وجود زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں، اخلاقی تعلیمات اور ہمارا معاشرہ

شگفتہ حسن
معاشرت اور اخلاقیات دین ِ اسلام کی بنیادیں ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں اخلاقیات کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے کیونکہ انسانی اخلاقیات پر ہی پُر سکون معاشرے کا انحصار ہے۔ پُر سکون معاشرہ بنانے اور سنوارنے میں اخلاق کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ اخلاق دنیا کے ہر معاشرے کا مشترکہ باب ہے کیونکہ اچھے اخلاق و کردار کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، اس سے قومیں بنتی ہیں اور بگڑتی بھی ہیں۔ اخلاق کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، خواہ وہ معاشرہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ ابنِ خلدون کی کتاب” مقدمہ” میں درج ہے کہ” دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے جب کہ بُرے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیر ہو جاتی ہے۔” اخلاق انسانیت کا زیور ہے ، یہ وہ وصف ہے جو انسان کو جانوروں سے الگ کرتا ہے۔ اگر اخلاق نہیں تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں انسان کو صحیح راستے چلانے کے ، اس کی ہدایت، رہنمائی اور اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے انبیائے کرام بھیجے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم انسانیت کو اخلاقیت کا وہ اعلیٰ نمونہ پیش کیا جسکی گواہی باری تعالیٰ نے قرآن مجید میں دی  ہے۔ ایک جگہ خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اخلاقیت کی گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں:’’مجھے تو اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ میں نیک خصلتوں اور مَکارِمِ اَخلاق کی تکمیل کروں‘‘۔(بخاری) لیکن آج ہمارے معاشرے کی حالت قابلِ رحم ہے۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت دین سے بے خبر ہے۔ آج کا مسلمان دنیا پر مر رہا ہےاورآج کا بچہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود دین سے غافل ہے۔ افسوس ! ہم دین سے غافل ہیںاور اخلاق کیا ہے، ایمان کیا ہے، حیا کیا ہے، عزت کیاہےاور انصاف کیا ہے، ہم بھول چکے ہیں۔گویا آج کے مسلمان بس نام کے مسلمان رہ گئےاور مسلمان کی حیثیت سے زندہ نہیں ہیں۔ہم اپنے مذہب کے ساتھ ساتھ تہذیب و ثقافت کو بھی بھول گئے ہیں، ہم اخلاقی، اسلامی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی زوال کا شکار ہوگئے ہیں۔ غفلت میں مگن رہنے کا ہی نتیجہ ہےکہ مسلم معاشروں میں اخلاقی زوال، بے حیائی، اخلاقی برائی اور سماجی برائی جیسی خرابیاں تسلسل کے ساتھ بڑھ رہی ہیںاور وائرس کی طرح پھیل کر ہماری نوجوان نسل کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔بقول اقبالؔ :’’ یہ مسلمان ہیں! جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود‘‘۔ آج مسلم معاشرے کا حال اتنا خراب ہو چکا ہے کہ ہم ایک دوسرے کا حق مارنے کے لئے ایمان کا بھی سودا کر دیتے ہیں۔ جو تڑپ، جو درد، بے چینی، اور بے قراری ربّ کائنات کی بندگی کے لئے ہونی چاہیے تھی، وہ مادیت کے لئے ہو رہی ہے۔ ہماری تربیت اس طرح نہیں ہوئی ہے کہ ہم ایک وقت کی نماز چھوٹ جانے پر تڑپ اُٹھے، ہم تو مہینوں سے نمازیں چھوڑ رہے ہیں۔ ہم صبح سویرے اٹھنے کے بجائے گیارہ، بارہ بجے اٹھتے ہیں، والدین، بھائی بہن، بیوی بچوں کو وقت دینے کے بجائے موبائل فون کے ساتھ مشغول رہتے ہیں، نوجوان مسجد اور مدرسے کے بجائے پارکوں اور ریسٹورنٹوں میں بیکار گھومتے رہتے ہیں، لڑکیاں بن سنور کر بے پردہ پارکوں اور بازاروں میں گھومتی پھرتی ہیں، سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے سے ناجائز رشتے جوڑنے لگے ہیں، زندگی کے مسائل میں اُلجھے ہوئے لوگ ذکر الٰہی کرنے کے بجائے میوزک (Music)  سن کر محظوظ ہورہے ہیں۔ افسوس، آج اولاد کی صحیح تربیت نہ ہونے کے باعث ہمارا مسلم معاشرہ غیر مسلم معاشرے کا نظارہ پیش کرتا ہے، کبھی فلمیں بنا کر، کبھی ڈراما بنا کر،کبھی ریلس بنا (Reels) بنا کر تو کبھی ٹک ٹاک (Tiktok) بنا کر۔ آج کے نوجوان مکتب جانے کے بجائے جیم سینٹر جانا ضروری سمجھتے ہیں۔ افسوس صد افسوس ! یہ سب کچھ آج کےہمارے معاشرے کی پہچان بنتی جا رہی ہے۔ منشیات کی لت ناسور کی طرح دن بہ دن پروان چڑھ رہی ہے۔ دلوں میں سکون غائب ہےاور ہم ڈپریشن (Depression) کے شکار ہو چکے ہیں۔ معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گی ساری مصیبتوں اور پریشانیوں کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ نسل نو کے لئےالمیہ یہ ہے کہ والدین اپنی آخرت کو سنوارنے کے بجائے دنیا سنوارنے کی فکر میں لگے ہیں ۔ آج کا مسلمان اپنے آپ پر غور کریں کہ کیا وہ با اخلاق اور با تہذیب معاشرے کے باسی کہلائے جانے کے قابل ہے؟
لمحۂ فکریہ ہے ہم سب کے لئے  ہےکہ ہم خود اپنی نسلوں کے دشمن خود بنے بیٹھے ہیں۔ دنیا کی سب سے بہترین اور خوبصورت اسلامی تہذیب کو پامال کرنے میں ہم ہی سب سے آگے ہیں۔ اب بھی وقت ہے اپنے معاشرے اور اخلاقیات کو سنوارنے کی فکر کریں، سوشل میڈیا کے مقابلے میں اپنے گھر والوں کو قرآن و حدیث کو مضبوطی سے پکڑ نے کو ترجیح دیں، آخرت کو سنوارنے کی فکر کریں، عملِ صالح سے اپنے ایمان کو مضبوط کریں، اپنے بچوں کی تربیت دین ِاسلام کے مطابق کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یقیناً اللہ بدلتا نہیں اس حالت کو جو کسی قوم کے ساتھ ہے یہاں تک کہ وہ خود نہ بدلیں‘‘( سورۃ الرعد :۱۱)
والدین کے ساتھ ساتھ میں اساتذہ سے بھی گذارش کرتی ہوں کہ تعلیمی امور کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ انکی اخلاقی اور روحانی تربیت بھی کی جائے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں مَکارِمِ اَخلاق سے مزین و آراستہ ہونے اور ہماری آنے والی نسلوں کو دین ِ اسلام پر چلنے اور عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین