والدین سے حُسن سلوک میں فلاح پنہاں! فکر و فہم

سلطان محمد فتح

 

اسلام کے عائلی نظام اور معاشرتی زندگی میں خاندان کو بنیادی اکائی قرار دیتے ہوئے اسے بنیادی اہمیت اور کلیدی مقام دیا گیا ہے۔ خاندان کا ایک مظہر والدین کا وجود ہے، اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ ماں باپ جو کہ مہرووفا،خلوص وایثار، محبت و مودّت، شفقت و رحمت کا مظہر ہیں، کوئی بھی معاشرہ ان کے بغیر تشکیل نہیں پاسکتا۔ یہ معاشرے کی اساس اور اس کی بقاء کی علامت ہیں۔ یہ معاشرتی زندگی کا بہترین مظہر اور خالقِ کائنات کی تخلیق کا بہترین عکس ہیں۔عورت اور مرد کا سب سے اچھا روپ ماں اور باپ کا ہے، یہ روپ خالق کائنات کی رحمت اور اس کے حسنِ انتظام کا عکس ہے۔ معاشرتی زندگی میں اوّلین چیز ایثار و محبت ہے اور کوئی بھی معاشرہ ایثار کے بغیر مکمل نہیں کہلا سکتا۔ والدین ایثار و محبت، شفقت و رحمت، حسنِ تعلیم و تربیت کا کامل نمونہ ہیں۔

 

 

اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تاریخ انسانی کے ہر دور، ہر عہد اور ہر زمانے کے معاشرے میں خواہ وہ مذہبی ہوں یا غیر مذہبی’’والدین‘‘ کی عظمت اور ان کی عظیم حیثیت ہمیشہ مسلّم رہی ہے۔ اس امر میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ خالقِ کائنات کے بعد اس کائنات میں کلیدی اور مرکزی حیثیت والدین کو حاصل ہے۔ اس لیے کہ انسانوں کے درمیان الفت و محبت، پیار و ایثار اور رشتوںکی بنیاد یہی ہے اور اللہ عزّوجل کی صفتِ رحمت اور حسنِ انتظام کا پرتو بھی یہی ہے۔

 

 

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ترجمہ ’’اور تیرے رب نے حکم کر دیا کہ بجزو (اللہ) اس کے کسی کی عبادت مت کرو، اور تم اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں کبھی ’’اُف‘‘ بھی مت کہنا اور نہ ہی انہیں جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے پروردگار، ان دونوں پر رحمت فرما، جیسے انہوں نے مجھے بچپن میں پالا، پرورش کیا۔‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل24,23)امام ابو بکر الانباریؒ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:’’یہاں مراد کوئی عام حکم نہیں ہے، بلکہ یہ حکم اور فرضیت کے معنیٰ میں ہے، لیکن قرآن میں اس کے لیے ’’قضیٰ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کے لغوی معنیٰ ہیں کسی معاملے کے متعلق حتمی فیصلہ کرنا اور ’’وبالوالدین احسانا‘‘کا مفہوم یہ ہے کہ ان کے ساتھ نیکی، احترام اور حسنِ سلوک کا رویہ اپنایا جائے۔‘‘اس ضمن میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا قول ہے کہ والدین کے سامنے اپنا کپڑا بھی مت جھاڑو کہ کہیں ان تک اس کی گردو غبار نہ پہنچ جائے جو ان کے لیے اذیت اور بے اکرامی کا باعث ہو۔ (بحوالہ۔ ابن الجوزی/برّالوالدین)

 

 

’’سورۂ بنی اسرائیل‘‘ کی مذکورہ آیت کے حوالے سے حضرت حسنؓ کا قول ہے کہ اگر ’’اُف‘‘ کے نیچے بھی کوئی درجہ ماں باپ کے لیے تکلیف اور اذیت کا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی حرام قرار دے دیتے۔‘‘(تفسیر در منثور)ایک مقام پر فرمایا گیا:’’ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔‘‘(سورۃ الاحقاف؍15)
الہامی مذاہب کی تمام مقدس کتابوں اور تمام آسمانی صحیفوں میں ایسی ہی تعلیمات ملتی ہیں۔ چناں چہ عہد نامہ عتیق کے باب خروج میں یہ تحریر ہے:’’تو اپنے ماں باپ کو عزت دے، تاکہ تیری عمر اس زمین پر جو خداوند تیرا خدا تجھے دیتا ہے، دراز ہو۔‘‘(بائیبل،خروج؍20)
اسلامی تعلیمات میں والدین کی اطاعت و فرماں برداری، ان کی خدمت اور ان سے حسنِ سلوک کی سخت تاکید ملتی ہے۔ حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے محسن انسانیت سرور کائنات، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اولاد پر والدین کا کیا حق ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا، وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں۔ (سنن ابن ماجہ)یعنی تم ان کی خدمت و اطاعت، ان سے حسنِ سلوک اور ان کی رضا و فرماں برداری کی بدولت جنت حاصل کر سکتے ہو اور ان سے بدسلوکی، ایذارسانی، ان کی حکم عدولی، ناراضی اور نافرمانی تمہیں جنت سے جہنم میں لے جانے کا سبب بنے گی۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہوئی(وہ ذلیل و رُسوا، ناکام و نامراد ہوا) اس کی ناک خاک آلود ہوئی، اس کی ناک خاک آلود ہوئی، عرض کیا گیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس کی؟آپؐ نے ارشاد فرمایا، جس نے اپنے ماں باپ میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پایا (اور) ان کی خدمت کر کے پھر جنت میں داخل نہ ہوا۔‘‘ (مسلم، ابواب البرّو الصلۃ)۔حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے اپنے والدین کو راضی کر لیا، اس نے یقیناً اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیا اور جس نے اپنے والدین کو ناراض کیا، اس نے یقیناً اللہ کو ناراض کیا۔‘‘

 

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:’’جتنے بھی گناہ ہیں۔ ان میں سے اللہ تعالیٰ جس کی چاہے سزا کو قیامت تک مؤخر فرما دے، لیکن والدین کی نافرمانی کی سزا اللہ تعالیٰ موخر نہیں فرماتا، بلکہ والدین کے نافرمان کو اللہ دنیا ہی میں جلد سزا سے دوچار فرماتا ہے۔‘‘(بحوالہ ابن الجوزی؍ برّالوالدین)

 

امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں ہوں، وہیں میں نے تلاوت قرآن کی آواز سنی۔ میں نے دریافت کیا کہ اللہ کا یہ بندہ کون ہے؟ جو جنت میں قرآن کریم کی تلاوت کر رہا ہے۔ تو مجھے بتایا گیا کہ یہ حارثہ بن نعمان ہیں۔ ماں باپ کی خدمت و اطاعت شعاری ایسی ہی چیز ہے۔ سرکار دوعالم حضرت محمد مصطفیٰؐ نے اپنا خواب بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ حارثہ بن نعمانؓ اپنی والدہ کے بہت ہی خدمت گزار اور اطاعت شعار تھے۔‘‘ (بیہقی؍ شعب الایمان)حضرت معاذ بن جبلؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ؐ نے مجھے وصیت کرتے ہوئے فرمایا:’’اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرنا، اگرچہ وہ تجھے تیرے اہل اور دنیوی مال و جائیداد سے دست بردار ہونے کا بھی حکم دیں تو ان کے حکم سے سرتابی نہ کرنا۔‘‘(مسند احمد)

 

 

حضرت ابوسعید خدریؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، اے آدم کے بیٹے، اپنے والدین کی خدمت کر، ان سے صلہ رحمی کر، اللہ تیرے کام آسان کر دے گا اور تیری عمر میں اضافہ فرمائے گا اور اپنے رب کی اطاعت کر کہ تجھے عقل مند کہا جائے اور اس کی نافرمانی مت کر کہ تجھے جاہل کہا جائے۔‘‘ (بحوالہ ابن الجوزیٖ؍ برّالوالدین)
خداش بن سلامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: میں انسان کو اس کی والدہ کے متعلق صلہ رحمی، حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔ میں انسان کو اس کی والدہ کے متعلق وصیت کرتا ہوں۔ میں انسان کو اس کی والدہ کے متعلق وصیت کرتا ہوں۔ چوتھی بار فرمایا: میں انسان کو اس کے والد کے متعلق وصیت کرتا ہوں اور میں انسان کو اس کے قریبی رشتے داروں کے متعلق وصیت کرتا ہوں۔‘‘(بحوالہ ابن الجوزی؍برّالوالدین)۔جب کہ اس سلسلے کی مشہور حدیث حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’الجنّۃ تحت اقدام الاُمّھات‘‘’’جنت مائوں کے قدموں تلے ہے۔‘‘تاہم ان ارشادات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا اور یہ سمجھ لینا کہ معاشرتی زندگی اور خاندانی نظام میں باپ ثانوی حیثیت کا حامل ہے یا اس کا مقام و مرتبہ کسی بھی طرح کم ہے یا اس کی خدمت، اطاعت و فرماں برداری اور حسنِ سلوک کی اہمیت نہیں، یہ سوچ اور یہ تصوّر سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے۔ والدین دونوں ہی حُسن سلوک کے مستحق ہیں۔ البتہ ’’ماں‘‘کو عظمت اور اولیت حاصل ہے۔