نیٹ ورک بحران سرحدی دیہات کے طالب ِعلم پریشان

رخسانہ کوثر

عالمی وباء کووڈ 19 کی وجہ سے جہا ں پوری دنیا کا نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا، وہیں اس وباء نے تمام شعبہ زندگی کو بری طرح سے متاثر کیا۔ جن میں سب سے زیادہ نقصان شعبہ تعلیم کو ہوا ہے، کیونکہ کسی بھی ملک کی تعلیم دو یا اس سے زائد سال تک مسلسل متاثر ہو، تو یقینا اس ملک کا مستقبل کیسا ہوگااس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ وہ ملک کتنا پیچھے رہ جائے گا اس کی وضاحت کی مزید ضرورت بھی نہیں ہے۔ بہر کیف، اس میں کو ئی شک کی بات نہیں کہ ہمارے ملک ہندوستان نے کرونا کے اس قہر میں آن لائن تعلیم کو فروغ دینے کی بہت کوشش کی۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اسکول بند ہونے کے نقصان سے بچانے کے لئے اوربچوں کو تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے حکومت نے بہت سارے مثبت اقدامات کئے جن میں اس سمت میں ایک اہم پہل(پی ایم اے ودیا) کی شروعات ہے۔ اس سے برابری کا موقع حاصل ہوتاہے۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ (این آئی او ایس) سے متعلق سویم موک(ایم او او سی ایس) کے تحت تقریباً 92 آن لائن کورسز شروع کیے گئے۔ جس کے تحت تقریباً 1.5کروڑ طلبا نے اپنا اندراج کروایا۔ لیکن با وجود اس کے ملک کی بیشتر علاقہ جات ایسے ہیں جو ان اقدامات سے فیضیاب نہیں ہو سکے، جس کی سب سے بڑی وجہ نیٹورک کی عدم دستیابی ہے۔
اسی سلسلہ میں ملک کا تاج کہلائی جانے والی ریاست جموں کشمیر کے ضلع پونچھ کی اگر بات کی جائے تو تینوں اطراف سے سرحدسے گھیرا یہ ضلع آج بھی بہترین نیٹورک سروس کو ترس رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس ضلع میں کئی ایسے گاؤں آباد ہیں جہاں نیٹورک کی کمی کی وجہ سے ناٹ ریچ ایبل کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں آن لائن تعلیم جیسی سہولت محض ایک خواب ہے۔ اسی سلسلہ میں راقم کا دورہ ضلع پونچھ کی تحصیل حویلی کے گاؤں سلوتری میں ہوا، جو کہ ایل او سی سے چند میٹر کی دوری پر واقع ہے۔وہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں نیٹورک کی سہولیات ہمیں میسر نہیں ہے۔ مقامی پنچ سارین اختر جو سلو تری وارڈ نمبر دو کی رہنے والی ہیں، ان کا یہ کہنا ہے کہ گاؤں سلوتری میں سب سے بڑی مشکلات نیٹ ورک کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارے بچے یہاں سے پونچھ جاتے ہیں آن لائن کلاسز لگانے کے لئے۔
مزید کہتی ہیں کووڈ کے دوران ہمارے بچے یہاں سے پونچھ سات کیلومیٹر کی دور کلاسز لگانے جاتے تھے۔ ہائر لیول کے بچے تو گاڑیوں کا سفر کر لیتے تھے لیکن جو بالکل چھوٹے بچے ہیں، انکو گھر پر پاس بیٹھ کر آن لائن کلاسز لگانی تھی لیکن یہاں کے لوگ کہاں جائیں آن لائن کلاسز لگوانے کے لئے؟ وہ کہتی ہیں ہمارے بچوں کو کسی بھی طرح کی انفارمیشن جلد نہیں پہنچ پاتی ہے۔یہاں سے پونچھ تک 30 روپے کرایہ لگ جاتا ہے تو اتنا دور کلاس لگانے کے لئے کوئی نہیں جا سکتا۔یہاں کے سبھی بچے چاہے وہ ہائر لیول کے ہوں یاسیکنڈری کلاس کے،ان کو کسی بھی طرح کی سہولت میسر نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نیٹ ورک جیسی سہولیات کو جلد از جلد بحال کیا جائے گا۔
وہیں اسی گاؤں کے ایک اور مقامی مشتاق احمد جن کی عمر 50 سال ہے، کا کہنا ہے کہ نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اس کی وجہ سے یہاں کے ملازمین بھی بہترکام نہیں کر پا رہے ہیں۔وہ مزید کہتے ہیں کہ کئی بار ہمارے دور کے رشتے داروں میں اموات واقع ہوجاتی ہے تو کئی دنوں تک ہمیں پتہ نہیں چل پاتا۔ جو لوگ یہاں سے باہر کام کاج کرنے کے لیے جاتے ہیں یا گئے ہیں وہ گھر والوں سے بالکل کٹے ہوئے ہیں۔ کئی کئی دنوں تک گھر کے افراد سے بات چیت نہیں ہو پاتی ہے۔ اسی حوالے سے سلو تری کے رہنے والے اعجاز احمد جن کی عمر 20 سال ہے،اور جو کہ کالج اسٹوڈنٹ ہیں، انہوں نے بڑے دکھ کے ساتھ اظہار کیا کہ یہاں کے اسٹوڈنٹ نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ جب کہ میں خود ایک طالب علم ہوں بہت تکلیف ہوتی ہے مجھے جب میں اپنی کلاسز آن لائن نہیں لگا پاتا۔اعجاز نے بتایا کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جب بہت زیادہ بارش ہوتی ہے تو ہم کئی دنوں تک پڑھائی نہیں کر پاتے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ہمیں مقابلہ جاتی امتحانوں کا بھی کوئی پتہ نہیں چل پاتا، جب کبھی فارم بھرتے بھی ہیں تو کئی بچوں کے امتحان چھوٹ جاتے ہیں۔نیٹورک نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے پاس نوٹیفکیشن جلدی نہیں پہنچ پاتا ،جس کی وجہ سے ہم آج کے اس جدید دور میں بھی بہت پیچھے ہیں۔ اس صاف ظاہر ہے کہ ڈیجٹیل انڈیا کے اس دور میں نو نٹ ورک جیسی پریشانی ملک کے مستقبل کو کس طرف لے جا رہی ہے۔لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ ضلع پونچھ کی سرحدوں پر آباد علاقہ جات میں بھی نیٹ ورک جیسی سہولیات کومزید بہتر کی جائے تاکہ ڈیجٹیل دنیا کے اس دور میں سرحدی بچے بھی آن لائن تعلیم سے مستفیدہو کر اپنا مستقبل سنوار سکیں۔
(منڈی، پونچھ۔رابطہ نمبر9350461877)
[email protected]