجوش دریا ٹھاٹھیں مارتے ہوئے محسوس کیا ۔اُس شخص کا فیس بک کا یہ انداز میرے لیے بالکل نرالا اور قطعی جدا گانہ تھا ۔ میرے اور اس شخص کے درمیا ن اپنائیت کے رشتوں سے بھر پور ایک نئی دُنیا وجود میں آرہی تھی ، ایک ایسی دُنیا جو میرے تصور سے بھی بالاتر تھی۔ میرے اور اُس کے درمیان رات گئے تک مختلف موضوعات پر کافی بات چیت ہوئی جوفیس بک کے عام موضوعات اوراس قبیل کے دوسرے معاملات سے ماورا تھی۔
اُس کے ایک سوال ’’مجھے فرینڈ رکویسٹ کیوں بھیجی ‘‘؟ نے مجھے کسی حدتک بے بس اورلا جواب سا کر دیالیکن میں نے پھر بھی اس کایہ جواب لکھا ’’ بے خیالی میں میری اُنگلی آپ کے نام سے ٹچ ہو گئی ‘ ‘۔
’’بے خیالی میں ہی سہی مگرتم سے بہت ہی خوبصورت حرکت سرزد ہوئی ہے جس کے صلے میں مجھے بیٹی مل گئی‘‘ اُس نے جواباً لکھا۔ اُس کا یہ جواب پڑھ کر میں بچپن کی حسین اور معصوم بھول بھلیوں میںایسے کھو گئی کہ chatting کرتے کرتے نہ جانے کب نیند کی آغوش میںچلی گئی ۔میں نے اپنے آپ کو ہر سو تا حدِ نظر سلسلہ در سلسلہ ایسی سرسبزاور شاداب وادیوںمیں پایاجن کے حسین وجمیل مناظر سے سبھی مرد وزن بچے ،بوڑھے اور جوان لطف اندوزہو رہے تھے ۔ میرے لیے یہاں کاہرسیلانی اگرچہ اجنبی تھا مگرمجھے اُن کے ہر رویئے اور وطیرے سے محسوس ہوتا تھا کہ یہاں کا ہر شخص ایک دوسرے کے لیے اپنائیت کے جذبات سے سرشار تھا۔ میں نے اپنے ارد گرد کا جائزہ لیا اور قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتی ہوئی آگے ہی آگے کی طرف چلتی گئی،یہاں تک کہ میں نے دور سے ایک حسین وجمیل ، دل ربا سے شخص کو بڑی متانت اورسنجیدگی کے ساتھ اپنی جانب آتے دیکھاجو انتہائی وقار اور طمانیت کے ساتھ میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا ۔ ’’یہ تونیا فیس بک فرینڈ ہے ‘‘ میں نے دل ہی دل میں کہااورمحسوس بھی کیا کہ میر ے دل میںاس کے لیے شدّت کے ساتھ اپنائیت کا ایک ایسا لطیف اورمیٹھا سا جذبہ پیدا ہوگیا ہے جوشاید باپ اور بیٹی کے رشتے کا غمازتھا۔ جب تک وہ میرے سامنے کھڑا رہا میرے دل کی دھڑکنیںنہ صرف تیز ہوگئیں بلکہ سانس کی آمد ورفت بھی بے ترتیب ہوگئی۔ مجھے لگا کہ وہ میرے روم روم میںسماگیا ہے ۔میں نے دل کی گہرائیوں سے اسے باپ کا رتبہ دینے کا فیصلہ کیا ۔چنانچہ ا پنے وجود پر قابو پاتے ہوئے احساسِ تشکرکے طور پرجوں ہی میں نے اُس سے مخاطب ہونا چاہا ،موبائل کے الارم نے مجھے جگا دیا۔میں نے دیکھا میرا موبائل میرے سرہانے کے قریب ہی پڑا تھا اور میرا ہاتھ اُس پر جیسے منجمد ہوکر رہ گیا تھا ۔
میں بسترسے تو اُٹھی لیکن خواب کے حصارسے باہر نہ نکل سکی۔حوائج ِضروری سے فارغ ہوکرfresh ہوئی مگردل ودماغ پرمکمل طور پروہی شخص چھایا ہواتھا۔میں نے جلدی جلدی ناشتہ تیار کیا اورساتھ ہی گھر کے دوسرے کام کاج بھی نپٹا لئے تاکہ اطمینان کے ساتھ نئے فیس بک فرینڈ سےchat کرسکوں۔
میں اپنے کمرے میں گئی، گائوتکیے سے ٹیک لگا کر موبائل ہاتھ میں لیااورفیس بک پر مطلوبہ شخص کو سرچ کرنے لگی ۔کافی دیر تلاش کرنے کے بعد فیس بک سے نہ صرف مطلوبہ شخص کا نام غائب ملابلکہ ہمارے مابین رات کوہوئی بات چیت بھیdelete ہو چکی تھی ۔
وہ کون تھا؟فیس بک پراُس شفیق اورمہربان شخص کا نام نہ پا کر میرا دل و دماغ مائوف ہو گیا اورمجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میری زندگی کی کشتی حیرت وحسرت کے گہرے ساگرمیں ہچکولے کھا رہی ہو۔
���
جموں، موبائل نمبر؛9419194261